گرمی کا موسم آیا: بچوں کے لیے ایک نظم:: محمد خلیل الرحمٰن

گرمی کا موسم آیا

محمد خلیل الرحمٰن


گرمی کا موسم آیا
لمبی دوپہریں لایا


اکّڑ بکّڑبمبے بو
کھیل میں مجھ کو آنے دو


برگد کے سائے میں ہم
ناچیں کودیں چھم چھم چھم


کوئل گیت سناتی ہے
کُو ہُو کُو ہُو گاتی ہے


میٹھے آم درختوں سے
کل جو ہم نے توڑے تھے

خوب مزے سے کھائیں گے
مِل کر شور مچائیں گے

گرمی کے یہ لمبے دِن خوابوں میں بس جائیں گے
صبح سوئرے اُٹھ کر ہم ، جب اسکول کو جائیں گے
یادوں کو، اِن باتوں کو، باجی سے لِکھوائیں گے
سامنے سارے بچوں کے، اِک مضمون سنائیں گے

گرمی کا موسم آیا
لمبی دوپہریں لایا​
فارقلیط رحمانی، تلمیذ، سید زبیر ، مزمل شیخ بسمل ، سید شہزاد ناصر ، الف عین ، محمد یعقوب آسی ، ملائکہ ، ابن سعید ، محمد بلال اعظم ، عائشہ عزیز ، یوسف-2 ، راشد اشرف
 
آخری تدوین:

جیہ

لائبریرین
واہ واہ واہ
مکرر ارشاد



برسوں پہلے ایک نظم پڑھی تھی جس کا پہلا ہی بند یاد ہے۔۔۔

پھر مہینہ جیٹھ کا آیا
پھر در دوزخ کھلا
 
اہاہا----سبحان اللہ
بچوں کی نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے لکھی گئی ایک اور خوبصورت نظم
چاچو-----مبارک ----سلامت
اس کے علاوہ اور کیا کہہ سکتا ہوں۔
 

عمر سیف

محفلین
محمد خلیل الرحمٰن سر ویسے میں ہمیشہ سوچا کرتا تھا کہ یہ کیسے شاعر ہوتے ہیں جو بغیر لاجک کی باتیں نظموں میں لکھ دیتے ہیں اور بچے انہیں رٹا لگا لگا کر یاد کرتے ہیں اور پھر وہی نظمیں انہیں والدین کہتے ہیں "اچھا بیٹا سناؤ تو ذرا"
اکڑبکڑ بمبے بو کا اسی نوے پورے سو سے تعلق آج تک سمجھ نہیں آیا اور پھر سو سے نکلا دھاگا اور چور کہاں سے گھس گیا بیچ میں ؟؟
پر یقین کریں اب جب یہ نظمیں اس عمر میں دوبارہ پڑھتے ہیں تو پہلے تو بچپن کی یاد آتی ہے اور پھر؎ وہی نظمیں ہم اپنے بچوں کو یاد بھی کرواتے ہیں اور ہر بار سکائپ پہ فرمائش کرتے ہیں کہ بیٹا وہ والی تو سنائیں، پھر وہ والی ۔۔۔ :)
 
عمر سیف بھائی! دراصل ہماری دنیا اور بچوں کی دنیا ، ہماری لاجک اور بچوں کی لاجک، ہماری سوچ اور بچوں کی سوچ میں بہت فرق ہے۔ ہم بڑے اُس وقت تک بچوں کے لیے کہانیاں اور نظمیں نہیں لکھ سکتے جب تک ہم ان کی طرح سوچنے پر قادر نہ ہوجائیں۔ بچوں کی دینا میں پیٹر پین اور اس کے ساتھ تمام بچے جب خوش ہوتے ہیں تو اُڑ سکتے ہیں۔ میری پاپنز میں میں بھی یہی صورتحال ہے، لیکن یہی بات جب ہم نے جیمز پیٹرسن کےایک سائینس فکشن ناول میں بچوں کو اُڑتے ہوئے دیکھا تو اس ناول کو اُٹھا کر پھینک دیا۔

شمس العلماء مولولی سید ممتاز علی جو بچوں کے لیے پھول اخبار نکالا کرتے تھے، لکھتے ہیں۔
’’ پس اے مصنفو اور زبان کی درستی چاہنے والو! نہ فارسی عربی لفظ بولنے کا شوق کرو نہ ہندی کی چندی نکالنے کی عادت ڈالو۔ تم ہمیشہ وہ زبان بولو اور لکھو جو سب سے آسان ہو۔ جسے بچہ بچہ سیکھ سکتا ہے۔‘‘

یعنی بچوں کے لیے جو بھی فن پارہ تخلیق کیا جائے وہ (نمبر ایک) اتنی آسان زنبان میں ہو کہ بچہ بچہ اسے سمجھ لے اور ( نمبر دو) اس میں ہماری بالغ لاجک کے بجائے بچوں کی لاجک استعمال کی جائے۔ اکڑ بکڑ بمبے بو کی مثال بھی آپ نے خوب دی۔ خوش رہیے۔
 

عمر سیف

محفلین
عمر سیف بھائی! دراصل ہماری دنیا اور بچوں کی دنیا ، ہماری لاجک اور بچوں کی لاجک، ہماری سوچ اور بچوں کی سوچ میں بہت فرق ہے۔ ہم بڑے اُس وقت تک بچوں کے لیے کہانیاں اور نظمیں نہیں لکھ سکتے جب تک ہم ان کی طرح سوچنے پر قادر نہ ہوجائیں۔ بچوں کی دینا میں پیٹر پین اور اس کے ساتھ تمام بچے جب خوش ہوتے ہیں تو اُڑ سکتے ہیں۔ میری پاپنز میں میں بھی یہی صورتحال ہے، لیکن یہی بات جب ہم نے جیمز پیٹرسن کےایک سائینس فکشن ناول میں بچوں کو اُڑتے ہوئے دیکھا تو اس ناول کو اُٹھا کر پھینک دیا۔

شمس العلماء مولولی سید ممتاز علی جو بچوں کے لیے پھول اخبار نکالا کرتے تھے، لکھتے ہیں۔
’’ پس اے مصنفو اور زبان کی درستی چاہنے والو! نہ فارسی عربی لفظ بولنے کا شوق کرو نہ ہندی کی چندی نکالنے کی عادت ڈالو۔ تم ہمیشہ وہ زبان بولو اور لکھو جو سب سے آسان ہو۔ جسے بچہ بچہ سیکھ سکتا ہے۔‘‘

یعنی بچوں کے لیے جو بھی فن پارہ تخلیق کیا جائے وہ (نمبر ایک) اتنی آسان زنبان میں ہو کہ بچہ بچہ اسے سمجھ لے اور ( نمبر دو) اس میں ہماری بالغ لاجک کے بجائے بچوں کی لاجک استعمال کی جائے۔ اکڑ بکڑ بمبے بو کی مثال بھی آپ نے خوب دی۔ خوش رہیے۔
آپ کی بات سے متفق ہوں، ہم جب بچوں کے ساتھ کھیلتے ہیں تو بچے ہی تو بن جاتے ہیں اور پھر انہی کی زبان بھی بولنے لگتے ہیں۔ :)
 
Top