گرماگرم تبصرے، تنقید اور اصلاح کے لیے ایک طرحی غزل'' کیا ہو انجام، ڈر نہ جائے کہیں ''

کیا ہو انجام، ڈر نہ جائے کہیں
موج چڑھتی، اُتر نہ جائے کہیں
پاس رہ کر منا ہی لوں گا اُسے
وہ ہے ناراض، پر نہ جائے کہیں
اک سے اک شخص، اسقدر اچھا
کاش اُس کی نظر نہ جائے کہیں
راستے پُر خطر ہیں الفت کے
اب تو کوئی اُدھر نہ جائے کہیں
ہاں بُرے حال اب میں ہوں لیکن
پھر بھی اُس تک خبر نہ جائے کہیں
دیک لو رو دیا ہوں میں اظہر
،،پھر یہ دریا، اُتر نہ جائے کہیں،،
 

الف عین

لائبریرین
کیا ہو انجام، ڈر نہ جائے کہیں
موج چڑھتی، اُتر نہ جائے کہیں
//کون ڈر جائے، یہ واضح نہیں

پاس رہ کر منا ہی لوں گا اُسے
وہ ہے ناراض، پر نہ جائے کہیں
//دوسرا مصرع شاید اس طرح بہتر ہو:
ہو کے ناراض، پر نہ جائے کہیں

اک سے اک شخص، اسقدر اچھا
کاش اُس کی نظر نہ جائے کہیں
//پہلے مصرع کی زیادہ رواں صورت
ایک سے ایک شخص بہتر ہے
لیکن مطلب سمجھ میں نہیں آیا، اس کی نظر سے کیا توقع ہے؟

راستے پُر خطر ہیں الفت کے
اب تو کوئی اُدھر نہ جائے کہیں
//’اب‘ تو ٹھیک مانا جا سکتا ہے، یعنی آئندہ، لیکن ’اب تو‘ کیوں؟ اب کوئی خطرہ بڑھ گیا ہے جو پہلے نہ تھا؟ دوسرا مصرع محض یوں کر دو تو۔
کوئی اب اس طرف نہ جائے کہیں
اور پہلا مصرع بھی ’دیکھو‘ سے زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔
راہیں مشکل ہیں پیار کی، دیکھو
یا
راہِ الفت ہے پر خطر ۔دیکھو
کوئی اب اس طرف نہ جائے کہیں

ہاں بُرے حال اب میں ہوں لیکن
پھر بھی اُس تک خبر نہ جائے کہیں
//’میں ہوں‘ میں ہوں کی طوالت اچھی نہیں لگتی۔ اس کو یوں کر دیں تو:
میں بُرے حال ہی سہی لیکن
یہ خبر اُس تلک نہ جائے کہیں


دیکھ لو رو دیا ہوں میں اظہر
،،پھر یہ دریا، اُتر نہ جائے کہیں،،
//درست
 
سبھی اشعار تبدیل کیے ہیں جناب اُستاد
اوج سے موج ،ڈر نہ جائے کہیں
اورچڑھتی، اُتر نہ جائے کہیں
وقت آتا ہے، آ بھی جائے گا
رائگاں بس گزر نہ جائے کہیں
راہ الفت ہے پُر خطر دیکھو
کوئی بُھولااُدھر نہ جائے کہیں
میں بُرے حال ہی سہی لیکن
اُس تلک یہ خبر نہ جائے کہیں

دیکھ لو آج رو دیا اظہر
،،پھر یہ دریا، اُتر نہ جائے کہیں،،
 

الف عین

لائبریرین
اوج سے موج ،ڈر نہ جائے کہیں​
اورچڑھتی، اُتر نہ جائے کہیں​
واضح نہیں
وقت آتا ہے، آ بھی جائے گا​
رائگاں بس گزر نہ جائے کہیں​
درست
راہ الفت ہے پُر خطر دیکھو​
کوئی بُھولااُدھر نہ جائے کہیں​
بھولا صحیح نہیں لگ رہا، میری اصلاح ہ بہتر تھی، اسے قبول کرنے میں کچھ اعتراض؟
میں بُرے حال ہی سہی لیکن​
اُس تلک یہ خبر نہ جائے کہیں​
درست
دیکھ لو آج رو دیا اظہر​
،،پھر یہ دریا، اُتر نہ جائے کہیں،،​
اظہر رو دیا سے یہ احساس ہوتا ہے کہ دریا اظہر ہے۔ اس کو ویسے ہی مبہم رہنے دو۔ جیسا تم نے لکھا تھا، اور میں نے درست قرار دیا تھا
 
اوج سے موج ،ڈر نہ جائے کہیں​
اورچڑھتی، اُتر نہ جائے کہیں​
واضح نہیں
جی بہتر ہے تبدیل کیے دیتا ہوں
اوج سے موج ،ڈر نہ جائے کہیں
چڑھتے چڑھتے، اُتر نہ جائے کہیں
وقت آتا ہے، آ بھی جائے گا​
رائگاں بس گزر نہ جائے کہیں​
درست
تھوڑی بہتری کی کوشش کرتا ہوں ، پتہ نہیں کیوں تسلی نہ ہوئی
وقت چاہے ذرا سا مل جائے
رائگاں بس گزر نہ جائے کہیں
راہ الفت ہے پُر خطر دیکھو​
کوئی بُھولااُدھر نہ جائے کہیں​
بھولا صحیح نہیں لگ رہا، میری اصلاح ہ بہتر تھی، اسے قبول کرنے میں کچھ اعتراض؟
ہرگز نہیں جناب وہی بہتر ہے، غلطی سے تبدیل کرنا بھول گیا
راہ الفت ہے پُر خطر ۔دیکھو
کوئی اب اُس طرف نہ جائے کہیں
میں بُرے حال ہی سہی لیکن
اُس تلک یہ خبر نہ جائے کہیں​
درست
اس میں بھی ذرا سی بہتری سوجھی ہے، دیکھیے تو ذرا
مفلسی عیب تو نہیں میرا
اُس تلک یہ خبر نہ جائے کہیں
دیکھ لو آج رو دیا اظہر​
،،پھر یہ دریا، اُتر نہ جائے کہیں،،​
اظہر رو دیا سے یہ احساس ہوتا ہے کہ دریا اظہر ہے۔ اس کو ویسے ہی مبہم رہنے دو۔ جیسا تم نے لکھا تھا، اور میں نے درست قرار دیا تھا
پتی نہیں کیوں اس شعر پر دل بیٹھ نہیں رہا ہے، ایک کاوش اور دیکھیے ورنہ ویسا ہی رہنے دیتا
عارضی ولولہ نہ ثابت ہو
،،پھر یہ دریا، اُتر نہ جائے کہیں،،
گویا اب صورتحال کچھ یوں بنی، کچھ تازہ اشعار کے ساتھ
:)
اوج سے موج ،ڈر نہ جائے کہیں
چڑھتے چڑھتے، اُتر نہ جائے کہیں
وقت چاہے ذرا سا مل جائے
رائگاں بس گزر نہ جائے کہیں
راہ الفت ہے پُر خطر ۔دیکھو
کوئی اب اُس طرف نہ جائے کہیں
مجھ سے بہتر ہیں لوگ دنیا میں
کاش اُس کی نظر نہ جائے کہیں
مفلسی عیب تو نہیں میرا
اُس تلک یہ خبر نہ جائے کہیں
عارضی ولولہ نہ ثابت ہو
،،پھر یہ دریا، اُتر نہ جائے کہیں،،
مجھ پہ الزام ہر بُرائی کا
بد ہے جب نام، دھر نہ جائے کہیں
دُکھ سے مرجھا گیا اظہر
اب تو ڈر ہے بکھر نہ جائے کہیں


 

الف عین

لائبریرین
مطلع اب بھی واضح نہیں، کہنا کیا چاہتے ہو؟
جو دو اشعار تم نے خود ہی ترمیم کی ہے، ان سے تو پچھلی صورت ہی بہتر ہے۔نئے اشعار بھی درست نہیں۔ پہلا واضح نہیں، نیا مقطع بحر سے ہی خارج ہے۔
 
Top