گانے کی تھیلی

گانے کی تھیلی
سید محمد علی بابر زیدی
دور دراز پہاڑوں میں ایک بوڑھا رہتا تھا۔ اس کے گلے پر ایک بڑی سی رسولی تھی جو ہلتی رہتی تھی۔ لوگ اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ یہ رسولی اس بوڑھے کے لیے ایک عذاب بن گئی تھی۔ وہ ہر قیمت پر اس سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا۔
ایک دفعہ بوڑھا جنگل میں لکڑیاں جمع کرنے کے لیے کافی دور تک چلا گیا۔ اس نے لکڑیاں جمع کیں، پھر ان کا گٹھر بنایا اور پیٹھ پر لاد کر واپس چل پڑا۔ سورج غروب ہونے والا تھا۔ وہ اندھیرا ہونے سے پہلے گھر پہنچ جانا چاہتا تھا۔ راستے میں اندھیرا بہت تھا اور کمر پر وزن بھی زیادہ تھا۔ وہ تھک کر چور ہوگیا۔ جب آگے بڑھنے کی ہمت نہ رہی تو اس نے بوجھ اتار کر ایک طرف رکھ دیا اور سستانے لگا۔
اس نے دل میں سوچا کہ اس بڑھتے ہوئے اندھیرے میں گھر تک پہنچنا بہت مشکل ہے، پھر رات کہاں بسر کی جائے؟
ٹھیک اسی وقت اس کی نظر ایک ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی پر جا پڑی۔ اس نے سوچا کیوں نہ اسی میں رات گزاری جائے۔ یہ سوچ کر وہ تیز تیز قدموں سے جھونپڑی کی طرف چل پڑا۔ وہاں پہنچ کر اس نے آواز دی، "کوئی ہے؟"
لیکن جواب نہ ملا۔ وہ کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر جھونپڑی میں داخل ہوگیا۔ وہاں کوئی نہ تھا۔ وہ زمین پر لیٹ گیا۔ اجاڑ جھونپڑی میں اسے بہت ڈر لگ رہا تھا۔ وہ ساری رات جاگتا رہا۔ زیادہ ڈر لگتا تو وہ کوئی گانا گانے لگتا تاکہ خیال بٹ جائے اور ڈر نہ لگے۔
گانے کی آواز جنگل کی خاموشی اور تاریکی میں دور دور تک گونج رہی تھی۔ اچانک کہیں سے واہ وا کی آواز سنائی دی۔ اس خیال سے کہ آدھی رات کو کون آسکتا ہے، اسے بڑی حیرت ہوئی۔ اس نے گانا بند کر دیا اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔
اتنے میں دروازہ کھلا اور ایک بھوت جس کے سر پر ایک سینگ تھا اندر آ گیا۔ اس کے پیچھے پیچھے دوسرے بھوت بھی قہقہے لگاتے، ناچتے گاتے اندر آگئے۔ انہیں دیکھ کر اس کی سٹّی گم ہوگئی۔ پھر بھی اس نے اپنے ڈر کو بھوتوں پر ظاہر نہ ہونے دیا اور دوبارہ بڑے اطمینان سے گانے لگا۔ بھوت غور سے اس کا گانا سنتے رہے۔ پھر سب کے سب ناچنے لگے۔
بھوتوں کے سردار نے بوڑھے سے کہا، "اتنا اچھا گانا ہم نے کبھی نہیں سنا۔ بتاؤ تمہاری آواز میں یہ رس کہاں سے اور کیسے آیا؟"
"آتا کہاں ہے۔ یہ تو بس میرے گلے کی اس تھیلی کی کرامت ہے۔" بوڑھے نے جواب دیا۔
پہلے تو سارے بھوت گھور گھور کر بوڑھے کی رسولی کو دیکھتے رہے، پھر بولے، "تمہارا گانا ہمیں پسند آیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ تم اپنی گانے والی اس تھیلی کو ہمارے ہاتھوں بیچ دو۔ ہم منہ مانگے دام دینے کو تیار ہیں۔"
بوڑھے نے جواب دیا، "میں بیچ تو دوں، مگر پہلے یہ بتاؤ کہ تم اسے نکالو گے کیسے؟"
یہ سن کر سارے بھوت کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ پھر ان کے سردار نے کہا، "گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ ہم اسے اس طرح نکالیں گے کہ تکیلف ہونا تو الگ رہا تمہیں پتا بھی نہیں چلے گا۔"
بوڑھے نے جواب دیا، "تو پھر ٹھیک ہے۔ تم اسے لے سکتے ہو۔"
بات دراصل یہ تھی کہ بوڑھا اپنی رسولی سے نجات پانا چاہتا تھا۔ اس کا مقصد بھوتوں کو ٹھگنا یا دھوکہ دینا ہرگز نہ تھا۔ لیکن بھوتوں نے خود ہی بوری بھر کر سونا اور قیمتی پتھر لا کر بوڑھے کے سامنے ڈھیر کر دیے۔ وہ اس خزانے کو تعجب سے دیکھ ہی رہا تھا کہ رسولی بھوتوں کے سردار کے ہاتھ میں تھی۔ اس کو پتا ہی نہ چل سکا کہ رسولی کب اور کس طرح اس کے گلے سے الگ کر لی گئی۔
سورج نکلتے ہی سارے بھوت وہاں سے رفو چکّر ہوگئے۔ بوڑھے کی خوشی کی اب کوئی انتہا نہ تھی۔ اس نے اس سارے خزانے کو سمیٹا اور گھر کی طرف چل پڑا۔
×××​
 

نیرنگ خیال

لائبریرین

شمشاد

لائبریرین
ان بھوتوں نے سنا ہے تھیلی گردن سمیت اتار لی تھی۔ اور خزانہ وہیں پڑا رہ گیا۔ :p
بہت عمدہ انیس بھائی۔ زندہ باد :)
نہیں گردن سمیت نہیں اتاری تھی۔

جب تھیلی اتری تو بڈھا ایکدم سے جوان ہو گیا اور خزانہ گھر لا کر اس ایک بڑا سا گھر خریدا، پھر شادی کی، پھر بچے ہوئے اور انہوں نے ہنسی خوشی ساری زندگی بسر کی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
Top