کے ایم اشرف کی یاد میں اردو انجمن برلن کا جلسہ( عارف نقوی۔۔برلن)

سجادعلی

محفلین
ہمبولٹ یونیورسٹی برلن کے سابق مہمان پروفیسیر ڈاکٹر کے ایم اشرف کی یاد میں اتوار 18 مئی کو برلن میں اردو انجمن برلن
کے زیر اہتمام ایک جلسہ کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں ہندوستانی، پاکستانی اور جرمن اسکالروں نے شرکت کی۔

اس موقع پر ایک مشاعرہ بھی منعقد کیا گیا نیز مشہور ہندوستانی مغنیہ شکھا گنگولی نے اردو کی کلاسیکی غزلوں کو ترنم سے
پیش کیا ۔ریڈیو آرٹسٹ سُمِترو پاؤل نے طبلے کی ستار اور سیباستیان درائیر نے ستار کی جھنکار سے محفل میں سماں باندھا۔

جلسہ کا آغاز کرتے ہوئے اردو انجمن کے نائب صدر انور ظہیر رہبر نے اردو انجمن کی طرف سے مہمانوں کا خیر مقدم کیا۔
اس کے بعد اردو انجمن کے صدر عارف نقوی نے اپنی انجمن کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ اردو انجمن برلن
مذہب و ملت اور قومیتوں کی حدوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر اس شخص کا خیرمقدم کرتی ہے جسے اردو زبان و ادب سے پریم ہے۔
انھوں نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ برلن میں ڈاکٹر اشرف کو جن کا اسی شہر میں 1962ء میں انتقال ہوا تھا، نیز ڈاکٹر
ذاکر حسین اور ڈاکٹر عبدلعلیم کو جنھوں نے یہاں کی یونیورسٹی سے 1926ء اور 1932ء میں ڈاکٹریٹ کی تھی فراموش کردیا گیا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر اشرف کی زندگی اور کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے عارف نقوی نے بتایا کہ اشرف کی پیدائش 1903ء میں
عکیگڑھ کے قریب ایک گاؤں میں راجپوت گھرانے میں ہوئی تھی۔ ایم اے اور ایل ایل بی انھوں نے علیگڑھ سے کیا اور پی ایچ ڈی
کی ڈگری لندن جا کر حاصل کی۔ Medival India کے لوگوں کی سماجی و تہذیبی زندگی پر ان کی تھیسس تاریخی تحقیق کا بہترین شاہکار مانی جاتی ہے۔
انھوں نے اسکول کے زمانے سے آزادی کی تحریک میں حصہ لیا۔
پہلی جنگِ عظیم کے دوران ان کے والد کو درّۂ دانیال اور مشرقی افریقہ کی مہم پر جانا پڑا۔
اس کے بعد ا نھوں نے مولوی اسطفے کریم کے ساتھ مل کر کالج میں حذب اللہ تحریک کے لئے کام کیا۔جس کی بنیاد
عبد اللہ سندھی نے رکھی تھی۔
وہ مولانا محمد علی کی خلافت تحریک، مہاتما گاندھی کی سوراج تحریک اور ہجرت تحریک سے بھی بہت متاثر
ہوئے ( انھوں نے ہجرت کے لئے اپنا نام بھی دے دیا تھا)۔ چورا چوری کے واقعہ کے بعد جب گاندھی جی نے نان کوآپریشن تحریک
کو واپس لے لیا تو اس سے انھیں بہت مایوسی بھی ہوئی تھی۔
اشرف کی دوستی مہاراجہ الور سے بھی ہو گئی، جنھوں نے انھیں 1927ء میں لندن میں تعلیم کے لئے بھیجا مگر بعدمیں وہ مہاراجہ سے ایسے بدظن ہوئے کہ نہ صرف انھوں نے مہاراجہ کی نوکری چھوڑ دی بلکہ مہاراجہ کے خلاف میواتی کسانوں کی مسلح تحریک میں بھی نمایاں رول ادا کیا۔ 1929ء کے آخر میں وہ دوبارہ لندن گئے اور وہاں ان کی ملاقات مارکسی دانشوروں سے ہوئی۔ اور ان پر اشتراکی خیالات کا غلبہ ہوا۔ 1932ء میں ہندوستان لوٹ کر انھوں نے آزادی کی تحریک اور اشتراکی تحریک میں بھر پور حصہ لیا۔ وہ جواہر لعل نہرو اور مولانا آزاد کے، جب وہ کانگرس کے صدر تھے سکریٹری بھی رہے اور دوسری جنگ عظیم کے دوران جیل میں بھی دن گذارے اور وہاں تیس دن
کی بھوک ہڑتال کی ۔ جس کا ان کی صحت پر بہت برا اثر پڑا۔ 1922ء کے ہندو مسلم فسادات اور 1947ء کے ہولناک فسادات نے، جنھیں انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، ان پر بہت گہرا اثر کیا اور ذہنی طور پر بہت پریشان کیا۔ وہ کچھ عرصے کے لئے پاکستان بھی گئے جہاں انھیں غیر قانونی طور سے ملک میں داخل ہونے کے الزام میں جیل میں رکھا گیا۔ وہاں سے چھوٹ کر جب وہ جلاوطن کی حیثیت سے
ہندوستان آئے تو دو برس تک نہرو سرکار نے انھیں شہریت نہیں دی۔ بلکہ نہرو نے ، جو اس وقت وزیر اعظم تھے اور اشرف کو پہلے سے جانتے تھے، ان سے کہا کہ ’’ آپ اب ہندوستانی نہیں ہیں۔‘‘ اس کے جواب میں اشرف نے نہرو سے کہا:
’’ میں آپ سے بہتر ہندوستانی ہوں۔ میں راجپوت ہوں۔‘‘

دو سال کے بعد وہ دلی یو نیورسٹی کے کروڑی مل کالج کے شعبۂ تاریخ کے صدر کے عہدے پر فائز ہوئے اور پھر برلن کی ہمبولٹ
یونیورسٹی میں 1960ء میں انھوں نے مہمان پروفیسر کی حیثت سے پڑھانا شروع کیا۔ 7 جون 1962ء کو برلن میں اچانک حرکت قلب بند ہو جانے کے باعث ان کا انتقال ہو گیا۔

عارف نقوی نے اپنے مقالے میں اشرف سے اپنی ذاتی ملاقاتوں اور ان کے دلچسپ خطوط کے حوالے بھی دئے ااور بتایا،
کہ اشرف ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔

اشرف ہندوستانی شخصیتوں میں سب سے زیادہ مولانا حسرت موہانی اور ان کی بیگم سے متاثر ہوئے تھے۔ جیسا ک ہ وہ خود ایک مضمون میں لکھتے ہیں:

’’ اسطفے کریم کی تعلیم جہاد کے بعد جب حسرت اور بیگم حسرت عملی نمو نے کے طور پر سامنے آئے تو ایک زمانہ تک اس
کسوٹی پر کوئی دوسرا رہنما نہ اتر سکا۔‘‘

عارف نقوی کی تقریر کے بعد اشرف کے ایک پرانے شاگرد، ڈاکٹر فریڈیمان شلندر نے، جو حال ہی میں جرمنی کے براڈکاسٹنگ اسٹیشن’’ ڈائچے ویلے ‘‘کے ایشیائی شعبہ کے صدر رہ کر ریٹائر ہوئے ہیں، تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ ، ڈاکٹر اشرف کے آنے سے پہلے ہمبولٹ یونیورسٹی میں صرف قدیم ہندوستانی تاریخ، خصوصاً ویدک دور کے باریمیں بتایا جاتا تھا۔ ہمارے سامنے صرف رامائن وغیرکی روایتی تصویریں تھیں۔ ڈاکٹر اشرف کے لکچروں نے پہلی بار ان کی آنکھیں کھولیں اور انھیں معلوم ہوا کہ ہندوستانی تاریخ صرف ویدک تاریخ نہیں ہے۔

تقاریر کے بعد مشاعرے کا دور شروع ہوا جس کی نظامت محترمہ عشرت معین سیما نے انجام دی۔ مشاعرے میں خاص طور سے
ہمبرگ سے آئی ہوئی مہمان شاعرہ محترمہ طاہرہ رباب، اردو انجمن کے صدرعارف نقوی ،فارسی شاعر کاؤس ابراہیمی، خواجہ حنیف تمنا، عشرت معین سیما، انور ظہیر رہبر، انور بیابانی ارشاد خان، ناہید ادا، سرور غزالی وغیرہ نے اپنا کلام سنایا اور حاضرین سے دال حاصل کی۔

طاہرہ رباب کے مندرجہ ذہل اشعار کو خاص طور سے پسند کیا گیا:

برا نہیں ہے یہاں کچھ بھی سب بھلا ہی ہے
کہ خاص و عام میں اللہ کا نور باقی ہے
مجھے نہ ڈھوڈھتے پھرنا میدانِ محشر میں
تمھاری ختم مگر میری راہ باقی ہے
رباب جو نہ پئے وہ خمار کیا جانے
تیرا نصیب کہ ساقی تیرا وہ باقی ہے

طاہرہ رباب کی ایک نظم کو بھی پسند کیا گیا جس کے چند مصرعے اس طرح ہیں:

تو بھی جلوہ میں بھی جلوہ آ جلا دیں طور کو
کوئی موسی کردے مل کے حیرتوں سے چور پھر
آ کوئی معراج کا رستہ دکھائیں حسن کو


حنیف تمنا نے اپنے قطعات پر خاص طور سے داد حاصل کی جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:

قصر شاہی سے نکل کے سر بازار آکر
کسب سے دامن حق اپنا بچاکر دیکھو
اپنے قانون کا معیار پرکھنے کے لئے
چھوڑ کر تخت کٹہرے میں بھی آکر دیکھو
اور
پانی کو سر دشت گزرتے نہیں دیکھا
شعلوں کو سمندر میں اترتے نہیں دیکھا
بہکے ہوئے لوگوں کا تسلط ہو جہاں بھی
اس قوم کا کردار سنبھلتے نہیں دیکھا

حنیف تمنا کے ان اشعار کو بھی کافی پسند کیا گیا:
اک فاختہ ندیم تھی امن و امان کی
صیاد نے اسے بھی شکاری بنا دیا

یہ دہشت و قتال بنام جہاد کیا
نوری ہے دین آپ نے ناری بنا دیا

کیسے سفید پوش تھے میرے وطن کے لوگ
افسوس رہبروں نے بھکاری بنا دیا

عارف نقوی نے کہا:

بزم طرب میں ساغر و مینا کا جوش ہے
میخانہ جل رہا ہے یہاں کس کو ہوش ہے
ساقی کے دست، ناز سے رستا ہوا لہو
فریاد کر رہا ہے زمانہ خموش ہے
دیتے ہوئے پناہ وہ جلتے مکان میں
صیاد کہہ رہا ہے یہی ناؤ نوش ہے
گلہائے تر ہیں ہاتھ میں خنجر ہے جیب میں
کس اہتمام خاص سے وہ فام پوش ہ ے
راہِ وفا میں تونے بھی پودا لگا دیا
اپنے لہو سے سینچ اگر سرخ پوش ہے
اور پھر شکوہ کیا:
پھولوں کی فکر خاص میں پھرتا ہے دربدر
عارف کا حال دیکھئے خانہ بدوش ہے

انور ظہیر رہبر نے کئی غزلیں سنائیں اور دعوی کیا:

شاعری کا بھی اک الہام ہے مجھ میں
یعنی نزاکت حسن کلام ہے مجھ میں
وہ کبھی ٹوٹ کے چاہے یہ آرزو ہی رہی
منتظر شدت عشق ہنگام ہے مجھ میں

اور عشرت معین سیما نے کہا:

میری ہر بات کو گر واجبی سمجھے ہو تو سمجھو
تم اپنا فیصلہ ہی آخری سمجھے ہو تو سمجھو
تمھارے نام کا سورج میرے ماتھے چمکتا ہے
شب الفت کو گر تم تیرگی سمجھے ہو تو سمجھو

پوٹسڈم سے آئے ہوئے نوجوان شاعر اختر سید نے پڑھا:

سکوں کی تلاش میں رہتا ہوں
تنہائی کے دکھ سہتا ہوں

سر بازار نیلام حسن و جوانی
غربت کے سائے دیکھتا رہتا ہوں

مشاعرہ کے بعد مشہور مہمان مغنیہ محترمہ شکھا گنگولی اور طبلہ نواز سُمِترا پاؤل نے ایک گھنٹے تک مرزا غالب اور دیگر کلاسیکی اردو شعراء کی غزلیں پیش کیں۔ جنھیں بہت پسند کیا گیا۔

ٰ(یہ رپورٹ القمرآن لائن کی 30 مئی کی اشاعت سے لی گئی)
 

مغزل

محفلین
سجاد علی صاحب محفل میں خوش آمدید
ماشاء اللہ ایک مفصل رودار آپ نے شیئر کی ہے بہت شکریہ
آپ تعارف کےزمرے میں اپنا تعارف پیش فرمائیں
نیاز مند
م۔م۔مغل
 
Top