کیوں لوٹ آئے ہو؟

ایک پرانی کاوش اچانک ہاتھ لگی، من وعن احباب کی نذر کر رہا ہوں


جن لمحوں میں۔۔۔۔میں ریت کی مانند
دشتِ تنہائی میں بکھرا پڑا تھا
دکھ کے تھپیڑے میری خاک اڑاتے تھے
اور غم کے گدھ
مجھے نوچ نوچ کھاتے تھے
تم کہاں تھے ؟
اورہجرکے ان عذاب لمحوں میں
جب مجھے سر تا پا دردکی زنجیروں سے جکڑدیا گیا تھا
اورتمہاری بے رخی نوکیلی میخیں کی صورت
جسم و جاں کوچیرتی تھیں، پھاڑتی تھیں
تم جا چکے تھے !
اب جب کہ لوٹ آئے ہو
کیوں لوٹ آئے ہو؟
کہ میں غموں سے لڑنا سیکھ چکا ہوں
اور میرے غم کو قرار آچکا ہے !

خرم !​
 
Top