کیوں شکایت بار ہر اک اشک ہے اسیر کا

آب حیات

محفلین

کیوں شکایت بار ہر اک اشک ہے اسیر کا
جکڑے رکھنا دام میں گریا ہے اس زنجیر کا
درد ازل سے شیوۂ طلابِ راہِ حق مگر
منہ تحیر سے کھلا ہوا ہے ہر تحریر کا
دم کے رکنے تک کوئی پل تیرگی مٰیں نہ رہا
ضو بمثلِ شمع ہے اور ظرف ہے تنویر کا
سر بکف مقتل کی جانب گامزن ہے اسمعیل
ہے رخِ زیبا یہ اک ہی خواب کی تعبیر کا
 
Top