اکبر الہ آبادی :::: کیونکر کہوں کہ کچُھ بھی نہیں فیر کے سِوا ---- Akbar Allahabadi

طارق شاہ

محفلین


ہلکی پُھلکی شاعری میں گہری وزنی باتیں اکبر الہ آبادی کا ہی خاصہ تھیں۔
ان کی شاعری لطیف اور خوب الفاظ میں کہیں چوٹ، کہیں مشاہدہ کی صورت ہی رہی،
جو اک آگ چڑھی دیگچی کی بھاپ کے طرح فضا میں گرمی اور بُو
بکھیرتی رہی تھی، اور حواسِ خمسہ خُوب رکھنے والوں کو کبھی گراں اور کبھی محبوب تھیں

ہم اگر غور سے پڑھیں تو، آج بھی اُنکی شاعری سے وہ حدّت، وہ مہک محسوس کی جاسکتی ہے۔
اور ہم جان سکتے ہیں کہ اُس دیگچی میں اُس زمانے کیا پک رہی تھی:




کیونکر کہوں کہ کچُھ بھی نہیں فیر کے سِوا
سب کچھ فنونِ غرب میں ہے خیر کے سِوا

کعبے میں بُو کی بحث، کلیسا میں رنگ کی
اب شیخِ ہند جائیں کہاں دیر کے سِوا

دریا میں کیوں رہو، کہ مگر سے ہو سابقہ
لیکن رہو تو چارہ ہی کیا سیر کے سِوا

اشجار میوہ دار ہیں، اُس باغ میں تو ہُوں
مجھ کو نصِیب کچُھ بھی نہیں سیر کے سِوا

آپس کا اتحاد یگانوں سے اُٹھ گیا
اب پُوچھتا ہے کون ہمیں غیر کے سِوا

کھاتا ہُوں غوطے، ہنستے ہیں ساحل پہ ہیں جو یار !
آواز کوئی آتی نہیں تیر کے سِوا

اکبرالٰہ آبادی
 
آخری تدوین:
Top