کیسے پتھر سے ٹکرائے ہو اطہر

بانٹتے پھرتے تھے کبھی
ہم آبِ حیات زمانے کو
اور ہمیں قطرہ نہ ملا
آتشِ قلب بجھانے کو
حالتِ ہجر میں مجھ کو
تڑپتے دیکھا اور بولے
تمہیں کس نے کہا تھا
ہم سے دل لگانے کو
اک عمر گنوائی ہے
جس شخص کی خاطر میں نے
حال تک نہیں پوچھتا
وہ اک رسم نبھانے کو
اتنا روٹھا اتنا بگڑا
اک چھوٹی سی لغزش پر
قدموں میں دستار بھی رکھی
گستاخی کے ہرجانے کو
کرتا ہے جبر پہ جبر
کیسے پتھر سے ٹکرائے ہو اطہر
درکار ہیں اب کتنے زمانے
تمہیں ہوش میں آنے کو
ازقلم: محمد اطہر طاہر
 
Top