کیا یہ حدیث صحیح ہے ۔۔۔؟

عندلیب

محفلین
عبداللہ بن عمروعاصرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وصلم نے فرمایا کبیرہ گناہوں میں سے ماں باپ کو گالی دینا ہے ۔
صاحبہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا کوئی اپنے ماں باپ کو گالی دے سکتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وصلم نے فرمایا ہاں ! آدمی دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اورآدمی دوسرے آدمی کے ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اسکی ماں کو گالی دیتا ہے ۔۔۔
 
السلام علیکم، جی بہن، یہ حدیث صحیح ہے۔ اسے امام بخاری نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے:
[arabic]حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ أَنْ يَلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ يَلْعَنُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ قَالَ يَسُبُّ الرَّجُلُ أَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ أَبَاهُ وَيَسُبُّ أُمَّهُ
[/arabic]
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا "بڑے کبیرہ گناہوں میں سے یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین پر لعنت کرے"۔
عرض کیا گیا:
"اے اللہ کے رسول! آدمی اپنے والدین پر کیسے لعنت کرتا ہے؟"
فرمایا:
"(اس طرح کہ) آدمی کسی دوسرے آدمی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ (جواب میں)اس کے باپ کو گالی نکالتا ہے اور اس کی ماں پر دشنام طرازی کرتا ہے۔"

(صحیح البخاری کتاب الادب باب لا یسب الرجل والدیہ)
 
اس حدیث نبوی کا مستند حوالہ فراہم کرنے پر عبداللہ حیدر صاحب کو اللہ تعالی جزائے نیک عطا فرمائیں۔

لوگوں نے رسول اللہ صلعم سے بے تحاشا روایات منسوب کررکھی ہیں، بسا اوقات یہ بتانا مشکل ہوتا ہے کہ آیا کہ بتانے والا درست کہہ رہا ہے یا اپنی طرف سے منسوب کررہا ہے۔ یہ جاننے کے لئے آیا کہ رسول اللہ صلعم سے منسوب شدہ کوئی روایت کسی نے اپنی طرف سے گھڑی ہے یا نہیں ، ہم کو قرآن حکیم سے رجوع کرنا چاہئیے۔

قرآں حکیم کی آیات کی روشنی میں‌ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ فرمان رسول اللہ صلعم ، اللہ تعالی کے فرمان ، قرآن حکیم کے احکامات سے مطابقت رکھتا ہے۔

ماں‌باپ کے احترام کے بارے میں اللہ تعالی کے احکامات دیکھئے۔ جس سے واضح ہے کہ والدین کی عزت کرنا، ان سے نیک سلوک کرنا ہم پر فرض‌ہے ۔ جب ایک انسان اللہ تعالی کی طرف سے کئے ہوئے فرض کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان یقینی طور پر رسول اکرم نے ہم تک پہنچایا۔

اللہ تعالی کی ماں‌باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی ہدایت، اس ہدایت کے خلاف عمل گناہ :

[ayah]6:151 [/ayah][arabic]قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلاَّ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُم مِّنْ إمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلاَ تَقْرَبُواْ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ[/arabic]

کہہ دو کہ آؤ میں سناؤں کیا حرام کیا ہے تمہارے رب نے تم پر یہ کہ نہ شریک ٹھہراؤ تم اس کا (کسی کو) ذرا بھی اور (حکم دیا ہے) کہ ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو اور نہ قتل کرو اپنی اولاد کو مُفلسی (کے ڈر) سے۔ ہم رزق دیتے ہیں تم کو بھی اور اُن کو بھی اور مت قریب جاؤ بے شرمی کی باتوں کے خواہ وہ کھلی ہوں یا چُھپی اور مت قتل کرو کسی جان کو جس (کے قتل) کو کو حرام ٹھہرایا ہے اللہ نے مگر حق کے ساتھ یہ وہ باتیں ہیں کہ حُکم دیا ہے اُس نے تم کو اُن کا تاکہ تم سمجھ بُوجھ سے کام لو۔

والدین کا حق پہچاننے کی ہدایت اور والدہ کا انسان کو اٹھائے پھرنے کا احسان۔
[ayah]31:14 [/ayah][arabic]وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ [/arabic]
اور تاکید کی ہے ہم نے انسان کو اپنے والدین کا (حق پہچاننے کی) اٹھائے پھرتی ہے اس کو اس کی ماں ضعف پر ضعف کی حالت میں اور اس کا دودھ چھڑایا جاتا ہے دوسالوں میں، (نصیحت کی ہم نے اسے) کہ شکر گزار رہ میرا اور اپنے والدین کا۔ میری ہی طرف تجھے لوٹ کر آنا ہے۔

والدین کے ساتھ اچھے سلوک کا حکم اور ان کے ہر حکم کو ماننے کا حکم ماسوائے شرک کی تعلیم کے:
[ayah]29:8[/ayah] [arabic]وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا وَإِن جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ [/arabic]
اور ہم نے انسان کو اس کے والدین سے نیک سلوک کا حکم فرمایا اور اگر وہ تجھ پر (یہ) کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کی اطاعت مت کر، میری ہی طرف تم (سب) کو پلٹنا ہے سو میں تمہیں ان (کاموں) سے آگاہ کردوں گا جو تم (دنیا میں) کیا کرتے تھے

والدین سے اچھا سلوک نبیوں کا وطیرہ، حضرت یحیی علیہ السلام کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے :
[ayah]19:14 [/ayah][arabic]وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّارًا عَصِيًّا [/arabic]
اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بڑی نیکی (اور خدمت) سے پیش آنے والے (تھے) اور (عام لڑکوں کی طرح) ہرگز سرکش و نافرمان نہ تھے

وجوہات کے ساتھ ، والدیں سے نیک سلوک کا حکم: پھر انسان کی اپنی خواہش کہ اس کی اولاد نیک ہو:
[ayah]46:15[/ayah] [arabic]وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ [/arabic]
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم فرمایا۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف کے ساتھ جنا، اور اس کا (پیٹ میں) اٹھانا اور اس کا دودھ چھڑانا (یعنی زمانۂ حمل و رضاعت) تیس ماہ (پر مشتمل) ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جاتا ہے اور (پھر) چالیس سال (کی پختہ عمر) کو پہنچتا ہے، تو کہتا ہے: اے میرے رب: مجھے توفیق دے کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر فرمایا ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک اعمال کروں جن سے تو راضی ہو اور میرے لئے میری اولاد میں نیکی اور خیر رکھ دے۔ بیشک میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں یقیناً فرمانبرداروں میں سے ہوں


آپ اپنے والدیں کے سامنے اف تک نہیں‌کرسکتے :

[ayah]17:23[/ayah] [arabic]وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا [/arabic]
اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو

اللہ تعالی کے صاف اور واضح احکامات ہم پر اپنے والدین سے نیک سلوک کرنا فرض کرتے ہیں۔ اس فرض سے انکار کرنا اور اس کے برخلاف کرنا اللہ تعالی کی نافرمانی ہے ایسی نافرمانی یقینی طور پر ایک صریح اور بڑا گناہ --- أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ --- ہے۔ اپنے یا کسی کے ماں باپ کو گالی دینا کسی طور بھی ماں باپ سے حسن سلوک نہیں بلکہ ان احکامات کی نفی ہے۔


والسلام
 
اس حدیث نبوی کا مستند حوالہ فراہم کرنے پر عبداللہ حیدر صاحب کو اللہ تعالی جزائے نیک عطا فرمائیں۔

لوگوں نے رسول اللہ صلعم سے بے تحاشا روایات منسوب کررکھی ہیں، بسا اوقات یہ بتانا مشکل ہوتا ہے کہ آیا کہ بتانے والا درست کہہ رہا ہے یا اپنی طرف سے منسوب کررہا ہے۔ یہ جاننے کے لئے آیا کہ رسول اللہ صلعم سے منسوب شدہ کوئی روایت کسی نے اپنی طرف سے گھڑی ہے یا نہیں ، ہم کو قرآن حکیم سے رجوع کرنا چاہئیے۔
السلام علیکم ،
شکریہ فاروق سرور صاحب ، والدین کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں آیات پیش کرنے پر ،
اور اس سے زیادہ شکریہ ایک """ روایت """ کو """ حدیث """ ماننے پر ،
کیا آپ یہ بتانا پسند کریں گے کہ جس روایت کو آپ کی قران فہمی قران کے موافق سمجھے لیکن وہ روایت کسی طور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات سے نسبت کا ثبوت نہ رکھتی ہو تو کیا آپ اسے بطور حدیث قبول کریں گے ؟؟؟؟؟
اور لگے ہاتھوں یہ بھی بتا ہی دیجیے کہ قران الکریم کی طرف رجوع کر کے آخر ہم کس طرح کسی روایت کو پرکھیں ؟؟؟؟؟؟
کسی واضح ، مختصر مدلل جواب کی صورت میں پیشگی شکریہ قبول فرمایے ، و السلام علیکم۔
 
احادیث نبوی اور سنت نبوی کتب روایات میں ہی موجود ہیں۔ روایات کو پرکھنے کے اصول دوبارہ نہیں‌لکھ رہا ہوں۔ آپ سب مجھ سے یقیناًَ بہتر ہی جانتے ہیں۔ یہاں اس فورم پر بھی ایک سے زائید بار ان اصولوں‌کے بارے میں لکھا جاچکا ہے۔

روایات کو پرکھنے کے ان تمام اصولوں کے مستند ہونے کے باوجود اگر کوئی روایت قرآن حکیم کے اصولوں کے خلاف ہو تو وہ رسول اللہ صلعم کی حدیث کے مطابق، رد کئے جانے کے قابل ہے۔ خلاف قرآن ایسا نہیں‌کہ قرآن میں‌پایا نہیں‌جاتا تو خلاف قرآن ہوگیا۔

حدیث پر میرا مطالعہ محدود ہے، میں نے صرف ساڑے تین کتب روایات کا مطالعہ کیا ہے ، میرا خیال ہے کہ رسول اللہ صلعم سے منسوب تقریباً تمام روایت موافق القرآن ہیں ۔ جن جگہوں پر خلاف قرآن روایات نظر آتی ہیں وہ ڈپارٹمنٹ عورتوں کے حقوق، غلامی کا فروغ، عوام کی دولت پر قبضہ ، اور اقتدار و حکومت کی روایات ہیں۔ یہ پیلے بھی عرض‌کرچکا ہوں۔ مزید میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ کچھ ایسی اسرائیلی اور عیسائی روایات کو شامل کیا گیا ہے جو قرآن کا حصہ نہیں‌ہیں یا قرآن حکیم میں واضح احکامات ان اسرائیلی اور عیسائی روایات کے خلاف پائے جاتے ہیں۔


کیا آپ یہ بتانا پسند کریں گے کہ جس روایت کو آپ کی قران فہمی قران کے موافق سمجھے لیکن وہ روایت کسی طور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات سے نسبت کا ثبوت نہ رکھتی ہو تو کیا آپ اسے بطور حدیث قبول کریں گے ؟؟؟؟؟

مختلف صورتوں میں۔ اگر ایک روایت جو کہ رسول اکرم سے منسوب ہو جس کا کوئی بھی ثبوت موجود نہ ہو کہ یہ درست روایت ہے ، لیکن آپ میں‌ ، سب اس امر پر متفق ہوں کہ یہ قرآن حکیم کے اصولوں سے سو فی صد موافقت رکھتی ہے تو ہم اس کو قرآن کی تعلیم اور تفصیل و تفسیر تو مان لیں گے اور اس ناطے سے اس کو حجت مان لیں گے کہ قرآن حکیم اس روایت کے تمام اصولوں کی سو فی صد توثیق کرتا ہے۔ ایسا ہم (‌قانون سازی کے دوران) بہت سے فتاوی اور فقہ کے قوانین کی صورتوں‌ میں‌ بھی کرتے ہیں۔ لیکن مستند ثبوت کی غیر موجودگی میں ہم راوی کی روایت کو ضعیف سمجھیں گے کہ یہ ثابت نہیں‌ہوتا کہ انہی الفاظ میں رسول اکرم نے ان الفاظ کو ادا کیا تھا یا نہیں ۔ اس کی جگہ ہم کسی دوسری مستند سنت رسول کو دیکھیں گے یا پھر دلیل کے لئے قرآن حکیم سے رجوع کریں گے۔

اور لگے ہاتھوں یہ بھی بتا ہی دیجیے کہ قران الکریم کی طرف رجوع کر کے آخر ہم کس طرح کسی روایت کو پرکھیں ؟؟؟؟؟؟
ہمارے دین و ایمان کی ابتدا اللہ تعالی کے بزرگ رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتی ہے۔ حضور (ص) پر اللہ تعالی نے قرآن حکیم نازل فرمایا۔ کسی بھی زیر بحث روایت کے موضوع پر جو احکامات قرآن حکیم میں موجود ہیں ان پر قرآن حکیم کی آیات کی روشنی میں تدبر، باہمی مشورہ و مباحثہ ہی اس امر کا تصفیہ کرسکتا ہے ایک روایت کے احکامات قرآن کے احکامات کے موافق ہیں۔

عموماً اس سلسلے میں یہ نکتہ نظر اپنایا جاتا ہے کہ صاحب اس کو فیصلہ تو بہت پہلے ہوچکا ہے۔ لہذا اب مزید غور کی ضرورت نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں‌کہ تدبر جاری رہنا چاہئیے اس لئے کہ 1۔ روایات پر بحث ہمیشہ سے رہی ہے۔ کچھ فرقہ تو ان روایات کو قبول ہی نہیں‌کرتے۔ 2۔ مسلمان مختلف ادوار میں ان کتب کی ایسی حفاظت نہیں کرپائے جیسا کہ ان کتب کا حق تھا۔ 3۔ ان کتب کی اصل موجود نہیں‌ہے۔

ان وجوہات کی بنیاد پر ایک روایت کے چاہے کتنے بھی مستند راوی موجود ہوں۔، ہم یہ نہیں‌کہہ سکتے کہ یہ جناب امام بخاری ہی نے لکھا تھا بلکہ اب اس روایت کا صرف ایک راوی ہے وہ ہے اس کو بیان کرکے اس نئی کتاب میں‌ یادواشت سے لکھوانے والا۔ لہذا اصل کتب کی غیر موجودگی میں کم از کم یہ تدبر ، ریسرچ اور تصدیق ضروری ہے کہ آخری راوی وہ جو کہ نامعلوم ہے ، جس نے اس کتاب کے یہ روایت اپنی یادواشت سے لکھوائی ، وہ کیا درست کہہ رہا ہے؟ اس کا پہلا ٹیسٹ قرآن حکیم ہے، اور اس کے بعد راویوں کی اسناد۔

چونکہ چھ کتب روایات کے لکھنے والے رسول اکرم سے تقریباً 200 سال کے بعد آئے، لہذا یہ بتانا مشکل ہے کہ ایک راوی سے دوسرے راوی کی ملاقات کا تسلسل یقین طور پر برقرار رہا۔ یقیناً ہم کو حدیث کی بہتر ڈیٹا بیس کی ضرورت ہے ، جس میں صحیح و ضعیف کا امتیاز ، اس پر ریسرچ اور ساتھ میں راویوں کی اسناد، ان کی تاریخ‌ پیدایش و تاریخ‌ اموات اور رہایش کا مقام موجود ہوں۔ تاکہ یہ تصدیق ہوسکے کہ واقعی ایک راوی سے دوسرے راوی کی ملاقات ان دو سو سالوں‌ میں ممکن تھی؟

یقیناً آپ خود بھی پسند کریں گے کہ آپ کو یقین ہو کہ پیش کردہ روایت مستند ہونے کے معیار کے تقاضوں کو یقینی طور پر پورا کرتی ہے۔ اس پر خاصے کام کی ضرورت ہے۔ میں اب تک قرآن حکیم کے الفاظ کے اردو اور انگریزی ترجمہ کا کام ہی پورا نہیں کر پایا ہوں لہذا حدیث شریف کی ڈیٹا بیس کا کام شروع نہیں کرپایا۔ ممکن ہے آپ لوگ باذوق صاحب کے ساتھ مل کر یہ کام کرسکیں۔ جس میں‌روایات کے ساتھ درج ذیل معلومات موجود ہوں۔

1۔ ہر روایت کو موافق القرآن ثابت کرنے والی قرآن کی آیات، اور ان پر مناسب بحث و تبصرہ۔
2۔ روایت کا سیاق و سباق، اور ان کا آپس میں لنک
3۔ راویوں کا تاریخ پیدایش، تاریخ‌ وفات اور ان کی جائے رہائش جو مرتب کرنے والے امام تک پہنچتی ہو۔
4۔ صحیح و ضعیف کی شناخت، روایات کے بارے میں علماء اور اماموں کے فتاوی، بیان اور تبصرات۔
5۔ ہر روایت کے زمان و مکان کی شناخت اور اس کی گرامر کا تجزیہ۔
6۔ نقائص‌کی شناخت تاکہ ریسرچ کرکے ان نقائص کی توثیق و تصدیق کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔

انشاء اللہ تعالی، اگر اللہ تعالی نے مجھے وقت دیا تو میرا ارادہ ان تمام معلومات کو ایک مربوط ڈیٹا بیس میں ڈالنے کا ہے، اگر کوئی صاحب شروع کریں تو ہر طرح‌کی مدد کرکے خوشی ہوگی۔ اس طرح تمام روایات مربوط ہوجائیں گی ، جن سے صحیح احادیث نبوی (ص) کی بآسانی شناخت ہوسکے۔ قرآن و حدیث کی ایسی ایک مکمل ڈیٹا بیس ، قانون سازی، حکومت، پبلک پالیسی اور عام زندگی اور علم کے حصول و پھیلاؤ میں مددگار ثابت ہوگی۔

والسلام
 
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ أَنْ يَلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ يَلْعَنُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ قَالَ يَسُبُّ الرَّجُلُ أَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ أَبَاهُ وَيَسُبُّ أُمَّهُ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا "بڑے کبیرہ گناہوں میں سے یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین پر لعنت کرے"۔
عرض کیا گیا:
"اے اللہ کے رسول! آدمی اپنے والدین پر کیسے لعنت کرتا ہے؟"
فرمایا:
"(اس طرح کہ) آدمی کسی دوسرے آدمی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ (جواب میں)اس کے باپ کو گالی نکالتا ہے اور اس کی ماں پر دشنام طرازی کرتا ہے۔"
(صحیح البخاری کتاب الادب باب لا یسب الرجل والدیہ)

اس حدیث مبارکہ کو درج ذیل کتب میں بھی روایت کیا گیا ہے۔1۔ سنن ابی داؤد، جلد، صفحہ 336، رقم الحدیث:5141
2۔مسند احمد، جلد 2، صفحہ 216، رقم الحدیث 7029
3۔ شعب الایمان،جلد6 ، صفحہ 190، رقم الحدیث 7869
 

محمد وارث

لائبریرین
السلام علیکم ،
شکریہ فاروق سرور صاحب ، والدین کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں آیات پیش کرنے پر ،
اور اس سے زیادہ شکریہ ایک """ روایت """ کو """ حدیث """ ماننے پر ،
کیا آپ یہ بتانا پسند کریں گے کہ جس روایت کو آپ کی قران فہمی قران کے موافق سمجھے لیکن وہ روایت کسی طور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات سے نسبت کا ثبوت نہ رکھتی ہو تو کیا آپ اسے بطور حدیث قبول کریں گے ؟؟؟؟؟
اور لگے ہاتھوں یہ بھی بتا ہی دیجیے کہ قران الکریم کی طرف رجوع کر کے آخر ہم کس طرح کسی روایت کو پرکھیں ؟؟؟؟؟؟
کسی واضح ، مختصر مدلل جواب کی صورت میں پیشگی شکریہ قبول فرمایے ، و السلام علیکم۔

یہ سوال کر کے اس تھریڈ کے موضوع کا رخ خواہ مخواہ موڑا گیا ہے۔

بات موضوع پر کیجیئے، پوچھنے والے نے ایک بات پوچھی، اس کا جواب اور اسکے متعلق ہی اس موضوع پر پوسٹ کریں۔

اب میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا ہے آپ جس موضوع پر بات کرنا چاہ رہے ہیں اس کیلیے کوئی نیا تھریڈ شروع کریں کیونکہ اس پر پہلے ہی "چھ صد ہزار" تھریڈز کھل چکے ہیں!
 
السلام علیکم ور حمۃ اللہ و برکاتہ ،
بہن عندلیب نے اس تھریڈ کا آغاز کیا اور اس کا عنوان رکھا :::
""""""" کیا یہ حدیث صحیح ہے ۔۔۔؟ """""""
اور اس سوالیہ عنوان کا سوال یہ لکھا :::
عبداللہ بن عمروعاصرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وصلم نے فرمایا کبیرہ گناہوں میں سے ماں باپ کو گالی دینا ہے ۔
صاحبہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا کوئی اپنے ماں باپ کو گالی دے سکتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وصلم نے فرمایا ہاں ! آدمی دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اورآدمی دوسرے آدمی کے ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اسکی ماں کو گالی دیتا ہے ۔۔۔
بھتیجے عبداللہ حیدر نے اس کا مکمل اور مدلل جواب یہ دیا :::
السلام علیکم، جی بہن، یہ حدیث صحیح ہے۔ اسے امام بخاری نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے:
[arabic]حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ أَنْ يَلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ يَلْعَنُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ قَالَ يَسُبُّ الرَّجُلُ أَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ أَبَاهُ وَيَسُبُّ أُمَّهُ
[/arabic]
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا "بڑے کبیرہ گناہوں میں سے یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین پر لعنت کرے"۔
عرض کیا گیا:
"اے اللہ کے رسول! آدمی اپنے والدین پر کیسے لعنت کرتا ہے؟"
فرمایا:
"(اس طرح کہ) آدمی کسی دوسرے آدمی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ (جواب میں)اس کے باپ کو گالی نکالتا ہے اور اس کی ماں پر دشنام طرازی کرتا ہے۔"

(صحیح البخاری کتاب الادب باب لا یسب الرجل والدیہ)
یہاں تک سوال کا جواب دیا جا چکا تھا ،
پھر ایک صاحب نے ہمیشہ کی طرح احادیث مبارکہ کے بارے میں شکوک پھیلانے کی کوشش میں یہ لکھا :::

لوگوں نے رسول اللہ صلعم سے بے تحاشا روایات منسوب کررکھی ہیں، بسا اوقات یہ بتانا مشکل ہوتا ہے کہ آیا کہ بتانے والا درست کہہ رہا ہے یا اپنی طرف سے منسوب کررہا ہے۔ یہ جاننے کے لئے آیا کہ رسول اللہ صلعم سے منسوب شدہ کوئی روایت کسی نے اپنی طرف سے گھڑی ہے یا نہیں ، ہم کو قرآن حکیم سے رجوع کرنا چاہئیے۔

قرآں حکیم کی آیات کی روشنی میں‌ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ فرمان رسول اللہ صلعم ، اللہ تعالی کے فرمان ، قرآن حکیم کے احکامات سے مطابقت رکھتا ہے۔
میں ان کے جواب میں کچھ لکھا اور اس لیے لکھا کہ میں ان سے تقریباً پونے دو سال سے بہت سے موضوعات پر گفتگو کرتا چلا آ رہا ہوں اور الحمد للہ کہ اس تجربے کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے مجھے ان صاحب کے بارے میں اتنی سوجھ بوجھ عطا کر دی ہے کہ ان کے طرف سے ظاہر ہونے والے جوابات تک کو بھی پہلے سے محسوس کر لیتا ہوں ((((( و ما توفیقی الا باللہ )))))
پس میں نے ان صاحب کے منقولہ بالا الفاظ کے جواب میں یہ لکھا کہ :::
السلام علیکم ،
شکریہ فاروق سرور صاحب ، والدین کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں آیات پیش کرنے پر ،
اور اس سے زیادہ شکریہ ایک """ روایت """ کو """ حدیث """ ماننے پر ،
کیا آپ یہ بتانا پسند کریں گے کہ جس روایت کو آپ کی قران فہمی قران کے موافق سمجھے لیکن وہ روایت کسی طور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات سے نسبت کا ثبوت نہ رکھتی ہو تو کیا آپ اسے بطور حدیث قبول کریں گے ؟؟؟؟؟
اور لگے ہاتھوں یہ بھی بتا ہی دیجیے کہ قران الکریم کی طرف رجوع کر کے آخر ہم کس طرح کسی روایت کو پرکھیں ؟؟؟؟؟؟
کسی واضح ، مختصر مدلل جواب کی صورت میں پیشگی شکریہ قبول فرمایے ، و السلام علیکم۔
میرے اس مراسلے کے جواب میں ہمارے ایک محترم بھائی محمد وارث صاحب جن سے کسی طور گفتگو کرنے کا شرف مجھے آج پہلی بار حاصل ہو رہا ہے ، انہوں نے لکھا کہ :::
یہ سوال کر کے اس تھریڈ کے موضوع کا رخ خواہ مخواہ موڑا گیا ہے۔

بات موضوع پر کیجیئے، پوچھنے والے نے ایک بات پوچھی، اس کا جواب اور اسکے متعلق ہی اس موضوع پر پوسٹ کریں۔

اب میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا ہے آپ جس موضوع پر بات کرنا چاہ رہے ہیں اس کیلیے کوئی نیا تھریڈ شروع کریں کیونکہ اس پر پہلے ہی "چھ صد ہزار" تھریڈز کھل چکے ہیں!

محترم بھائی محمد وارث صاحب ،
آپ کے نیک مشورے پر جزاک اللہ خیرا ،
میں نے یہاں اب تک کے تمام مراسلات کا ایک تجزیہ پیش کیا ہے ، آپ ملاحظہ فرما لیجیے کہ بات کا رخ کس نے اور کس طرف موڑا ہے ،
اگر صرف موضوع کے سوال کا جواب دینا ہی مقصود تھا اور احادیث مبارکہ علی صاحبھا الصلوۃ و السلام شکوک کا اظہار مقصد نہ تھا تو وہ صاحب صرف موضوع سے متعلق آیات مبارکہ کاپی پیسٹ کر دیتے ، دھاگے میں چار چاند لگ جاتے ، لیکن آیات مبارکہ نقل کرنے سے پہلے احادیث کے بارے ایسی بات لکھنا جو اُن کے مخصوص اور """ خلاف قران """ فلسفے کی دعوت دینے والی ہو ، احادیث مبارکہ کے بارے میں شکوک پھیلانے والی ہو ، ایسی بات کی کیا ضرورت تھی ، میرے بھائی ،
جب کہ وہ خود حدیث مبارک کے بارے میں اپنی علمی کسمپرسی کا اعتراف بھی کر رہے کہ :::

حدیث پر میرا مطالعہ محدود ہے، میں نے صرف ساڑے تین کتب روایات کا مطالعہ کیا ہے ، میرا خیال ہے کہ رسول اللہ صلعم سے منسوب تقریباً تمام روایت موافق القرآن ہیں ۔ جن جگہوں پر خلاف قرآن روایات نظر آتی ہیں وہ ڈپارٹمنٹ عورتوں کے حقوق، غلامی کا فروغ، عوام کی دولت پر قبضہ ، اور اقتدار و حکومت کی روایات ہیں۔ یہ پیلے بھی عرض‌کرچکا ہوں۔ مزید میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ کچھ ایسی اسرائیلی اور عیسائی روایات کو شامل کیا گیا ہے جو قرآن کا حصہ نہیں‌ہیں یا قرآن حکیم میں واضح احکامات ان اسرائیلی اور عیسائی روایات کے خلاف پائے جاتے ہیں۔

میرا خیال ہے اس کے بعد کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ، یہ صاحب جن کا مطالعہ حدیث اس قدر محدود اور فہم قران اور حدیث اس سے بھی زیادہ محدود ہو وہ ہی اس تھریڈ میں اپنا """ خلاف قران """ فلسفہ لیے تشریف لائے اور اس تھریڈ کا موضوع کچھ بدل گیا ،
بھائی محمد وارث صاحب ، ہو سکتا ہے اس موضوع پر ان صاحب سے کئی تھریڈز میں گفتگو کی گئی ہو ، میں تو اب تک ان سے کوئی ایک ایسی علمی دلیل جواب میں نہیں پا سکا جو ان کے """ خلاف قران """ فلسفے کو درست ثابت کر سکے ،
لیکن میری خواہش ضرور ہے کہ ان صاحب سے کسی جگہ صرف میری اور ان کی گفتگو ہو سکے ، اور صرف اور صرف علمی قواعد اور قوانین کے مطابق ہو سکے ، وہ قواعد اور قوانین جو اللہ ، اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجعمین ، تابعین تبع تابعین ، اور امت کے اماموں نے مقرر کر رکھے ہیں ، تا کہ ہر کسی پر واضح ہو سکے کہ شریعت کے احکام اور مسائل محض کسی کی سوچ اور فلسفوں کی بنیاد ہر نہیں سمجھے جا سکتے ،
و اللہ یہدی من یشاء ،
بھائی محمد وارث صاحب ، پہلی ہی ملاقات میں آپ کا کافی وقت لے لیا ، معذرت خواہ ہوں ، و السلام علیکم۔
 

باذوق

محفلین
السلام علیکم۔
عادل بھائی کا تجزیہ بالکل درست ہے۔
دھاگے کے اصل موضوع کا رُخ موڑ کر خواہ مخواہ ایک مخصوص فلسفے کی بین بجانے والوں کو بھی کبھی تنبیہ کی جانی چاہئے کہ ہر جگہ ایک جیسا پروپگنڈا کر کے دوسروں کو ردّعمل کے اظہار پر مجبور نہیں کرنا چاہئے۔ جیسا کہ خود نبیل نے لکھا تھا :
میری تمام دوستوں سے درخواست ہے کہ کسی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کے لیے کوئی ایسی بات تحریر نہ کریں جس سے دوسرے کو شدید ردعمل دکھانے کا موقع مل جائے۔
ہر کوئی آزاد ہے کہ جیسا چاہے نظریہ یا فلسفہ قائم رکھے لیکن ہر تھریڈ میں اپنے مخصوص نظریات کا بیجا اظہار مناسب طرز عمل بہرحال نہیں ہے!
 
ذیل میں آپ کو موافق القرآن اور خلاف قرآن فلسفہ کے بارے میں احادیث ایک بار پھر فراہم کررہا ہوں۔ مجھے ان تبع تابعین اور اماموں‌نے جو کچھ کہا ہے بالکل درست لگتا ہے۔ آپ کو کیوں غلط لگتا ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درج ذیل مضمون کسی اور صاحب کا لکھا ہوا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اب تک علماء یہی کہتے آئے ہیں کہ صحیح‌ سنت رسول موافق القرآن ہی ہوتی ہے۔ اس سے آپ کی بات کا وزن کچھ نہیں‌رہتا جب آپ یہ دعوی کرتے ہیں کہ اب تک امت مسلمہ خلاف قرآن روایات پر یقین رکھتی آئی ہے۔

یہ مضمون واضح کرتا ہے کہ کوئی صحیح حدیث رسول پاک خلاف قرآن ہو ہی نہیں سکتی۔ کیا وجہ ہے کہ آپ اس بات پر مصر ہیں کہ خلاف قرآن کریم روایات بھی قابل قبول ہونی چاہئیے۔

اگر قرآن اسلام کے اصول و قوانین کی کتاب نہیں‌ہے تو پھر اسلام کی بنیاد کیا ہے بھائی؟

------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
Saturday, December 24, 2005
احادیث کے لئے قرآن ہی معیار ہے
ریحان عمر
احادیث کے لئے قرآن ہی معیار ہے
احادیث کے پرکھنے کے لئے سب سے پہلا اصول اور سب سے اہم معیار خود قرآن ہی ہے۔
جو حدیث قرآن کے خلاف یا معارض ہوگی وہ رد کردی جائے گی۔جیسا کہ ضمناً ان عبارتوں سے جو پہلے گزریں ،سے ثابت ہوا کہ قرآن جو قطعی اور یقینی ہے ،اسکے خلاف یا معارض حدیث نہیں ہوسکتی ،جو کہ ظنّی ہے۔اب ہم احادیث اور اقوالِ علماءکو نقل کرتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوگا کہ قرآن ہی اصلِ معیاراور پہلا اصول ہے احادیث کے قبول و رد کا ۔

(ا) امام علی بن محمدالبزدوی الحنفی متوفی٢٨٤ھ
” فاذا روی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی، فما وافق کتاب اللہ تعالٰی فاقبلوہ وما خالفوہ فردوہ۔“
( اگر تم سے کوئی حدیث روایت کی جائے مجھ سے تو اسے کتاب اللہ تعالٰی پر پیش کروتواگر وہ کتاب اللہ کے موافق ہو تو اسے قبول کرلو اور جو مخالف ہو تو رد کردو۔“
( فقہِ حنفی کی مشہور کتاب ’اصولِ بزدوی‘،باب بیان قسم الانقطاع ص٥٧١،میرمحمد کتب خانہ کراچی۔)

(٢) علامہ عبیداللہ بن مسعود المحبوبی الحنفی متوفی ٨٤٧ھ
٭” فقولہ علیہ السلام تکثر لکم احادیث من بعدی فاذاروی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی فما وافق کتاب اللہ تعالٰی فاقبلوہ وما خالفوہ فردوہ۔“
( تو آپ علیہ السلام کا قول کہ میرے بعد تمہارے لئے احادیث کی کثرت ہوجائے گی تو جب اگر تم سے کوئی حدیث روایت کی جائے مجھ سے تو اسے کتاب اللہ تعالٰی پر پیش کروتواگر وہ کتاب اللہ کے موافق ہو تو اسے قبول کرلو اور جو مخالف ہو تو رد کردو۔“
( التوضیح والتلویح،بحثِ سنت،ص٠٨٤)
اس کتاب کے ماتِن صدرالشریعہ عبیداللہ بن مسعود المحبوبی الحنفی ہیں اور ان کا متن ’التوضیح‘ کہلاتا ہے۔اور اسکی تشریح دوسرے مشہور و معروف عالم و متکلم علامہ سعدالدین تفتازانی شافعی متوفی ٢٩٧ھ نے’ التلویح‘ کے نام سے لکھی اور یہ دونوں ’التوضیح والتلویح‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد صدرالشریعہ لکھتے ہیں کہ:
٭” فدلّ ھذا الحدیث علی ان کل حدیث یخالف کتاب اللہ (تعالٰی) فانہ لیس بحدیث الرسول وانما ھو مفتری وکذلک کل حدیث یعارض دلیلاً اقوٰی منہ فانہ منقطع عنہ علیہ السلام لان الادلة الشریعة لا یناقض بعضھا بعضاً وانما التناقض من الجھل المحض۔“
( تو یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ ہر وہ حدیث جو کتاب اللہ کی مخالف ہو ہرگز رسول (اللہ ) کی حدیث نہیں ہے اور وہ افتراءہے اور اسی طرح ہر وہ حدیث جو کسی زیادہ قوی دلیل کے معارض و مخالف ہو وہ بھی آپ علیہ السلام سے منقطع ہے( یعنی صحیح نہیں ) کیونکہ شریعت کے دلائل آپس میں ایک دوسرے کے معارض و مخالف و مناقض نہیں ہوسکتے کیونکہ تناقض تو محض جہل ہے۔)( التوضیح والتلویح ص٠٨٤)

(٣) علامہ حافظ جلال الدین سیُوطی متوفی ١١٩ھ
” بما روی ان النبی قال: ما جاءکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ،فما وافقہ فاَنا قلتہ وما خالفہ فلم اقلہ۔“
” روایت ہے کہ نبی نے فرمایا کہ جو حدیث تمہارے پاس آئے تو اسے کتاب اللہ پر پیش کرو،اگر اس ( قرآن) کے موافق ہو تو (سمجھوکہ) میں نے ہی کہی ہے اور اگر مخالف ہو تو (سمجھوکہ) میں نے نہیں کہی ۔“
(مفتاح الجنة فی الاحتجاج بالسنة ص١٢)

(٤) ملا علی قاری حنفی متوفی
” (فصل) ومنھا مخالفة الحدیث لصریح القرآن کحدیث مقدارالدنیا وانھا سبعة اٰلاف سنة ونحن فی الالف السابعة وھذامن ابین الکذب۔“
( اور اس(اصولِ حدیثِ موضوع) میں سے ہے کہ حدیث صریحاً قرآن ہی کے مخالف ہو(تووہ موضوع ہوگی) جیسے حدیث ہے کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے اور ہم ساتویں ہزار سال میں ہیں ( اور ابھی تک دنیا بھی ہے لھذا یہ صریحاً غلط ثابت ہوگئی) اور یہ انتہائی کھلا ہوا جھوٹ ہے۔)(موضوعات الکبیر ص٢٦١)
(٥) محمد نظام الدین الشاشی المعروف بہ ملا جیون متوفی
” بقولہ اذا روی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی فما وافقہ فاقبلوہ والا فردوہ۔“
( اور آپ کا قول کہ جب تم سے میری کوئی حدیث بیان کی جائے تو اسے کتاب اللہ پر پیش کرو تو جو اسکے موافق ہو قبول کر لو اور جو مخالف ہو اسے رد کردو۔)
( فقہِ اصول حنفی کی مشہور کتاب جو مدارس میں بھی پڑھائی جاتی ہے ’ نورالانوار ص ٥١٢،اور اسکے مصنف ملا جیون مغل بادشاہ عالمگیر کے استادتھے! )
٭ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:
” اذا بلغکم منی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ فان وافقہ فاقبلوہ والا فردوہ۔“
( مفہوم وہی جو اوپر گزرا)( مقدمہ تفسیر احمدیہ ص٤، بحوالہ جاءالحق از مفتی احمد یار خان گجراتی ص٤٣)

( ٦) حافظ ابن کثیر متوفی
” وقال ابن جریر حدثنا محمد بن اسماعیل الَحمسی اَخبرنی جعفر بن عون عن عبدالرحمان بن المخارق عن ابیہ المخارق بن سلیم قال قال لنا عبداللہ ھوابن مسعود اذا حدثناکم بحدیث اتیناکم بتصدیق ذلک من الکتاب اللہ تعالٰی۔“
(عبداللہ ابن مسعود نے کہا کہ جب ہم تم سے کوئی حدیث بیان کرتے ہیں تو کتاب اللہ سے اس کی تصدیق بھی لا تے ہیں ۔)( تفسیر ابن کثیر ج٤ ص٩٤٥ ،سورہ فاطر)

(٧) عنایت اللہ سبحانی
٭” اور جو حدیث قرآن کے خلاف ہو وہ کبھی بھی قرآن کی شرح نہیں بن سکتی ۔“(حقیقت رجم ص٦١)
٭” حدیث قرآن کی تشریح ہے لیکن قرآن بھی حدیث کی صحت کےلئے بہترین کسوٹی ہے۔آپ کا ارشاد ہے کہ : تکثر لکم الاحادیث بعدی فاذا روی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ فما وافق فاقبلوہ وما خالف فردوہ ۔“(مفہوم وہی جو کئی بار گزرا)
٭ اسی سے ملتی جلتی ایک حدیث آتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :
’ ما اتاکم عنی فاعرضوہ علی کتاب اللہ فان وافق کتاب اللہ اَنا اقلتہ وان خالف کتاب اللہ فلم اقلہ وکیف اخالف کتاب اللہ وبہ ھدانی اللہ؟۔“( یعنی تمہارے پاس جو کچھ بھی میرے پاس سے آئے تو اسے کتاب اللہ پر پیش کرو اگر کتاب اللہ کے موافق ہو تو ہو میں نے ہی کہا ہوگا اور اگر مخالف ہو کتاب اللہ کے تو اسے میں نے نہیں کہا ،اور میں کیسے کتاب اللہ کی مخالفت کرسکتاہوںجبکہ اللہ نے مجھے اسی کے ذریعے ہدایت دی ۔“( امام شاطبی ،الموافقات ج٤ص٣١)
امام شاطبی اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ” اس حدیث کی سند صحیح ہو یا نہ ہو لیکن اس میں جو بات کہی گئی ہے وہ اپنی جگہ بالکل صحیح ہے۔“( ایضاً ص٠٥١)
٭ حضرت عیسٰی بن ابان (م ٩٤٢ھ) جو ایک بلند پایہ محدث اور ایک بالغ نظر فقیہ تھے اور جو کئی سال تک بصرہ کے قاضی رہے ،انہوں نے بھی اس روایت کی توثیق کی ہے اور اسکی اساس پر انکا مسلک یہ تھا کہ ’ خبر واحد جس کے اندر صحتِ سند کی تمام سندیں اور شرطیں موجود ہوں اسے کتاب ( اللہ) کی کسوٹی پر پرکھنا ضروری ہوگا اور اس کی صحت کا آخری فیصلہ اسی کی بنیاد پر ہوگا‘۔“ [المحصول فی علم اصول فقہ از امام رازی] ( بحوالہ حقیقت رجم ص٥١)

(٨) مولانا عبدالماجد دریا آبادی
” خود خبر واحد کے قبول کا معیار یہی ہے کہ وہ کسی نص قرآنی کے مخالف نہ ہو۔“
(تفسیر ماجدی ص٤٢٣ ،سورہ اعراف حاشیہ ٣)
امام ابوبکر جصاص اور امام قرطبی کا حوالہ بھی مولانا نے نقل کیا ہے جسے ہم بھی پہلے نقل کرچکے ہیں لھذا وہاں دیکھ لیا جائے ۔
ّّ
(٩) مولانامفتی محمدشفیع عثمانی دیوبندی
” اور صحیح مسلم میں ایک حدیث ابو ھریرہ کی روایت سے آئی ہے جس میں تخلیق عالم کی ابتداءیوم سبت یعنی ہفتہ کے روز سے بتائی گئی ہے اس کے حساب سے آسمان و زمین کی تخلیق کا سات دن میں ہونا معلوم ہوتا ہے مگر عام نصوص قرآنی میں یہ تخلیق چھہ روز ہونا صراحاً مذکور ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ تخلیق ارض و سماءکے واقعات اور دن اور ان میں ترتیب جن روایات حدیث میں آتی ہے ان میں کوئی روایت ایسی نہیں جس کو قرآن کی طرح قطعی، یقینی کہا جاسکے بلکہ یہ احتمال غالب ہے کہ یہ اسرائیلی روایات ہوں ،مرفوع احادیث نہ ہوں جیسا کہ ابن کثیر نے مسلم اور نسائی کی حدیث کے متعلق اس کی صراحت فرمائی ہے۔اس لئے آیات قرآنی ہی کو اصل قرار دے کر مقصود متعین کرنا چاہیے۔“( معارف القرآن ،ج٧ص٦٣٦ سورہ حٰم) (یعنی اگر کوئی روایت قرآن کے خلاف ہو تو وہ رد کیے جانے کے قابل ہے چاہے صحیح مسلم کی ہی کیوں نہ ہو ۔)

(٠١) مولانا عبدالسلام رستم مردانی
” واعلم قبل جواب ھذا الحدیث ان مسلک ابی حنیفہ اسلم ،فانہ یقدم العمل بالآیة من العمل بالحدیث اذا لم یمکن التوفیق بینھما ویتاول فی الحدیث دون الآیة۔“
( اور جان لے اس حدیث کے جواب سے قبل کہ ابو حنیفہ کا مسلک سلامتی والا ہے کیونکہ وہ آیت پر عمل کو مقدم رکھتے ہیں حدیث کے مقابلے پر جب ان دونوں(قرآن و حدیث)میں توفیق اور تطبیق ممکن نہ ہو، اور آپ حدیث میں تاویل کرتے ہیں بجائے آیت کے ۔)(التبیان فی تفسیر امّ قرآن ص٧٣١)
٭” وایضاًکان ھذاالحدیث مخالفاًعن ظاھرالقرآن الدال علی فوقیتہ تعالٰی علی العرش فلذا اول فی الجامع الترمذی۔“( اور اسی طرح یہ حدیث ظاہرقرآن کے مخالف ہے لھذا جمع ترمذی میں ہی تاویل کی جائے۔)

(١١) امام نسفی متوفی ٠١٧ھ
٭” بقولہ علیہ السلام اذا روی لکم عنی الحدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی فما وافقہ فاقبلوہ والا فردوہ۔“( آپ کا قول کہ،جب تم سے کوئی حدیث بیان کرے میری طرف سے تو اسے کتاب اللہ تعالٰی پر پیش کرو ،اگر موافق ہے تو قبول کرلواوراگرنہیں تو رد کردو۔)( کشف الاسرار علی المنار،ج٢ص٥٨)

(٢١)امام ابوبکر السرخسی
٭” ان کل حدیث ھو مخالف الکتاب اللہ تعالٰی فھو مردود ۔“
( ہر حدیث جو کتاب اللہ کے مخالف ہو مردود ہے)(اصول سرخسی ج١ص٥٦٣)
٭” وما روی من قولہ علیہ السلام فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی۔“
( اورجوقول مروی ہے آپ کا کہ (حدیث کو ) کتاب اللہ پر پیش کرو)(ایضاًج٢ص٦٧)
٭” وبہ نقول ان الخبر الواحد لا یثبت نسخ الکتاب ،لانہ لا یثبت کونہ مسموعاًمن رسول اللہ قطعاًوالھذالایثبت بہ العلم الیقین ،علی ان المرادبقولہ(وما خالفہ فردوہ)۔“
(اور اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ خبر واحد سے کتاب اللہ منسوخ ثابت نہیں ہوتی،کیونکہ یہ بات کہ وہ رسول سے ہی سے سنی گئی ہے ،قطعی نہیں ،لھذا اس سے علم یقین پیدا نہیں ہوتا، آپ کے قول مراد یہی ہےکہ جو مخالف قرآن ہو اسے رد کردو(ایضاً)٭” ولا یجوز ترک ما ھو ثابت فی کتاب اللہ نصاًعندالتعارض۔“
(نص،کتاب اللہ میں جو ثابت ہے اس کو ترک کرنا جائز نہیں ( جب اس کا حدیث سے) تعارض ہو۔)( ایضاً)

(٣١) مولانا حسن بن عمار بن علی حنفی
” قالت (عائشة) کیف یقول رسول اللہ ذلک رد علی الراوی واللہ تعالٰی یقول وما انت بمسمع من فی القبور ،ای فلم یقلہ۔“( حضرت عائشہ نے فرمایا کہ ’ رسول اللہ کیسے یہ بات کہہ سکتے ہیں‘( کہ مُردوں نے سنا)اور آپ نے یہ راوی پرپر رد کیا ،’ جبکہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ آپ مُردوںکو نہیں سنا سکتے‘یعنی آپ نے یہ بات ہی نہیں کی ( کہ مخالفِ قرآن ہوتی)
( مراقی الفلاح شرح النورالایضاح ص٧٠٣)

(٤١)
” کیونکہ فقہ حنفی کے اصول میں ہے کہ استخراج واستنباطِ مسائل کے سلسلے میں قرآن حدیث پر مقدم ہے ،حدیث کا نمبر قرآن کے بعد ہے نہ کہ قرآن سے پہلے ۔لیکن اگر اس کے متعلق کوئی آیت موجود نہیں تو ظاھر ہے کہ اب حدیثِ صحیح کو ہی مستدل بنایا جائے گا اور اگر کسی مسئلے میں احادیث متعارض ہوں تو دین کے ناقلینِ اول صحابہ کرام کے اقوال و افعال کسی ایک کے لئے وجہءترجیح بنیں گے۔“
( رسول اکرم کا طریقہءنماز ص١١)

(٥١)امام ابن ھمام متوفی ١٨٦ھ
”قولہ علیہ السلام فی اھل القلیب ما انتم باسمع بما اقول منھم واجابوا تارة بانہ مردود من عائشة قالت کیف یقول ذلک واللہ یقول وما انت بمسمع من فی القبور ،انک لا تسمع الموتٰی ۔“
( اور آپ کا قول قلیبِ بدر کے متعلق کہ’ تم ان(مُردوں) سے زیادہ نہیں سنتے ہو جو میں ان سے کہتا ہوں ‘اور انہوں نے ایک مرتبہ جواب بھی دیا ،تو یہ رد شدہ ہے حضرت عائشہ سے کیونکہ آپنے فرمایا کہ آپ کیسے یہ قول کہہ سکتے تھے جبکہ اللہ کہتا ہے کہ آپ ان کو(اپنی بات) نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں اور آپ مُردوں کو(اپنی بات) نہیںسنا سکتے۔ )( فتح القدیر ،ج٢ص٩٦)

(٦١) مولانا قاسم نانوتوی بانیءدارالعلوم دیوبند
” واقعی مخالف کلام نہ کہ محدث کا قول معتبر ہے اور نہ ہی کسی منکر کا بلکہ خود حدیث اگر مخالف کلام اللہ ہو تو موضوع سمھجی جائے گی ۔“( تصفیة العقائد ص ٠٢)

(٧١)علامہ ابن قیّم جوزی
” ومنھا مخالفة الحدیث لصریح القرآن کحدیث مقدارالدنیا وانھا سبعة اٰلاف سنة۔“
( اور ( حدیث کے موضوع ہونے کی ایک دلیل)قرآن کی صراحت کے حدیث کا مخالف ہونا ہے جیسے مقدارِ دنیا والی حدیث کہ دنیا کی کل عمرسات ھزار سال ہے۔)( حالانکہ یہ حس و مشاھدہ کے بھی خلاف ہے چہ جائیکہ قرآن)۔( رسالہ المنار ص١٣، نیز موضوعات الکبیر ص٢٦١)

(٨١)یعقوب بن اسحاق کُلینی رازی (اثنا عشری شیعہ)
٭” عن ابوعبداللہ علیہ السلام قال:قال رسول اللہ ان علی کل حق حقیقة وعلی کل صواب نورا فماوافق کتاب اللہ فخذہ وما خالف کتاب اللہ فدعوہ ۔“
(ابوعبداللہ علیہ السلام نے کہا کہ کہا رسول اللہ ہر ایک حق پر ایک حقیقت اور ہر ایک صحیح و صواب پر ایک نور ہوتا ہے تو جو کتاب اللہ سے موافق ہو تو اسے پکڑ لو اورجوکتاب اللہ کے مخالف ہواسے ردکردو۔“( اصولِ کافی،باب الاخذ بالسنةوھواھدالکتاب،ج١ص٨٨)
٭” عن ایوب بن الحر قال: سمعت اباعبداللہ یقول کل شیءمردود الی الکتاب والسنةوکل حدیث لایوافق کتاب اللہ فھو زخرف۔“(اصولِ کافی،ج١ص٩٨)
( ایوب بن حر نے کہا کہ میں نے ابوعبداللہ کوکہتے سنا کہ فرماتے ہں کہ ہرشیءکتاب اورسنت کی طرف پھیری جاےگی اور ہر وہ حدیث جو کتاب اللہ کے موافق نہیں وہ بیکار چیز ہے۔)
٭” عن ابوعبداللہ قال:خطب النبی بمنٰی وقال:ایھاالناس ماجاءکم عنی یوافق کتاب اللہ فانہ قلتہ وماجاءکم یخالف کتاب اللہ فلم اقلہ۔“(ایضاً)
( ابوعبداللہ نے کہا کہ نبی نے منٰی میں خطبہ دیا اورفرمایاکہ اے لوگوں!میری طرف سے تم تک جو بھی (حدیث) آئے جوکتاب اللہ کے موافق ہوتوسمجھوکہ میں نے ہی کہا ہوگااوراگرکوئی (حدیث)کتاب اللہ کے مخالف ائے تو سمجھنا کہ میں نے نہیں کہا ۔)

(٩١)سیدظفرالحسن امروہوی(شیعہ)
” حدیث کی صحت کا معیار یہ ہے کہ وہ اول تو قرآن کے خلاف نہ ہو۔“
( فروعِ کافی کا دیباچہ ،ج١ص٤)

(٠٢)امام دارمی محدث سمرقندی
’باب تاویل حدیث رسول اللہ‘۔عن ابی ہریرةفکان ابن عباس اذاحدث قال:اذاسمعتمونی احدث عن رسول اللہ فلم تجدوہ فی کتاب اللہ اوحسناعندالناس فاعلمواا
¿نی قدکذبت علیہ۔“ (سنن دارمی ج١ص٤٥١،قدیمی کتب خانہ کراچی)
(یعنی امام دارمی نے باب قائم کیا ہے’حدیث رسول اللہمیں تاویل‘اس کے تحت لکھتے ہیں کہ ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس جب حدیث بیان کرتے توکہتے :جب تم مجھ سے کوئی حدیث سنواور تم اسے کتاب اللہ میں نہ پاو یا وہ لوگوں کے نزدیک وہ اچھی چیزنہ ہو(یعنی معروف نہ ہو)توسمجھوکہ میں نے آپ پر جھوٹ باندھا۔)(یعنی میں نے غلط کہاکیونکہ اس کا امکان نہیں کہ آپ پر آپ جھوٹ باندھیں مگر اس پر تنبیہ کے لیے ایسا فرمایا)

(١٢)امام سخاوی
ملاعلی قاری اپنی ’موضوعات الکبیر‘میں امام سخاوی کا قول بھی یہی قول کرتے ہیں کہ ’ہمارے شیخوں کے شیخ شمس الدین نے ’مقاصد الحسنة فی بیان الاحادیث المشتھرة علی الالسنة‘کے خاتمہ میں کہاکہ(موضوع حدیث ہونے کی علامت )میں سے یہ بھی ہے کہ حدیث صریح قرآن کے مخالف ہو ۔‘(موضوعات الکبیر،فصل ٣١ص٦٢٣۔قدیمی کتب خانہ کراچی)
(ختم شد معیار حدیث، قرآن)

(٢٢)نووی۔پٹنی۔شاہ عبدالعزیز۔سیوطی۔قرآن۔ایام رکم ان تکفروا بعد ایمانکم۔۔۔؟ولو تقول علینا بعض الاقاویل۔؟


اختتام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اب آپ کے پاس کیا وجہ ہے کہ آپ کہیں کہ -- موافق القرآن-- کی اصطلاح اور فلسفہ میرا ہے؟


یہ بھی واضح کیجئے کہ آپ کا فلسفہ کیا ہے؟

اگر قرآن اسلام کے اصول و قوانین کی کتاب نہیں‌ہے تو پھر اسلام کی بنیاد کیا ہے بھائی؟
 

محمد وارث

لائبریرین
ہر دو فریقین سے استدعا ہے کہ براہِ مہربانی صرف موضوع پر بات کریں، جس میں والدین کی فضیلت ہے اور بس، اس پر چاہے آیت لکھیں یا حدیث یا کوئی روایت۔

اور چونکہ میرا ذاتی خیال ہے کہ موضوع پر 'کافی' بات ہو چکی لہذا موضوع سے ہٹی ہوئی مزید پوسٹس کی صورت میں یہ موضوع مقفل کر دیا جائے گا۔

امید ہے آپ سب تعاون فرمائیں گے!

والسلام
 
Top