موجو
لائبریرین
عرش رسا آوازیں
" ائے اللہ ! میں اپنی ناطاقتی اور بے چارگی اور لوگوں میں اپنی ہوا خیزی کی فریاد تجھی سے کرتا ہوں" ۔
"" آئے ارحم الراحمین! تو ہی ناتوانوں کی پرورش کرنے والا اور تو ہی میرا پروردگار ہے۔
تو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے ۔۔؟ کیا کسی اجنبی بیگانے کے۔۔؟ جو مجھے دیکھ کر تیوری چڑھائے ۔۔ یا کسی دشمن کے؟ جس کو تونے مجھ پر غلبہ دے دیا ہو۔
خدایا۔۔۔۔! اگر تو مجھ سے خفا نہیں ہے تو پھر مجھے کسی کی بھی پروا نہیں ہے۔
تیری حفاظت میرے لیے بس کافی ہے۔ میں طالب پناہ ہوں تیرے رخ کے اس نور سے جس سے تمام ظلمتیں کافور ہو گئیں ۔۔۔ جس سے دونوں جہاں کی بگڑی بن جاتی ہے ۔ میں طالب پناہ ہوں اس بات سے کہ مجھ پر تیرا عتاب ہو۔۔۔ یا تو مجھ سے روٹھ جائے۔
’’ تاوقت یہ کہ تو خوش نہ ہوجائے تجھے منائے جانا ناگزیر ہے‘‘۔
یہ کون کہہ رہا ہے۔۔۔۔؟
کس سے کہہ رہا ہے۔۔۔؟
کہاں کہہ رہا ہے۔۔۔؟
یہ خدا کے درپر خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دل دہلا دینے والی پکار ہے جو آج سے تقریبآ ڈیڑھ ہزار سال پہلے طائف کی کوہستان وادیوں میں گونجی تھی اور آج صفحہ قرطاس پر اترتی ہے تو جیسے قلم کا جگر کانپ کانپ جاتا ہے۔ یہ پکار جب خدائے سمیع و رحیم نے سنی ہوگی تو رحمت و غیرت کا کیا عالم ہوا ہوگا ۔۔۔ خدا گواہ ہے کہ کوئی اس کا صحیح تصور تک نہیں کرسکتا۔ تاریخ اتنا ضرور بتاتی ہے کہ ادھر یہ فریاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معصوم ترین ہونٹوں سے جدا ہوئی تھی اور ادھر خدا کا جواب آپہنچا تھا ۔۔۔ فضائے کائنات کو چیرتے ہوئے دوعظیم فرشتے فرش خاک پر آکھڑے ہوئے۔ ان میں ایک خود حضرت جبرئیل (ع( تھے اور دوسرا وہ طاقتور فرشتہ جس کے شانوں پر خدا نے پہاڑوں کے نظم و نسق کا بوجھ رکھا ہے۔
’’ السلام علیکم یا رسول اللہ! کمال ادب کے ساتھ جبرئیل امین (ع( نے کہا تھا ’’خدا نے وہ ساری گفتگو بہ نفس نفیس سن لی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے مابین ہوئی۔۔۔ اور اس نے اس فرشتے کو خدمت میں حاضر کیا ہے جس کے سپرد کوہستانوں کا نظام ہے کہ جو حکم آپ چاہیں اس کو دیں‘‘۔
" ائے اللہ ! میں اپنی ناطاقتی اور بے چارگی اور لوگوں میں اپنی ہوا خیزی کی فریاد تجھی سے کرتا ہوں" ۔
"" آئے ارحم الراحمین! تو ہی ناتوانوں کی پرورش کرنے والا اور تو ہی میرا پروردگار ہے۔
تو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے ۔۔؟ کیا کسی اجنبی بیگانے کے۔۔؟ جو مجھے دیکھ کر تیوری چڑھائے ۔۔ یا کسی دشمن کے؟ جس کو تونے مجھ پر غلبہ دے دیا ہو۔
خدایا۔۔۔۔! اگر تو مجھ سے خفا نہیں ہے تو پھر مجھے کسی کی بھی پروا نہیں ہے۔
تیری حفاظت میرے لیے بس کافی ہے۔ میں طالب پناہ ہوں تیرے رخ کے اس نور سے جس سے تمام ظلمتیں کافور ہو گئیں ۔۔۔ جس سے دونوں جہاں کی بگڑی بن جاتی ہے ۔ میں طالب پناہ ہوں اس بات سے کہ مجھ پر تیرا عتاب ہو۔۔۔ یا تو مجھ سے روٹھ جائے۔
’’ تاوقت یہ کہ تو خوش نہ ہوجائے تجھے منائے جانا ناگزیر ہے‘‘۔
یہ کون کہہ رہا ہے۔۔۔۔؟
کس سے کہہ رہا ہے۔۔۔؟
کہاں کہہ رہا ہے۔۔۔؟
یہ خدا کے درپر خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دل دہلا دینے والی پکار ہے جو آج سے تقریبآ ڈیڑھ ہزار سال پہلے طائف کی کوہستان وادیوں میں گونجی تھی اور آج صفحہ قرطاس پر اترتی ہے تو جیسے قلم کا جگر کانپ کانپ جاتا ہے۔ یہ پکار جب خدائے سمیع و رحیم نے سنی ہوگی تو رحمت و غیرت کا کیا عالم ہوا ہوگا ۔۔۔ خدا گواہ ہے کہ کوئی اس کا صحیح تصور تک نہیں کرسکتا۔ تاریخ اتنا ضرور بتاتی ہے کہ ادھر یہ فریاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معصوم ترین ہونٹوں سے جدا ہوئی تھی اور ادھر خدا کا جواب آپہنچا تھا ۔۔۔ فضائے کائنات کو چیرتے ہوئے دوعظیم فرشتے فرش خاک پر آکھڑے ہوئے۔ ان میں ایک خود حضرت جبرئیل (ع( تھے اور دوسرا وہ طاقتور فرشتہ جس کے شانوں پر خدا نے پہاڑوں کے نظم و نسق کا بوجھ رکھا ہے۔
’’ السلام علیکم یا رسول اللہ! کمال ادب کے ساتھ جبرئیل امین (ع( نے کہا تھا ’’خدا نے وہ ساری گفتگو بہ نفس نفیس سن لی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے مابین ہوئی۔۔۔ اور اس نے اس فرشتے کو خدمت میں حاضر کیا ہے جس کے سپرد کوہستانوں کا نظام ہے کہ جو حکم آپ چاہیں اس کو دیں‘‘۔