کیا پاکستان نے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیرات بند کرنیکا فیصلہ کرلیا؟

صرف علی

محفلین
کیا پاکستان نے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیرات بند کرنیکا فیصلہ کرلیا؟
headlinebullet.gif

shim.gif

dot.jpg

shim.gif

123684_l.jpg

اسلام آباد (تجزیہ : … انصار عباسی) یہ بھارت کیلئے بڑی ہی خوشی کی بات ہوگی کہ حکومت پاکستان نے 14/ ارب ڈالرز مالیت کے دیامر بھاشا ڈیم پر 6/ ارب ڈالرز کے داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کو ترجیح دینے کیلئے ورلڈ بینک کے دباؤ کے سامنے شکست تسلیم کرلی ہے۔ بھاشا ڈیم پر حکومت کے سینئر مشیر نے اسی خطرے سے خبردار کیا تھا۔ خاموشی کے ساتھ بھاشا ڈیم کی تعمیر کا معاملہ نظرانداز کرنے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا رویہ اس قدر متعصبانہ ہے کہ اس نے ایک مرتبہ بھی بھاشا ڈیم پر اہم سرکاری مشیر اور واپڈا کے سابق چیئرمین شکیل درانی سے اس معاملے پر مشاوت کرنے کی زحمت تک گوارا نہ کی۔ سرکاری رد عمل سے مایوس ہونے کے بعد، شکیل درانی نے اپنے کنٹریکٹ کی مدت ختم ہونے سے کچھ ہفتے پہلے ہی استعفیٰ دے دیا۔ سندھ، خیبرپختونخوا، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں چیف سیکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے شکیل درانی نے اس معاملے پر کئی مرتبہ وزیر برائے پانی و بجلی سے ملاقات کرنا چاہی لیکن بھاشا ڈیم پر انہیں اپنا مقدمہ پیش کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ رواں سال کے ابتدائی دنوں میں شکیل درانی نے خبردار کیا تھا کہ کالاباغ ڈیم کے بعد پرسکون انداز سے جاری دیامر بھاشا ڈیم کے تعمیراتی کام کو ورلڈ بینک اور واپڈا کے کچھ افسران سے خطرات لاحق ہیں۔ سابق چیئرمین واپڈا کی جانب سے بھیجے گئے سرکاری نوٹ میں تمام متعلقہ حکام کو خبردار کیا گیا تھا کہ ورلڈ بینک نہیں چاہتا کہ پاکستان ایشیائی ترقیاتی بینک اور فرینڈز آف ڈیموکریٹک پاکستان کی مالی معاونت سے دیامر بھاشا ڈیم تعمیر کرے۔ پیر کو وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کئی لوگوں کو اس وقت حیران کردیا جب انہوں نے یہ اعلان کیا کہ حکومت نے فوری طور پر 6/ ارب ڈالرز کے داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی تعمیر کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس کی تعمیر بلاتاخیر شروع ہوسکتی ہے جبکہ 14/ ارب ڈالرز مالیت کے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر مکمل ہونے میں 10/ سے 20/ سال لگ سکتے ہیں۔ اسحق ڈار کا کہنا تھا کہ دونوں پروجیکٹس پر بیک وقت عمل کیا جائے گا لیکن واپڈا کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بیک وقت دونوں پروجیکٹس پرعملدرآمد کیلئے رقم نہیں ہے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ بھاشا ڈیم کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ”ہم دونوں پروجیکٹس میں بیک وقت جا رہے ہیں۔ ہم اپنا وقت دیامر بھاشا ڈیم پروجیکٹ کی تیاریوں میں کیوں ضائع کریں۔“ جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر امدادی ایجنسیاں اور سرمایہ کار دونوں پروجیکٹس کیلئے 20/ ارب ڈالرز دے سکتے ہیں تو وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ سالانہ اقساط اور سیکوئنسنگ میں یہ معاملات زیر بحث آئیں گے۔ ورلڈ بینک پاکستان سے مسلسل کہہ رہا ہے کہ وہ 4500/ میگاواٹ کے دیامر بھاشا ڈیم کی بجائے 4320/ میگاواٹ کے داسو ڈیم کو ترجیح دے۔ دیامر بھاشا ڈیم 8.5/ ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی بھی سہولت فراہم کرے گا اور تربیلا ڈیم اور ڈاؤن اسٹریم کے بیراجوں کی زندگی میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔ لیکن شکیل درانی نے کچھ ماہ قبل ہی تمام متعلقہ حکام کو خبردار کردیا تھا کہ ”یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ورلڈ بینک ایک ایسا تنازع پیدا کر رہا ہے جس کے نتیجے میں مشترکہ مفادات کونسل سے اتفاق رائے سے منظور ہونے والے دیامر بھاشا ڈیم پروجیکٹ کی تعمیر میں مزید تاخیر ہوسکتی ہے۔“ شکیل درانی نے اس بات پر زور دیا تھا کہ اقتصادی حوالے سے اسٹریٹجک ترجیحات کو مد نظر رکھتے ہوئے داسو ڈیم کے مقابلے میں دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر انتہائی ضروری ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم 85 / لاکھ ایکڑ فٹ پانی جمع کرے گا جو فی الوقت سمندر کی نظر ہوکر ضائع ہوجاتا ہے جبکہ داسو ڈیم محض دریا کے بہاؤ پر منحصر ایک پروجیکٹ ہے اور اس میں پانی ذخیرہ نہیں ہوگا۔ دیامر بھاشا ڈیم بذات خود 4300/ میگاواٹ کے مقابلے میں 4500/ میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا اور مزید یہ کہ اس کی مدد سے تربیلا، غازی بروتھا اور چشمہ ہائیڈرو پاور اسٹیشنوں سے بجلی کے اضافی دو ارب یونٹس حاصل کیے جا سکیں گے۔ انہوں نے یہ دلیل بھی دی تھی کہ دیامر بھاشا ڈیم کے ذریعے پیدا ہونے والی سالانہ بجلی کی مقدار 19/ ارب یونٹ ہوگی جبکہ داسو ڈیم سے صرف 6/ ارب یونٹ بجلی پیدا ہوسکے گی۔ بھاشا ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت 190/ ارب روپے ہوگی جبکہ داسو ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت 60/ ارب روپے ہوگی۔ شکیل درانی نے اپنے نوٹ میں یہ بھی بتایا ہے کہ بھاشا ڈیم سیلاب کو کنٹرول کرنے والا ڈیم بھی ہوگا اور اس کی مدد سے تربیلا ڈیم کی میعاد 35/ سے 50/ سال تک بڑھ جائے گی۔ 2010ءء میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے 10/ ارب ڈالرز کا نقصان ہوا تھا جبکہ دو ہزار افراد جاں بحق ہوئے تھے، یہ نقصان روکا جا سکتا تھا بشرطیکہ ملک میں اپ اسٹریم پر پانی ذخیرہ کرنے کا ایک بڑا ذریعہ موجود ہوتا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ داسو ڈیم کی تعمیر پر ہونے والے اخراجات کم بتائے گئے ہیں اور ورلڈ بینک نے جان بوجھ کر اس کی تعمیر پر خرچ ہونے والے برسوں کو کم کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر پر ہونے والے اخراجات داسو ڈیم کے اخراجات سے صرف دو ارب ڈالرز زیادہ ہوں گے۔ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر پر ہونے والے اخراجات میں دوران تعمیر سود (انٹریسٹ ڈیورنگ کنسٹرکشن) کی رقم یعنی چار ار ب ڈالرز بھی شامل ہیں جبکہ داسو ڈیم پروجیکٹ کی بتائی گئی رقم میں یہ رقم شامل کرکے نہیں بتائی گئی کیونکہ آخر الذکر ڈیم اپنی آمدنی کے ذریعے تعمیر ہونا ہے۔

http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=123684
 

حسینی

محفلین
اگر پاکستان کی ریاست نے خودکشی کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو اب کون روک سکتا ہے۔۔
کالا باغ ڈیم سیاہ ست کی نذر ہو کر اب صرف سبز باغ رہ گیا ہے۔۔۔
بھاشا دیامر ڈیم بھی لگتا ہے اب سیاہ ست کی نذر ہو جائے گا۔۔۔
کبھی ہم پانی نہ ہونے اور قحط سالی سے مرتے ہیں۔۔۔ اور جب بارشیں ہوتی ہیں تو سیلابس سے مرتے ہیں۔۔
کسی بھی حوالے سے کوئی انتظام نہیں۔۔۔۔
میرا خیال ہے ڈیم کے مسئلے میں حکومت کو بالکل بھی تساہل سے کام نہیں لینا چاہیے۔۔۔۔ اور ہر ڈیم ڈنڈے کے زور پر بنانا چاہیے۔۔ اور کسی کو مخالفت کی ہرگز اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
 
Top