کیا مغربی سفارت خانوں کو جلانا صحیح؟

مہوش علی

لائبریرین
خبروں کے مطابق، ایران اور دیگر چند مسلم ممالک میں عوام نے مغربی ممالک کے سفارت خانوں کو آگ لگا دی۔

کیا آپ کے خیال میں ایسا رد عمل صحیح ہے؟

میری ذاتی رائے یہ ہے کہ یہ احتجاج میں افراط ہے اور اسکا الٹا نقصان ہی ہو گا اور مغربی دنیا میں اُس گروہ کی مقبولیت کا باعث بنے گا جو مسلم دشمنی میں مشہور ہے۔
 

زیک

مسافر
اس بات کو چھوڑیں کہ اس سے مغرب میں کیا اثر ہو گا۔ سفارت‌خانہ جلانا اور violence اختیار کرنا اخلاقی اعتبار سے ہی بہت بری بات ہے۔
 

اظہرالحق

محفلین
میرے خیال میں آپ (مہوش اور زکریا) دونوں مغرب میں رہتے ہو اور کافی عرصے سے ہو اسلئے آپ کے لئے مغربی طرز کی سوچ ہی صحیح لگتی ہے ۔ ۔ ۔

مگر مغرب والے کیا کرتے ہیں ، وہ سفارتی آداب کو فالو کر رہے ہیں ، بہت لمبی بحث ہو جائے گی ۔ ۔ ۔ آسان لفظوں میں نہیں ۔ ۔ ۔ کیونکہ وہ طاقت ور ہیں اور ہم کمزور اسلئے ۔ ۔ ۔ کیا امریکہ نے اپنے فوجیوں کو ہر طرح کی سرزنش سے بالا تر نہیں رکھا حتہ کہ جنیوا کے معاہدے سمیت ۔ ۔ ۔

اچھا چلیں اب آپ یہ کہیں کہ وہ غلط ہیں تو کیا ہم بھی غلط ہو جائیں ۔ ۔ ۔ ٹھیک ہے آپ بتائیں احتجاج کا راستہ ؟ کیا سلمان رشدی والے کیس کو مغرب سپورٹ نہیں‌کر رہا تسلیمہ نسرین کو مغرب کی شہ نہیں ۔ ۔ ۔

اور اب ۔ ۔ ۔ پچھلے کتنے ہی دنوں سے جس چیز پر پھڈا ہے وہ لگاتار وہ عمل دوہرایا جا رہا ہے کل فرانس کے چارلی میگزین میں چھپا آج نیویارک سن میں اور کل پھر کسی اور میگزین اور اخبار میں ۔ ۔ ۔

ہم کیسے کریں احتجاج ؟ ۔ ۔ ۔ ہماری حکومتیں مغرب کی غلام ۔ ۔ ۔ ہمارے ذہین اور فطین لوگ مغربی طرز زندگی کے حامی ۔۔ ۔ ۔

اب آپ کہیں کہ مسلمانوں کو ہی کیا تکلیف ہے کہ ہر دفعہ انہیں کبھی دہشت گرد بنا دیا جاتا ہے کبھی ۔ ۔ انکے صبر کا امتحان لیا جاتا ہے کبھی انکی غیرت اور طاقت کو للکارا جاتا ہے ۔ ۔۔

آپ جھک جائیں طاقت کے سامنے مگر ایک غیرت مند اور ایسا مسلمان جس کے دل ذرا سا بھی ایمان ہے کبھی نہیں جھکے گا ۔ ۔ ۔ وہ ہر اس عمل پر احتجاج کرے گا ہر ممکن طریقے سے ۔ ۔ ۔ جو اسکی شناخت کو ختم کرتا ہو ۔ ۔۔

مغرب اپنے دوہرے معیارات کو ختم نہیں کرے گا تو اسکے سفارت خانے کیا اسکو اسی ڈر کی زندگی گذارنی ہو گی ۔ ۔ ۔ اسکی سکیورٹی الرت ہمیشہ ہائی رہے گا ۔ ۔ ۔ یہ ہی اسکے غلط ہونے کی نشانی ہے

ہاں اب آپ یہ کہیں گے کہ چھوڑ کہ مغرب کو اب ہم اس گلوبل ولیج میں کیا کریں گے ۔ ۔ ۔

یاد رکھو اگر ، اٹھ گئی اک نظر
جتنے خالی ہیں سب جام بھر جائیں گے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آپ لوگوں کے لئے شاید یہ جزباتی باتیں ہوں ۔ ۔ ۔ مگر جذبے ہی انسانوں کو انقلاب کا راستہ دیکھاتے ہیں ۔ ۔ اور شاید اب انقلاب دور نہیں ۔ ۔ ۔

وہ ایک امریکی کا ہی یاد آ گیا ۔ ۔ کالے امریکی کا ۔ ۔ ۔ جس نے کہا تھا کہ “میرا ایک خواب ہے “ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ خواب جذبے نے سچ کر دیکھایا اسکے لئے اسے طاقت سے لڑنا ضرور پڑا مگر آج بھی امریکی کالے اسے اپنا محسن مانتے ہیں ۔ ۔ ۔

امریکی مثال اسلئے دی کہ شاید ۔ ۔ ۔ اسلامی مثال ہمارے لئے “دقیانوسی “ ہوتی ہے ۔ ۔ ورنہ آج کی دنیا کے بھی کچھ ایسے مسلمان ہیں ۔ ۔ ۔ جو اس کالے سے شاید زیادہ بڑا جذبہ رکھتے ہیں‌ ۔ ۔
------------

ویسے اس تحریر و تقریر پر ولایت (انگلیڈ والے) مجھے کم سے کم 7 سال کی قید سنا سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ کیا خیال ہے ؟
 

زیک

مسافر
اظہر: آپ کو میری بات سمجھ نہیں آئی اور آپ کی پوسٹ میرے سر کے اوپر سے گزر گئی ہے۔

بات احتجاج کی نہیں اس کے طریقے کی ہے۔ سلمان رشدی پر موت کا فتویٰ لگا کر کیا حاصل ہوا؟ اس سے اسلام کی کیا خدمت ہوئی؟ سفارت‌خانے جلا کر اور لوگوں کو موت کی دھمکیاں دے کر کیا ملے گا مسلمان کو؟ اس سے اسلام کا کیسے بول بال ہو گا؟ کیا یہی سنت رسول ہے؟

اور یہ مغربی اخلاق اور اسلامی اخلاق کیا ہوتا ہے؟

پھر یہ سوچیں کہ دو سفارت‌خانے جلائے گئے دمشق میں۔ شام وہ ملک ہے جہاں وہاں کے حکمران کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ سالوں پہلے حافظ اسد نے اپنے ایک شہر کا صفایہ کر دیا تھا جب وہاں اس کی مخالفت ہوئی تھی۔ آپ کے خیال میں شام کے حکمران کوئی بڑے اسلام کی خدمت میں اپنے عوام سے یہ کام کروا رہے ہیں؟
 

نعمان

محفلین
اسلامی اخلاقیات کے تحت بھی سفارتی عمارتوں کو جلانا بری بات ہے۔

اظہر بھائی اگر کہیں سے مل سکے تو تھامس فرائڈمین کی کتاب ورلڈ از فلیٹ حاصل کریں اور ضرور پڑھیں۔ میرے بھائی دنیا اب بیت المقدس کے گرد نہیں گھومتی
 

اظہرالحق

محفلین
زکریا نے کہا:
اظہر: آپ کو میری بات سمجھ نہیں آئی اور آپ کی پوسٹ میرے سر کے اوپر سے گزر گئی ہے۔

بات احتجاج کی نہیں اس کے طریقے کی ہے۔ سلمان رشدی پر موت کا فتویٰ لگا کر کیا حاصل ہوا؟ اس سے اسلام کی کیا خدمت ہوئی؟ سفارت‌خانے جلا کر اور لوگوں کو موت کی دھمکیاں دے کر کیا ملے گا مسلمان کو؟ اس سے اسلام کا کیسے بول بال ہو گا؟ کیا یہی سنت رسول ہے؟

اور یہ مغربی اخلاق اور اسلامی اخلاق کیا ہوتا ہے؟

پھر یہ سوچیں کہ دو سفارت‌خانے جلائے گئے دمشق میں۔ شام وہ ملک ہے جہاں وہاں کے حکمران کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ سالوں پہلے حافظ اسد نے اپنے ایک شہر کا صفایہ کر دیا تھا جب وہاں اس کی مخالفت ہوئی تھی۔ آپ کے خیال میں شام کے حکمران کوئی بڑے اسلام کی خدمت میں اپنے عوام سے یہ کام کروا رہے ہیں؟

جی ہاں میری پوسٹ سر کے اوپر سے گذرنی ہی چاہیے ۔ ۔ ۔ جیسے مغرب کے اخباروں اور لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ مسلمان کتنے عجیب ہیں ، ہمارے یہاں لوگ عیسٰی اور موسٰی کا مذاق اڑاتے ہیں کوئی اثر نہیں لیتا ۔ ۔ مگر یہ لوگ تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دوسری بات ۔ ۔۔ ایران اور شام کیا خدمت کررہے ہیں اسلام کی ۔ ۔ ۔ حکومتی سطح پر کچھ نہیں ۔ ۔ ۔ مگر عوامی سطح پر بہت کچھ ۔ ۔ ۔ ان ملکوں کی عوام اپنی حکومت کا ساتھ صرف اسکی اچھی باتوں پر دیتی ہے ۔ ۔ ۔

سلمان رشدی کی موت کا فتوٰی لگا کر کچھ حاصل ہوا ہو نہ ہو ۔ ۔ ۔ مگر مغرب نے جو نفرت کا بیج بویا تھا آج وہ کاٹ رہا ہے ۔ ۔ ۔ مسلمان سب احجاج کر کے چپ ہو گئے تھے نا ۔ ۔ تو پھر یہ قضیہ کیوں اٹھا ؟ کس نے اٹھایا ۔ ۔ ۔ اصل میں مغرب بار بار سوئے ہوئے مسلمانوں کو اٹھا رہا ہے ۔ ۔ ۔ مگر ہم کروٹ لیتے ہیں اور سو جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ابھی بھی کروٹ ہی بدل رہے ہیں ۔ ۔

اب سنت رسول کی طرف آتے ہیں ۔ ۔ ۔ یہ رسول کے امتی ہی ہیں ۔۔ ۔ کہ جو اپنی توہین برداشت کر سکتے ہیں مگر نبی کی نہیں ۔ ۔ ۔ اوراسلامی قانون کے مطابق ۔ ۔ ۔ آپ پر مجھ پر ہم سب پر جہاد فرض ہے ۔ ۔ اور جہاد جنگ ہے اور جنگ لڑی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ کیا امریکہ خود کو حالت جنگ میں رکھ نہیں رہا؟ کون سا مسلمان جا کر امریکہ پر چڑھائی کر رہا ہے ؟ یا تھا؟ ۔ ۔ ۔

ان سب کو اسلام سے چڑ نہیں محمد(ص) سے چڑ ہے ۔ ۔ ۔ اور اسلام محمد(ص) کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔

ویسے تو ماڈرن مسلمان جیسے ہیں قسم سے اگر آج کے مسلمانوں کو ابو جاہل دیکھ لے تو وہ فورا اسلام قبول کر لے ، کہ بھائی ۔ ۔۔ محمد پر پتھر مارنے والے صرف فوں فاں کر کے چپ ہو جائیں اور وہ سب کام کریں جو غیر مسلم کرتے ہیں تو پھر اسلام میں اور کفر میں فرق کیا رہا ۔ ۔ سو ابو جاہل تو فورا مسلمان ہو جاتا

اب آتے ہیں مغربی اخلاق کی طرف ۔ ۔ ۔ مغربی اخلاق یہ ہے ۔ ۔ ۔ کہ کمزور پر گرفت کرو ۔ ۔ ۔ اسلامی اخلاق یہ ہے کمزور کو آزاد کرو ۔ ۔ ۔ مغربی اخلاق یہ ہے ۔ ۔ کہ مذہب دنیاوی زندگی میں ایک اضافی کام ہے ۔ ۔ جب کہ اسلامی اخلاق یہ ہے کہ مذہب دنیاوی زندگی کا رہبر ہے ۔ ۔ ۔ اسلامی اخلاق یہ ہے کہ مفتوح علاقوں میں امن قائیم ہو ۔ ۔ ۔ مغربی اخلاق یہ ہے کے مفتوح علاقوں میں شورش ہی رہے ۔ ۔ ۔ تا کہ عوام اسے نہ جان سکیں ۔ ۔ ۔

اور ہاں ایک چیز بتا دوں میں بے شک بائی برتھ مسلمان ہوں ۔ ۔ ۔ مگر اب بائی چوائس بھی مسلمان ہوں الحمدللہ

اور ساتھ ہی ایسا بھی مسلمان ہوں جو شب برات کو کچھ کرے نہ کرے ایک پٹاخہ ضرور چھوڑ سکتا ھے ۔ ۔ ۔ 8)

ویسے آپ مغربی معیارات کے مطابق مجھے کتنی سزا دیں گے ؟
 

اظہرالحق

محفلین
نعمان نے کہا:
اسلامی اخلاقیات کے تحت بھی سفارتی عمارتوں کو جلانا بری بات ہے۔

اظہر بھائی اگر کہیں سے مل سکے تو تھامس فرائڈمین کی کتاب ورلڈ از فلیٹ حاصل کریں اور ضرور پڑھیں۔ میرے بھائی دنیا اب بیت المقدس کے گرد نہیں گھومتی

میں سفارت کاری کے آداب اچھی طرح سے جانتا ہوں اور ۔ ۔ ۔ فرئڈمین کی جس کتاب کا حوالہ دیا ہے پڑھ رکھی ہے ۔ ۔ ۔

مگر صرف اس وقت یہ کہوں گا ۔ ۔ کہ ذرا بتانا مجھے کہ اسرائیل کے قیام کے بارے میں (معاہدہ بلفور1917) کیا لکھا ہے ۔ ۔ ۔ اور وہ مصر کے تین یہودیوں کی پھانسی کے بارے میں کیا لکھا ہے (جن کا آخری گیت اسرائیل کا قومی ترانہ ہے ) ۔ ۔ ۔ ۔

اصل میں میری یاداشت کافی کمزور ہے ۔ ۔ ۔ ورنہ کچھ اور حوالے بھی دیتا ۔ ۔ آپ کو شاید لارنس آف عریبیہ ہیرو نظر آئے ۔ ۔ ۔ مگر میری نظر میں جیسی جیکسن اور نیلسن مینڈیلا ہی عوامی ہیرو ہیں ۔ ۔ ۔

اور ہاں ۔ ۔ ۔ سفارتی آداب ذرا امریکیوں کو بھی یاد کروا دیجیے کہ جہاں سفارتی وفود کی جامہ تلاشی ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ اور ہاں ۔ ۔ بلی دا کڈ بھی دیکھنا ۔ ۔

میرے بھائی میں سب کچھ جانتا ہوں ۔ ۔ ۔ مگر اپنے لوگوں کی بے بسی بھی جانتا ہوں ۔ ۔ ۔ اور بھائی میرے سفارت کاری میں اسلام سے بڑھ کر کوئی مذہب نہیں بتاتا ۔ ۔ ۔ تاریخ آپ کے سامنے ہے ، وہ صلاح دین ایوبی ہو ۔ ۔ یا معتصم باللہ یا پھر نبی کریم(ص) کے قاصد ۔ ۔ ۔

آپ بتا دیں کوئی راستہ میرے لوگوں کو کہ وہ کیسے کریں احتجاج کہ یہ کارٹون نہ چھپیں ۔ ۔ ۔ آپ مسلمان ہو تہ چپ بیٹھ جانا ۔ ۔ مجھے کل اللہ کو منہ دکھانا ہے ۔ ۔

آپ کی اطلاع کے لئے عرض کر دوں ۔ ۔ (پلیز مجھ سے سورس مت پوچھنا ) اسلامی حکومتوں کی طرف سے فرانس سے باقاعدہ گذارش کی گئی تھی کہ آپ کے یہاں ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔ ۔۔ کیونکہ ہم اپنی عوام کے سامنے جوابدہ ہیں اور سفارت کاری کو دھتکار دیا گیا حتہ کہ یارک شیراک نے انسے ملنے سے ہی انکار کر دیا ۔ ۔ ۔

نیوزی لینڈ کا رسپانس مثبت تھا مگر ۔ ۔ اس پر بھی یورپی یونین والے دباؤ ڈال رہے ہیں ۔ ۔ اور ہاں بڑے بھائی کے ہاں بھی باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے ۔ ۔

اور ایرانی رہنما کا کہنا صحیح ہے کہ یہ اسرائیلی سازش ہے ۔ ۔ ۔ بس اتنا ہی کہ سکتا ہوں ۔ ۔۔

اور ہاں دنیا اب بھی بیت المقدس کے گرد ہی گھومتی ہے ۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ صرف کسٹوڈین بدل گیا ہے ۔ ۔ ۔ ورلڈ از فلیٹ ۔ ۔ بٹ ۔۔ یو کانٹ سی ۔ ۔ ۔ ٹو فار ۔۔ ۔
 

اظہرالحق

محفلین
نعمان نے کہا:
اچھا تو پھر آپ بتادیں کہ مسلمانوں کو کس طرح احتجاج کرنا چاہئیے؟

مسلمان بن کر ۔ ۔ ۔

پہلے ۔ ۔ ۔ سفارت کاری سے
پھر احتجاج سے
پھر رابطے توڑ کہ
پھر جہاد بلسیف سے چاہے آپ کتنے ہی کم اور کمزور کیوں نہ ہوں ۔ ۔ ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مغرب چاہتا ہے کہ میٹھا احتجاج ہو، غلامانہ احتجاج ہو۔ تاکہ ان کی سامراجیت کو کوئی ٹھیس نہ پہنچے۔
جب کہ امام حسین کے نام لیوا مصلحت پسند نہیں ہوتے بلکہ ایسی مصلحت پسندی کو وہ جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں جو انہیں اپنے آقا علیہ الصلوۃ والسلام سے دور کردئے۔
 
میرا خیال ہے کہ احتجاج صرف کمزور لوگ کرتے ہیں اور بدقسمتی سے ، بہرحال اللہ کی مشیّت کے تحت، مسلمان اس وقت کمزور ہیں۔ مسلمانوں میں قحط الرجال کی کیفیت ہے اور ہماری مرکزیت غیر موجود ہے۔ اس حالت میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ مسلمانوں کی غیرت ایمانی زندہ ہے اس کا اظہار مختلف طریقوں سے ہورہا ہے۔
یہ غیرتِ ایمانی شعلہ جاوداں بن جاے گی وقت قریب ہے انشاللہ
 

الف نظامی

لائبریرین
مرکزیت کا ہونا نہایت ضروری ہے۔
مسلمان ممالک اس کا احساس کریں اور او آئی سی کو منظم کریں۔
اقوامِ متحدہ نے ہمیں‌کچھ نہیں دیا۔ سلامتی کونسل میں کوئی بھی مسلمانوں کا نمائندہ نہیں۔
یہ صرف سامراجیوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
اظہرالحق نے کہا:
نعمان نے کہا:
اچھا تو پھر آپ بتادیں کہ مسلمانوں کو کس طرح احتجاج کرنا چاہئیے؟

مسلمان بن کر ۔ ۔ ۔

پہلے ۔ ۔ ۔ سفارت کاری سے
پھر احتجاج سے
پھر رابطے توڑ کہ
پھر جہاد بلسیف سے چاہے آپ کتنے ہی کم اور کمزور کیوں نہ ہوں ۔ ۔ ۔

سنا نعمان تم نے؟ بس اب انتظار کرو۔۔ اظہرالحق تلواریں بانٹتے ہوئے تم تک بھی پہنچیں گے۔ :?
 

الف نظامی

لائبریرین
نبیل اظہر الحق نے کہیں تلوار باٹنے کا ذکر نہیں کیا ۔ احتجاج ہمارا حق ہے اور جب تک کوئی نتیجہ برامد نہیں ہوتا احتجاج جاری رہے گا۔ ویسے جو لوگ احتجاج کے مخالف ہیں انہیں چوسنیاں باٹنی چاہیں تاکہ سامراجیت کے ہاتھ مضبوط کر سکیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
بھائی ہمیں تو تم لوگوں کی باتیں کم ہی سمجھ آتی ہیں۔ چلو تم چوسنیاں ہی بانٹنا شروع کردو۔۔ ڈنمارک کی بنی ہوئی- :wink:
 

الف نظامی

لائبریرین
نبیل نے کہا:
بھائی ہمیں تو تم لوگوں کی باتیں کم ہی سمجھ آتی ہیں۔ چلو تم چوسنیاں ہی بانٹنا شروع کردو۔۔ ڈنمارک کی بنی ہوئی- :wink:
سمجھ آئے گی بھی نہیں۔ویسے آپ کو مغربی دنیا سے خاصی ہمدردی ہے ۔ ان کو ہمدردی کا خط بھی لکھ ماریں تاکہ محبت اور مضبوط ہو اور باہم روابط پختہ ہوں۔
احتجاج جاری رہے گا۔۔۔
 
اظہر الحق اور راجہ کی باتیں جذباتی ضرور ہیں مگر مسلمان ہوتے ہی جذباتی ہیں کیا کیا جائے :)

میں نے یہ کارٹون دیکھا تو میں دو دن انتہائی پریشان رہا کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور اب آزادی صحافت کے نام پر جس کا جو دل کرے گا وہ کرتا رہے گا۔ شاید جوذرا سی غیرت ایمانی تھی وہ ایڈیٹر کے معافی مانگ لینے سے ختم ہو جاتی مگر جو رویہ یورپین اخبارات نے اختیار کیا وہ انتہائی قابل مذمت اور افسوسناک تھا۔ جانتے بوجھتے بار بار اس آگ پر تیل چھڑکا جا رہاہے۔ اگر کسی کو کوئی غلط فہمی تھی تو وہ پہلے ہفتہ کے پرزور احتجاج سے دور ہو جانی چاہیے تھی مگر کونسی ذمہ داری کا احساس کیا پوری مغربی دنیا نے۔ اسرائیل کی حکومت کو نسل پرست کہنے پر اس کا اقوام متحدہ میں بائیکاٹ کیا جاسکتا ہے اور تمام مسلمانوں کی عزیز تریں ہستی کی توہین پر نیم دلانہ معذرتیں اور ساتھ ساتھ یہ اصرار بھی کہ صحافت پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی یہ ہماری روشن اقدار ہیں۔ یہ ہے روشن خیالی اور یہ ہے وہ آزادی رائے جس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے تھکتے نہیں یہ لوگ۔ میں نے پرامن طریقہ سے میل کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تھا اور میں ذاتی طور پر دعاگو تھا کہ اب یہ معاملہ ختم ہو جائے گا، امریکہ اور برطانیہ نے اس کی مذمت کی تھی اب باقی بھی محتاط ہو جائیں گے مگر جو ہورہا ہے میری سمجھ سے بالاتر ہے اور انتہائی بے بسی کا عالم ہے کہ مسلمان عوام کا پرزور احتجاج، مسلم ملکوں کے حکمرانوں کی مذمت اور اپیل کچھ بھی مغرب کو باز نہیں رکھ پا رہا اور وہ اس انتہائی شرمناک اور گھناؤنے کاروبار کو بڑھاتے جا رہے ہیں۔ سفارت خانے نہیں جلانے چاہیے اور تشدد نہیں ہونا چاہیے مگر صحافتی آزادی کے نام پر جو جس کے دل میں آئے وہ ہوتا رہنا چاہیے۔ مسلمان کمزور ہیں اور اس لیے ہر صورت میں مجرم وہی ٹھہریں گے ۔ طعنے یہی دیے جائیں گے کہ دیکھا مسلمانوں کا عمل، وحشی ہیں یہ لوگ ، کتنے پرتشدد ہیں ، ایک کارٹون نہیں جھیل سکتے ہم تو سب کچھ جھیل لیتے ہیں اور روا رکھتے ہیں۔

اب مغرب کو کون بتائے گا کہ اگر اگر تہذیب اور اخلاق اب ان کی زندگیوں میں کمتر درجہ پر آگیا ہے تو ساری دنیا ایسی نہیں ہوگئی۔ ان کے لیے جو معمولی بات ہے وہ مسلمانوں کے لیے زندگی موت کا مسئلہ ہے اور ابھی بھی یہ آگ بھڑکی نہیں اگر مغرب نے اسے اور ہوا دی تو ایک قیامت برپا ہو سکتی ہے۔ وہ لوگ بھی متشدد ہو سکتے ہیں جنہوں نے کبھی اس بارے میں سوچا بھی نہ ہو۔ اپنی بے بسی اور لاچاری کا احساس حد سے سوا ہے۔

سچ کہا ہے اقبال نے

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
 

مہوش علی

لائبریرین
محب برادر،
جذباتی ہونا بہت اچھی بات ہے اور اس معاملے میں سب مسلمان ہی جذباتی ہو رہے ہیں۔ مگر جوش میں ہوش کھونا شاید اسلام کے مفاد میں نہ ہو۔ بہت لازمی ہے کہ جوش کے ساتھ ساتھ صبر و تحمل اور برداشت کے ساتھ عقل کا استعمال کرتے ہوئے حالات کے مطابق بہترین طرزِ عمل اختیار کیا جائے۔

مثال کے طور پر، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم یہ بات جانیں کہ کیا شریعت نے ہمیں اس مسئلہ پر کیا کوئی رہنمائی نہیں کی ہے، بلکہ بے مہار اونٹوں کےطرح کھلا چھوڑ دیا ہے کہ جس کا جو دل چاہے، جذبات میں آ کر کرتا پھرے؟ [جیسے جب بابری مسجد شہید ہوئی تو پاکستان میں جذبات میں آ کر لوگوں نے مندر گرا دیے اور حتی تک کہ گرجوں تک کو نہیں چھوڑا اور عیسی علیہ السلام کی پتھری بُت (جو عیسائی عقیدہ کے مطابق اتنا ہی مقدس ہے جیسا کہ مسلمان کے لیے رسول ص کا کارٹون اخبار میں شائع ہونا)

تو میری ناقض رائے میں شریعتِ اسلامیہ اس دلیل کو نہیں مانتی کہ جذبات میں آ کر ہر کام کرنے کی کھلی چھٹی ہو، بلکہ پہلی قدم یہ ہے کہ اس معاملے میں سب سے پہلے شریعت سے ہی رہنمائی حاصل کی جائے۔

اور اگر ہمیں شریعت سے رہنمائی حاصل کرنی ہے، تو ذیل کے سوالات ذہن میں اٹھتے ہیں:

1۔ اگر کوئی غیر مسلم، ایک اسلامی ریاست میں رہتے ہوئے رسول ص کی شان میں گستاخی کرتا ہے، تو کیا شریعت اس کی کوئی شرعی سزا مقرر کرتی ہے؟

2۔ لیکن اگر کوئی غیر مسلم، جو کسی غیر اسلامی ریاست میں رہتا ہے، اگر وہ ایسا فعل انجام دیتا ہے، تو کیا اُس پر بھی کوئی شرعی سزا کا حکم جاری ہو سکتا ہے؟

3۔ جب رسول ص کے دور میں غیر مسلم آپ کا مضحکہ اڑاتے تھے، تو آپ ص کا اس پر رویہ کیا تھا؟ کیا آپ تلوار نکال کر ایسے غیر مسلموں پر پل پڑے یا پھر آپ نے اللہ سے ان کو ہدایت دکھانے کی دعا فرمائی؟ تو جو بھی ایسے موقعوں پر اسوہ رسول ہو گا، وہی ہمارے لیے اصولِ شریعہ ٹہرے گا۔

اس لیے میں نے عرض کیا تھا کہ جذبات کے ساتھ ساتھ بہت ضروری ہے کہ ہوش و حواس کو قائم رکھتے ہوئے اُسی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے، جو کہ رسول ص نے خود ان مواقع پر دکھایا تھا۔
 
ہوسکتا ہے کہ ڈنمارک اور ناروے کے سفارت خانوں پر پتھر پھینکا اور چند لوگوں کا کچھ اگ وغیرہ لگادینا کچھ زیادہ جذباتی لگ رہا ہو مگر جو نقصان انہوں‌ نے ہمارا کیا ہے وہ مٹیریل نقصان سے بہت زیادہ ہے۔ بحثیت مجموعی مسلمانوں‌ کی عظیم اکثریت نے ہمشہ صبروتحمل سے کام لیا ہے ورنہ جو حرکتیں یہ لوگ کررہے ہیں‌وہ کم ازکم ان کو صف انسانیت سے خارج کرنے کے لیے کافی ہیں۔

کم ظرف مذہب بیزار مغربی لوگوں‌نے ہمیشہ مذہب کے خلاف یہ شیطانی ہتکنڈے استعمال کے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے ایمسڑڈیم میں حضرت عیسیٰ علیہ سلام اور پوپ کی بہت ہی نازیبا تصاویر کی نمائش دیکھی تھی جس سے یورپ کے لوگو ں‌کے گٹھیا ذہنی معیار کی عکاسی ہوتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس گئے گزرے دور میں بھی مسلمانوں‌ کا ذہنی شعور مجمعوعی طور پر دنیا بھر میں سب سے بہتر ہے اور اس کی واحد وجہہ قران و سنت کا ہمارے درمیان موجود ہونا ہے۔
معاملہ مسلمانوں کے صبر و تحمل کا ہے ہی نہیں۔ معاملہ تو بڑھتی ہوئی گھٹیا ذہنت کا ہے جس کا مظاہرہ مغربی دنیا کر رہی ہے۔
 
Top