کیا مسلک اہل حدیث صوفیوں کا مسلک ہے؟

ابن محمد جی

محفلین
کیا مسلک اہل حدیث صوفیوں کا مسلک ہے؟


مسلک اہل حدیث کے متعلق اس عہد میں یہ غلط فہمی مشہور ہے کہ یہ مسلک صوفیاء عظام ؒ کا گستاخ اور تصوف و احسان کا منکر ہے،اگرچہ اس عہد میں اس الزام کی کچھ حقیقت بھی موجود ہے،کیونکہ جس مکتبہ فکر کی آبیاری سید نذیر حسین دہلوی ؒ اور ان کے شاگردوں نے کی ،جس مسلک پر زور قلم نواب صدیق حسن خانؒ نے صرف کیا، آج وہ مسلک اپنے نہج سے ہٹ کر علماء نجد سے متاثر ہو کر نجدی یا سلفی مسلک بن چکا ہے،اور برصغیر میں اسکی پہچان اور مقصد فقہ حنفی کی مخالفت بن چکا ہے،الا ماشا ء اللہ۔ جبکہ اس مسلک کا ما ضی روز روشن کی طرح گواہ ہے کہ اس مسلک کے اکابرین اور علمائے حناف کے آپس میں بڑے گہرے روابط تھے ،اور اپنے اختلافات کو محض فروعات سمجھتے تھے،مگر وائے بد نصیبی کہ۔۔
"کارواں جاتا رہا اور کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا"
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلک اہلحدیث صوفیوں کا مسلک ہے،اور منکرین تصوف کا مسلک اہل حدیث سے کچھ تعلق نہیں،راقم الحروف کے علم میں کتنے ایسے لوگ موجود ہیں ، جو مسلکاً اہل حدیث اور مشرباً نقشبندی اویسی ہیں،منکرین تصوف حقیقت میں مختلف گمراہ فرقوں کا ایک مغلوبہ ہے،اور یہ اہل حدیث کا روپ دھار کر عامۃ الناس کو دھوکا دہے رہے ہیں۔ یاد رکھیں تصوف و احسان سے مطلق انکاری سلف و حلف میں کسی نے بھی نہیں کی،ہاں جس طرح دین کے دیگر شعبوں میں بے عمل لوگوں نے گمراہیاں پیدا کی ہیں بلکل ایسے ہی تصوف و احسان کے شعبہ میں بھی ہوا،اور نام نہاد مشائخ نے منکرین تصوف کی طرح لوگوں کو گمراہ کیا اور یہ مشہور کیا کہ شریعیت اور ہے اور طریقت اور۔اس پر اہل علم اور صوفیاء حضراتؒ نے خوب گرفت فرمائی۔
اللہ پاک ہم کو ان گمرائیوں سے ہم کو محفوظ فرمائیں۔
مسلک اہل حدیث کے مشہور عالم ارشاد الحق اثری صاحب نے" پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث کی خدمات حدیث" میں جن علماء اہل حدیث کا تذکرہ فرمایا ہے وہ تمام اپنے وقت نامور صوفی بھی تھے۔اور جن مدارس کو مسلک اہل حدیث کے مراکز لکھا وہ تمام مدارس صوفیاء اہل حدیث ؒ کے تھے ،مدرسہ غزنویہ ،جامعہ محمدیہ،اور مدرسہ آرہ وغیرہ یہ تمام لوگ صوفی بھی تھے۔
مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ ان حضرات کےتعلق تصوف و احسان پر لکھنے سے آپکا قلم کیوں گھبرا گیا۔۔افسوس۔۔
ولا تلبسوا الحق بالباطلوتكتمواالحق وأنتم تعلمون۔
ہندو پاک میں مکتبہ اہل حدیث کی باقاعدہ بنیاد رکھنے والے حضرت مولانا سید نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ خود بھی بہت بڑے صوفی تھے اور آپکی تعلیم وتربیت بھی جن افراد کے ہاتھوں ہوئی وہ تمام لوگ اپنے عہد کے نامور صوفی تھے ،راقم الحروف نے آپ ؒ کی زندگی پر قدرے تفصیلی ایک مضمون " سید نذیر حسین دہلویؒ اور احسان سلوک "لکھا تھا، جس میں آپکی زندگی کے اس پہلو پر بات کی گئی تھی۔"پیری مریدی" کے نام سے تصوف پر آپکی ایک تصنیف کا بھی ذکر ملتا ہے۔
میں ضمناً عرض کر دوں کہ جب کوئی تحریک وجود میں آتی ہے تو پس پردہ کچھ اسکے متحرکات ہوتے ہیں ، سید نذیر حسین دہلوی ؒ کا عہد اٹھارویں صدی کا ہے ۔اور آپ کا نہج اس سے پہلے بھی امت کے خواص میں نظر آتا ہے ، ابن تیمیہؒ اور آپکے شاگرد ابن قیمؒ اور علامہ شوکانی ؒ وغیرہ اسی نہج کے علمبردار تھے،مگر قرآن حدیث سے اس ا نداز سے استنباط کرنا اہل علم ہی کا کام تھا،اس لئے یہ مسلک علماء ہی میں رہا ہے ،سید نذیر حسین دہلویؒ نے اس مسلک کو علماء سے عوام میں منتقل کر کے ایک پانچویں فقہ کی بنیاد رکھی۔کیونکہ عامی خواہ حنفی ہو یا اہلحدیث وہ مقلد ہی ہو گا۔

پاک و ہند میں اس وقت کے حالات وپیش ونظر ،فقہ حنفی میں علماء کے فتوی جات کا ایک رد عمل مسلک اہل حدیث کی شکل میں ظاہر ہوا،لیکن اس کا مقصد یہ ہر گز نہ تھا کہ مسلمانوں کو تفریق کیا جائیں ،بلکہ پورے خلوص سے ایک فکر تھی ،جو عوام کے سامنے رکھی گئی ، مسلک اہل حدیث کے امام سید نذیر حسین دہلویؒ شاہی مسجد میں حنفی امام کی اقتداء میں نمازیں ادا کر تے رہے۔


سید نذیر حسین دہلوی ؒ سے منسلک عہد میں دوسری بڑی شخصیت جو نطر آتے ہیں وہ نواب صدیق حسن خان ؒ ہیں ،ان دونوں حضرات میں فرق یہ ہے کہ سید نذیر حسین دہلویؒ اپنے شاگردوں کے ذریعے اس مسلک کی ترویج کی اور نواب ؒ نے قلم کے ذریعے ۔
نواب صاحب خود بھی صوفی تھے ،تصوف پر آپکی تصنیفات موجود ہیں ،آپ فرماتے ہیں:۔


"صدر اول سے آج تک ہر صدی کے آخر یا اول میں مجددین ہوتے ہیں،ملوک اسلام نے مساجد ،مدارس ،رباطات ،قناطیر اور طرق وغیرہ مراسم اسلام کی ےجدید کی ۔علماء نے ایمان کی تجدید کی ،بدعات مذہب کو دور کیااور شرک وکفر کے مٹانے میں سعی وافر بجا لائے ،مشائخ صوفیہ نے بدعات احسان کو مٹایا ،سلوک صافی کو رواج دیااور بعض نے یہ سب کام کئے بارہویں صدی کے اول میں سید احمد بریلوی اور انکے خلفاء مجددین ہوئے ۔"(ابقاء المنن بالقاء لمحن ص148)
مزید فرماتے ہیں:
"مجھے معلوم ہے کہ حق ان مذاہب اربعہ میں دائر ہے ،مگر منحصر نہیں ،اسلئے کہ اہلحدیث،ظاہریہ، اور صوفیہ بھی حق پر ہیں"(ایضاًص87)
نواب سید صدیق حسن خانؒ نہ صرف خود صوفی تھے ۔بلکہ آپکا تمام خاندان تصوف و طریقت سے وابستہ تھا،آپ فرماتے ہیں:۔
" اگر چہ میں صوفیاء کے تمام طرق کو موصل الی اللہ سمجھتا ہوں ،اور جملہ طرق کے مشائخ کو مانتا ہوں ،لیکن میرے آبا ؤ اجداد ،استاتذہ، اور مشائخ کا طریقہ نقشبندیہ ہے گو اور طرق کی بھی اجازت حاصل تھی ‘‘
مزید فرماتے ہیں:۔"میں سلوک سبیل علم میں اپنے باپ ،انکے مشائخ اور اپنے مشائخ اور اپنے شیوخ علم کے طریقہ پر چل رہا ہوں"(ایضاً)
فرزندانِ سید نواب صدیق حسن خانؒ اور بیعت وارادت۔ تذکرہ فضلِ رحمن گنج مراد آبادیؒ میں مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ لکھتے ہیں:۔
’’رضی الدولہ نواب سید نور الحسن خان (فرزند اکبر امیر الملک والاہ جاہ نواب سید صدیق حسن خان رئیس بھوپال) حضرت مولانا(فضل رحمن گنج مراد آبادی ؒ ) سے بیعت تھے،حضرت مولاناؒ کا ایسا عشق صادق دیکھنے میں نہیں آیا،انکو ہرایسے واقعہ اور ایسے جزئیہ کی تلاش رہتی تھی جسکا مولانا ؒ سے دور کا بھی تعلق ہو،خود بڑے ذوق وشوق حسن عقیدت سے رسائل لکھے اور چھپوائے۔(ص۱۳)فرزند اصغر نواب علی حسن خان بھی حضرت مولانا ؒ مرید تھے ،’’سفر سعادت‘‘ کے عنوان سے تذکرہ فضل الرحمن گنج مراآبادی میں تفصیلی ذکر موجود ہے ، نواب صدیق حسن خان ؒ نے خود نواب علی حسن خان کو حضرت مولانا ؒ کی خدمت میں بھیجا تھا۔میں عنوان کی نسبت صرف بیعت کا یہاں بیعت کا ذکر کئے دیتا ہوں ،نواب علی حسن خان مرحوم فرما ہیں :۔“چوتھی جمادی الثانی ۱۳۰۵ھ کو گنج مرادآباد سے روانہ ہوا،جمعہ کے دن مغرب کے وقت وہاں پہنچ کر حضرت مرشدنا مولانا فضل الرحمن کی خدمت اقدس میں باریاب ہوا۔۔۔۔۔صبح کو نماز فجر کے بعد پھر مجھکو حضرت ؒ کے دیدار فائض الانوار سے مستفیض ہونے کا موقع ملا ،اور میں نے انکے دست شریعت وطریقت پناہ پر طریقہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت کی،قریباًنصف ساعت سے زائد حضرت مراقب رہ کر مجھکو اپنی باطنی توجہ اور ہمت باطنی سے مستفید فرماتے رہے،اسکے بعد سر اٹھاکر اپنی زبان فیض ترجمان سے بیتابانہ عشق کے لہجے میں فرمانے لگے،اپنی باطنی توجہ اور ہمت باطنی سے مستفید فرماتے رہے،اسکے بعد سر اٹھاکر اپنی زبان فیض ترجمان سے بیتابانہ عشق کے لہجے میں فرمانے لگے،’’امنے پیا پر من واروں جو واروں سو تھوڑا رہے‘‘ اس وقت برق وروح کے اتصال اور جذبات و تجلیات کے باہمی امتزاج سے میرے دل پر جو ایک سرور والہانہ ووجدانی کفیت طاری تھی ،اسکو لفظوں میں ادا کرنا میرے لئے قطعاً ناممکن ہے۔
لطیفہا کہ بہ لفظددیباں نمی گنجد تو چوں فرشتہ زغیب آمدی ودافتگی
خود نواب صدیق حسن خانؒ نے بھی "ابقا المنن بالقاء المحن" میں فرماتے ہیں:۔
"مولانا فضل الرحمن 1208ھ تا1313ھ بارک اللہ فی حیاتہم بھی بارہاقنوج میں تشریف لاکر جامع مسجد میں ٹھہرتے تھے،اور میرے گھر بھی آتے جاتے تھے ،ہم دونوں بھائیوں سے بہت محبت کرتے تھے،اور والد علیہ الرحمۃ کی قبر پر بھی جایا کرتے تھے ،آج کل مولانا صاحب کی شخصیت قناعت اور زید تقوی کے اعتبار سے یادگار روزگار ہے،میرے بڑے فرزند نورالحسن خان کو ان سے بہت زیادہ انس اور عقیدت ہے"(ص45)
والد گرامی نواب صدیق حسن خان اور بیعت و ارادت :۔نواب صدیق حسن خانؒ اپنے والد وماجد کے بارے میں فرماتے ہیں:
"وكانت بيعته على يد السيد ألعارف أحمد البريلوي ،یعنی انهوں نے سیداحمد شہید بریلوی رحمہ الله سے بیعت کی تهی ۰
آگے فرمایا کہ ، فبلغ عد د من باع على يده الشريفة واهتدوا بهديه عش۔۔رة آلاف انس۔۔ان تقريبا ، یعنی آپ(نواب صاحب کے والد) کے ہاتھ شریف پرتقریبا دس ہزار انسانوں نے بیعت کیا اورآپ کی راہنمائی وطریقہ سے ہدایت پائی "(ألتاج المكلل ص 298،مطبوعة مكتبه دارالسلام)
نواب صدیق حسن خان ؒ کے تعلق تصوف واحسان کا تفصیلی تذکرہ "اکابرین اہل حدیث کا احسان وسلوک" میں رقم الحروف نے تفصیلی لکھا ہے ۔جس کو انقریب پیش بھی کر دیا جائے گا۔

سید نذیر حسین دہلویؒ کے شاگردوں میں بہت ہی شہرت کے حامل خاندان غزنویہ کے جد امجد سید عبد اللہ غزنویؒ ہے ،اپنے اس زمانے امرتسر میں مدرسہ قائم کیا ،آپکا مدرسہ شریعت و طریقت کا جامع تھا،مولانا اسحاق بھٹی صاحب فرماتے ہیں:۔
کاروانِ سلف میں بھٹی صاحب لکھتے ہیں:
’’ جس زمانے میں امرتسر شہر میں غزنوی خاندان کے علماء اکرام فروکش تھے،انکا حلقہ ارادت اور دائرہ عقیدت دود دور تک پھیلا ہوا تھا،انکے درس وتدریس کی مسندیں آراستہ تھیں،اور بیعت و ارشاد کے روح پرور سلسلے جاری تھے۔بے شمار لوگ ان سے استفادہ کرتے ،اور انکے طریق عمل اور نہج حیات سے مستفید ہوتے تھے (ص۷۱)
اس وقت یہ مدرسہ تقوۃ الایمان کے نام سے قائم ہے۔سید جنید غزنوی اس مدرسہ کے متمہم ہیں ،منکرین تصوف سے نالاں ہیں ۔
اس خا ندان کی تصوف وا حسان پر کتب موجود ہیں۔سید عبد اللہ غزنوی ؒ کا یہ مقام تھا کہ سید نذیر حسین دہلویؒ فرما یا کرتے تھے۔
’’مولوی عبد اللہ نے حدیث ہم سے پڑھ گیا اور نماز پڑھنی ہمیں سیکھا گیا‘‘(حضرت مولانا داؤد غزنویؒ ص۱۴
سید نذیر حسین دہلوی ؒ کے شاگردوں میں ایک بڑی شخصیت مولانا محی الدین ؒلکھوی گزرے ہیں۔آپ نے کابل جا کر سید عبد اللہ غزنویؒ کے دست اقدس پر بیعت کی اور منازل سلوک طے کئے،جامعہ محمدیہ کے نام سے لکھوکے میں مدرسہ قائم کیا۔آپکے والد حافظ محمد ؒ بہت بڑے صوفی تھے ،نقشبندیہ سلسلہ سے تعلق تھا۔
مولانا غلام رسول قلعوی ؒ علم حدیث میں سید نذیر حسین ؒ کے شاگرد تھے اور کو ٹھا کلاں میں بیعت تھے ،سید عبد اللہ غزنویؒ سے استفادہ کیا، آپکا ایک مکتوب اس حوالہ ے درج کر دیتا ہوں:۔
ایک مکتوب میں فرماتے ہیں :
"ہمیشہ دوچیزوں کا حصول ضروری اور لازمی ہے ،ایک کتاب وسنت کا ادراک رکھنے کی علمی پونجی،جو دینی علوم کا سر چشمہ اور معنوی علوم کا خلاصہ ہے،دونوں چیزیں شمع کا درجہ رکھتی ہیں ،جن کو دائیں اور بائیں (طرف) رکھ کر راستہ طے کیا جا سکتا ہے ۔
دوسری چیز شرع حضرات صوفیاء کا طریقہ ہے ،جو کام کی اصل ،اسلام کی اساس اور ذوق ووجد کی مورث ہے ۔وہ جسم شریعت کے لئے جان کو درجہ رکھتی ہے،اور صورت اسلام کی حقیقت اور روح ہے۔
اسی مکتوب کے آخری حصہ میں فرماتے ہیں:
ملتان میں مولوی عبید اللہ کے فرزند مولوی عبد الرحٰمن اچھے عالم ہیں ،ریاضی اور حدیث کے علوم کی تعلیم اچھی طرح دیتے ہیں ۔دہلی میں مولانا نذیر حسین علوم دینیہ پڑھانے میں مہارت رکھتے ہیں ،وہیں مولوی سدید الدین لکھوی علوم عقلیہ میں بے حد کامل موجود ہیں۔باطنی علوم کے لئے صاحبزادہ رکن عالم اور جناب (سید) عبد اللہ صاحب غزنویؒ کا سلسلہ ہے(تذکرہ مولانا غلام رسول قلعویؒ340،341)
مدرسہ آرہ:۔ مولانا ابرہیم آروی ؒ بھی سید نذیر حسین دہلوی ؒ کے شاگر د اور اور علم سلوک میں خاندان غزنویہ سے مستفیدتھے۔
اسی طرح مولنا محمد ابرہیم میر سیالکوٹی ؒ نے تصوف احسان کے موضوع پر "سراجا مینرا" تصنیف فرمائئ،آپکے الفاظ منکرین تصوف کے لئے کافی وشافی ہیں:۔
یہ ذرہ بے مقدار (بد نام کنندۂ نکو نامے چند) متبع سنت ہو کر اہل طریقت سے بھی عقیدت و محبت رکھتا ہے۔ ان دونوں فریقوں کی نزاع کو یوں مٹانا چاہتا ہے کہ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہمارے پاس آنحضرت ﷺ کی تبلیغ صرف قرآن و حدیث کی صورت میں ہے اور ان ہر دو سے باہر ہم کسی چیز کو آنحضرتﷺ کی طرح منسوب نہیں کرسکتے۔
کیونکہ جب ہر دو منجانب اللہ ہیں اور ہر دو اللہ کے پاس پہنچنے کی سبلییں ہیں تو ان میں مخالفت کیوں ہو گی ؟ اگر کسی کو نظر آتی ہے تو ہر دو (اہل شریعت و اہل طریقت) میں سے کسی طرف کی غلط فہمی ہے اگر ہر دومقام صحت پر کھڑے ہوں تو دونوں مخالف نہیں ہو سکتی لیکن یہ کہنا یا سمجھنا کہ ایک سینہ سے دوسرے سینہ سے سینہ میں بغیر حرفوں کی تعلیم کے کچھ آ نہیں سکتا۔ یہ خشکی اور بے ذوقی ہے
قدر ایں بادہ ندانی بخدا تا نچشی
کا معاملہ ہے کیونکہ کیفیات و وجدانیات کا احساس صاحب کیفیت اور صاحب وجدان کے سوا کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا اور یہ وہ حقیقت ہے جو الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی۔(سراجامنیراً)
اسی طرح مسلک اہل حدیث کے مشہور عالم مولانا ثنا ء اللہ امرتسریؒ نے تصوف کے اثبات میں " شریعت وطریقت تصنیف فرمائی۔

مولانا عبد اللہ روپڑی ؒ اور حافظ عبد المنانؒ ، صوفی عبد اللہ ماموں کانجن پور،اور خاندان سوہدری ان تمام حضرات کی تصنیفات انکی تصنیفات اور تاریخی احوال انکے صوفی ہونے پر گواہ ہیں ،مسلک ااہل حدیث کے تعلق تصوف و احسان سے کوئی عقل و علم کا اندھا ہی انکار کر سکتا ہے۔

اس مسلک میں جو تصوف سے انکار کی جو رویت نظرہے اس کے پیچھے جہالت ،ضد۔تعصب اور درہم ودینار کا چکر ہے ۔ بحمد تعا لی ٰ تاریخی اعتبار سے بھی ثابت ہو گیا کہ مسلک اہل حدیث صوفیوں کا مسلک ہے۔اور جو لوگ منکرین تصوف ہیں وہ حقیقت میں مسلک اہل حدیث کے ترجمان نہیں ۔مسلک اہل حدیث کو نہ ماضی میں تصوف و احسان سے کوئی اختلاف تھا اور نہ آج۔بلکہ یہ مسلک اہل حدیث تصوف و احسان کا مدعی ہے ،جیسا کہ درج بالا مضمون سے ظاہر ہو چکا ہے
مزید جاننے کے لئے درج ذیل مضامین کا مطالعہ فرمائیں۔

سید نذیر حسین دہلوی اؒور احسان و سلوک
مسلک اہل حدیث اور تصوف و احسان
مسلک اہل حدیث اور بیعت و ارادت
اور آخر میں یہ شعر منکرین تصوف( جو اپنا مسلک اہل حدیث ظاہر کر کے دجل سے کام رہے )نام کرتا ہوں

اندھیری شب ہے جدا اپنے کافلے سے تو
تری لئے ہے میری شعلہ نوا فندیل
و السلام

 
Top