یہ توقع پہلے ہی سے کی جا رہی تھی کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان پر حکومت کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہونے کے منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ کچھ لوگ اس تنظیم کی مہمند شاخ کے تازہ بیان کو اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
تنظیم کی مہمند شاخ خاصے عرصے سے متحرک ہے۔ مہمند شاخ کے اس بیان کو کہ وہ مذاکرات کا حصہ بننے یا نہ بننے کے بابت غور کر رہی ہے، بعض لوگ ٹی ٹی پی کا اندرونی اختلاف سمجھ رہے ہیں۔
ایف سی کے 23 سپاہیوں کی ہلاکت کی خبر جاری کرنے کے لیے تحریکِ طالبان مہمند کے ترجمان احسان اللہ احسان کے ہمراہ ایک رہنما عمر خراسانی پہلی مرتبہ دکھائی دیے۔ یہ عمر شاخ کے امیر عمر خالد خراسانی کے قریبی ساتھی بتائے جاتے ہیں۔
پشتو زبان میں بیان کا پہلا حصہ فوجیوں کو ہلاک کرنے سے متعلق تھا لیکن دوسرا حصہ اپنی شوریٰ کے اجلاس سے متعلق تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ فیصلہ کریں گے کہ ان کی شاخ حکومت کے ساتھ مذاکرات کا حصہ بنے یا نہیں۔
عمر خراسانی نے کہا کہ ’اب ہمارے امیر محترم عمر خالد خراسانی کے سربراہی میں شوریٰ کا اجلاس جاری ہے جس میں مذاکراتی عمل کا حصہ بننے یا نہ بننے سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔ اجلاس کے فیصلے کے بعد ہم اپنا موقف جاری کریں گے۔‘
یہ واضح نہیں کہ اس بیان سے مراد بحیثیت مجموعی ٹی ٹی پی کا موقف بیان کر رہے ہیں یا محض مہمند شاخ کا۔ اگر یہ مہمند شاخ کا موقف ہے تو پھر وہ مذاکرات میں شمولیت پر سو فیصد اب بھی راضی نہیں۔
اسی گروپ کے سربراہ خالد خراسانی نے گذشتہ برس 27 ستمبر کو جاری ایک بیان میں واضح کیا تھا کہ وہ کسی صورت آئین پاکستان کے اندر رہتے ہوئے حکومت سے مذاکرات کے حامی نہیں ہیں۔ بلکہ انہوں نے تو اپنے ان ساتھیوں کے خلاف بھی اعلان جنگ کیا جو اس آئین کے تحت حکومت سے مذاکرات کریں گے۔
ان کا اصرار تھا کہ وہ نفاذِ شریعت کے لیے سرگرم رہیں گےحالانکہ شریعت کے خاطر لڑنے مرنے کی بات مرکزی ٹی ٹی پی کی مرکزی قیادت بھی کرتی رہی ہے۔
"
پاکستان میں جتنی بھی خلافت کے قیام کی سوچ ہے خصوصا شدت پسندوں کے درمیان اس کا مرکز مہمند اور باجوڑ کے علاقوں میں ہی رہا ہے۔"
تجزیہ کار عامر رانا
تجزیہ کار عامر رانا کہتے ہیں کہ اس قسم کی عارضی اختلافات ماضی میں بھی سامنے آتے رہے ہیں لیکن بعد میں دوبارہ یہ گروپ متحد ہوگئے تھے۔
مہند شاخ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس پر القاعدہ اور غیرملکی جنگجوؤں کا اثر کافی زیادہ ہے: ’پاکستان میں جتنی بھی خلافت کے قیام کی سوچ ہے خصوصا شدت پسندوں کے درمیان، اس کا مرکز مہمند اور باجوڑ کے علاقوں میں ہی رہا ہے۔‘
تحریکِ طالبان مہمند عرصے سے سیاسی اور عسکری محاذوں پر بہت متحرک نظر آ رہی تھی۔ ان کے بقول کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں ان کے ساتھی سکیورٹی اداوں کے ہاتھوں پکڑے یا مارے جا رہے ہیں۔ کئی حملوں کی ذمےداری بھی پہلے مہمند ایجنسی کے طالبان کی جانب سے آتی ہے اور بعد میں شاہد اللہ شاہد کی طرف سے۔
یہ صورتِ حال اس لیے بھی حیران کن ہے کہ سکیورٹی فورسز نے مہمند ایجنسی کو بہت عرصہ قبل ’شدت پسند سے پاک‘ قرار دے دیا تھا۔ ایسے میں اس علاقے میں اتنا متحرک گروپ اس فوجی کارروائی کی افادیت پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/02/140217_split_in_ttp_rk.shtml
تنظیم کی مہمند شاخ خاصے عرصے سے متحرک ہے۔ مہمند شاخ کے اس بیان کو کہ وہ مذاکرات کا حصہ بننے یا نہ بننے کے بابت غور کر رہی ہے، بعض لوگ ٹی ٹی پی کا اندرونی اختلاف سمجھ رہے ہیں۔
ایف سی کے 23 سپاہیوں کی ہلاکت کی خبر جاری کرنے کے لیے تحریکِ طالبان مہمند کے ترجمان احسان اللہ احسان کے ہمراہ ایک رہنما عمر خراسانی پہلی مرتبہ دکھائی دیے۔ یہ عمر شاخ کے امیر عمر خالد خراسانی کے قریبی ساتھی بتائے جاتے ہیں۔
پشتو زبان میں بیان کا پہلا حصہ فوجیوں کو ہلاک کرنے سے متعلق تھا لیکن دوسرا حصہ اپنی شوریٰ کے اجلاس سے متعلق تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ فیصلہ کریں گے کہ ان کی شاخ حکومت کے ساتھ مذاکرات کا حصہ بنے یا نہیں۔
عمر خراسانی نے کہا کہ ’اب ہمارے امیر محترم عمر خالد خراسانی کے سربراہی میں شوریٰ کا اجلاس جاری ہے جس میں مذاکراتی عمل کا حصہ بننے یا نہ بننے سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔ اجلاس کے فیصلے کے بعد ہم اپنا موقف جاری کریں گے۔‘
یہ واضح نہیں کہ اس بیان سے مراد بحیثیت مجموعی ٹی ٹی پی کا موقف بیان کر رہے ہیں یا محض مہمند شاخ کا۔ اگر یہ مہمند شاخ کا موقف ہے تو پھر وہ مذاکرات میں شمولیت پر سو فیصد اب بھی راضی نہیں۔
اسی گروپ کے سربراہ خالد خراسانی نے گذشتہ برس 27 ستمبر کو جاری ایک بیان میں واضح کیا تھا کہ وہ کسی صورت آئین پاکستان کے اندر رہتے ہوئے حکومت سے مذاکرات کے حامی نہیں ہیں۔ بلکہ انہوں نے تو اپنے ان ساتھیوں کے خلاف بھی اعلان جنگ کیا جو اس آئین کے تحت حکومت سے مذاکرات کریں گے۔
ان کا اصرار تھا کہ وہ نفاذِ شریعت کے لیے سرگرم رہیں گےحالانکہ شریعت کے خاطر لڑنے مرنے کی بات مرکزی ٹی ٹی پی کی مرکزی قیادت بھی کرتی رہی ہے۔
"
پاکستان میں جتنی بھی خلافت کے قیام کی سوچ ہے خصوصا شدت پسندوں کے درمیان اس کا مرکز مہمند اور باجوڑ کے علاقوں میں ہی رہا ہے۔"
تجزیہ کار عامر رانا
تجزیہ کار عامر رانا کہتے ہیں کہ اس قسم کی عارضی اختلافات ماضی میں بھی سامنے آتے رہے ہیں لیکن بعد میں دوبارہ یہ گروپ متحد ہوگئے تھے۔
مہند شاخ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس پر القاعدہ اور غیرملکی جنگجوؤں کا اثر کافی زیادہ ہے: ’پاکستان میں جتنی بھی خلافت کے قیام کی سوچ ہے خصوصا شدت پسندوں کے درمیان، اس کا مرکز مہمند اور باجوڑ کے علاقوں میں ہی رہا ہے۔‘
تحریکِ طالبان مہمند عرصے سے سیاسی اور عسکری محاذوں پر بہت متحرک نظر آ رہی تھی۔ ان کے بقول کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں ان کے ساتھی سکیورٹی اداوں کے ہاتھوں پکڑے یا مارے جا رہے ہیں۔ کئی حملوں کی ذمےداری بھی پہلے مہمند ایجنسی کے طالبان کی جانب سے آتی ہے اور بعد میں شاہد اللہ شاہد کی طرف سے۔
یہ صورتِ حال اس لیے بھی حیران کن ہے کہ سکیورٹی فورسز نے مہمند ایجنسی کو بہت عرصہ قبل ’شدت پسند سے پاک‘ قرار دے دیا تھا۔ ایسے میں اس علاقے میں اتنا متحرک گروپ اس فوجی کارروائی کی افادیت پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/02/140217_split_in_ttp_rk.shtml