کیا شکوہ کریں اپنی اس زندگی سے

ظفری

لائبریرین
کیا شکوہ کریں اپنی اس زندگی سے
بہت کچھ ملا ہے بس تھوڑی کمی سے

اندھیروں میں تھا تو جل رہا تھا میں
بُجھ گیا ہوں بس ایک روشنی سے

دشت بھی مانگتا ہے چاند کی روشنی
ڈر گیا ہوں میں بھی اپنی تنہائی سے

مان لی ہار میں نے ہاتھ کی لکیروں سے
چُوڑیاں اُس نے بھی توڑیں اپنی کلائی سے

اُس نے پُکارا مجھے کچھ اس طرح سے ظفر
اُبھر پڑا ہوں پھر میں کسی گہرائی سے
 

ماوراء

محفلین
بہت اچھی غزل ہے۔ :khoobsurat:

کیا شکوہ کریں اپنی اس زندگی سے
بہت کچھ ملا ہے بس تھوڑی کمی سے

اندھیروں میں تھا تو جل رہا تھا میں
بُجھ گیا ہوں بس ایک روشنی سے

بہت خوب!
 
Top