کاشفی

محفلین
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل

کیا جھیل، جھرنے، سا گر، دریا نہیں جہاں میں
سیراب پھر بھی کوئی دیکھا نہیں جہاں میں

دعوے سنو تو کوئی جھوٹا نہیں جہاں میں
سچ یہ مگر ہے، کوئی سچا نہیں جہاں میں

پیچھے ہے کیا کسی کے اور دل میں کیا چھپا ہے
جو یہ بتا دے ایسا شیشا نہیں جہاں میں

خود غرضیوں کی کھیتی ہوتی جہاں نہیں ہو
خطہ کہیں کوئی کیا ایسا نہیں جہاں میں

ہرسو فساد برپا، ہر سمت بے حیائی
شیطان تیرے دم سے کیا کیا نہیں جہاں میں

انساں کا کام تھا یہ صحرا کا شکوہ سنتا
خالق نے کیا بہائے دریا نہیں جہاں میں

سوچو تو غیر کوئی جاوید کب زمیں پر
ڈھونڈھو اگر تو کوئی اپنا نہیں جہاں میں
 
Top