کیا اسلام اور سائنس میں تضاد ہے

کیا اسلام اور سائنس میں تضاد ہے​

سائنس لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی 'جاننا '' کے ہیں۔ پروفیسر کے لنگسردکے مطابق سائنس نظام فطرت کے علم کا نام ہے جو مشاہدہ، تجربہ اور عقل سے حاصل ہوتاہے۔ علم کے جس شعبے کو ہم سائنس کہتے ہیں اس کا دوسرا نام علم کائنا ت ہے جس میں انسان کا علم بھی شامل ہے۔سائنس دان کائنات کے مشاہدے سے کچھ نتائج اخذکرتاہے۔ ہر درست سائنسی نتیجے کو ہم مستقل علمی حقیقت یا قانون قدرت سمجھتے ہیں۔ مشاہدے اورتجربے سے دریافت ہونے والے علمی حقائق کو جب مرتب اور منظم کرلیا جاتاہے تو اسے ہم سائنس کہتے ہیں۔ (1)

قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ انسانوں کو دعوت دیتاہے کہ وہ آسمانوں ،زمین ،پہاڑوں ، ستاروں، پودوں ،بیجوں ،جانوروں ،رات اور دن کے ادل بدل ،تخلیق انسانی ،بارشوں اوربہت سی دیگر مخلوقات پر غوروفکر اور تحقیق کریں تاکہ وہ اپنے گردوپیش میں پھیلے ہوئے کمال ہنر مندی کے گوناگوں نمونے دیکھ کر اس احسن الخالقین کو پہچان سکیں جو اس ساری کائنات اور اس کے اندر موجود تمام اشیا ء کو عدم سے وجود میں لایا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(وَکَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْھَا وَھُمْ عَنْھَا مُعْرِضُوْنَ)
''آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں اور ان کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے ''۔ (2)

نیز فرمایا:

( اِنَّ فِیْ خَلْقِ السّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِوَالْفُلْکِ الَّتَیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ مَّآئٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَمَوْتِھَا وَبَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَّةٍ ص وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ)

'' جو لوگ سوچتے سمجھتے ہیں ان کے لیے آسمانوں اورزمین کی پیدائش میں ،رات اوردن کے ایک دوسرے کے بعد آنے میں ،ان کشتیوں میں جو لوگوں کو نفع دینے والی چیزیں لیے سمند ر وں میں چلتی ہیں ،اللہ تعالیٰ کے آسمان سے بارش نازل کرنے میں جس سے وہ مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے اور اس میں ہر طرح کی جاندار مخلوق کو پھیلا دیتاہے نیز ہواؤں کی گردش میں اوران بادلوں میں جو زمین وآسمان کے درمیان تابع فرمان ہیں بے شمار نشانیاں ہیں۔(3)

ایک جگہ فرمایا:

( لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ)
''آسمانوں اور زمین کا پیداکرنا انسانوں کوپیدا کرنے کی بہ نسبت یقینا زیادہ بڑا کام ہے ،مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ''۔ (4)

امام ابن کثیر ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

''بنی اسرائیل کے عابدوںمیں سے ایک نے اپنی تیس سال کی مدتِ عبادت پوری کرلی تھی مگر جس طرح اور عابدوں پر تیس سال کی عبادت کے بعد ابر کا سایہ ہو جایاکرتاتھا اس پر نہ ہو اتو اس نے اپنی والدہ سے یہ حال بیان کیا۔ اس نے کہا بیٹے تم نے اپنی اس عبادت کے زمانہ میں کوئی گناہ کر لیاہو گا، اس نے کہا اماں ایک بھی نہیں۔ کہا پھر کسی گناہ کا پور اقصد کیا ہو گا۔ جواب دیا کہ ایسا بھی مطلقاً نہیں ہوا۔ ماں نے کہا بہت ممکن ہے کہ تم نے آسمان کی طرف نظر کی ہو اور غوروتدبر کے بغیر ہی ہٹا لی ہو۔ عابد نے کہا کہ ایساتو برابر ہوتارہا۔ فرمایا بس یہی سبب ہے۔ (5)

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لوگوں کو علم حاصل کرنے کا حکم دیا اور بڑی تاکید سے فرمایا کہ علم کا حصول ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے۔

علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ (6) نیز علم حاصل کرو اور دوسروں کو سکھاؤ۔(7)

قرآن مجید میں ایک مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(( اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰوءُ ا))
'' اللہ تعالیٰ سے ،اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ''( فاطر : 28 (

یہاں ایک اہم واقعہ کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتاہے جس کے راوی علامہ عنایت اللہ مشرقی ہیں ۔ یہ واقعہ ان کے ساتھ اس وقت پیش آیا جب وہ برطانیہ میں زیر تعلیم تھے ۔

'' 1909ء کا ذکر ہے ،اتوار کا دن تھا اورزور کی بارش ہورہی تھی ۔میں کسی کا م سے باہر نکلا تو جامعہ کیمبرج کے مشہور ماہر فلکیات سر جیمز جینس ( James Jeans )بغل میں انجیل دبائے چرچ کی طرف جارہے تھے ۔میں نے قریب ہو کر سلام کیا تو وہ متوجہ ہوئے اورکہنے لگے : کیا چاہتے ہو؟میں نے کہا '' دوباتیں ،اوّل یہ کہ زور سے بارش ہو رہی ہے اور آپ نے چھاتہ بغل میں داب رکھا ہے '' ۔سر جیمز اپنی بد حواسی پر مسکرائے اور چھاتہ تان لیا ۔ دوم یہ کہ آپ جیسا شہرہ آفاق آدمی گرجا میں عبادت کے لیے جارہا ہے؟میر ے اس سوال پر جیمز لمحہ بھر کے لیے رک گئے اور پھر میر ی طرف متوجہ ہو کر فرمایا ،'' آج شام میرے ساتھ چائے پیٔو''!

چناچہ میں شام کو ان کی رہائش گاہ پر پہنچا ۔ٹھیک چار بجے لیڈی جیمزنے باہر آکر کہا : ''سر جیمز تمہارے منتظر ہیں''۔ اندر گیا تو ایک چھوٹی سی میز پر چائے لگی ہوئی تھی ،پروفیسر صاحب تصوّرات مین کھوئے ہوئے تھے ۔کہنے لگے ،''تمہارا سوال کیا تھا''؟اور میرے جواب کا انتظار کئے بغیراجرام آسمانی کی تخلیق ،ان کے حیرت انگیز نظام ،بے انتہا پہنائیوں اور فاصلوں ،ان کی پیچیدہ راہوں اور مداروں نیز باہمی روابط اور طوفان ہائے نورپر وہ ایمان افروز تفصیلات پیش کیں کہ میرا دل اللہ کی اس کبریائی وجبروت پردہلنے لگا اور ان کی اپنی کیفیت تھی کہ سر بال سیدھے اُٹھے ہوئے تھے ۔آنکھوں سے حیرت وخشیت کی دوگونہ کیفیتیں عیاں تھیں،اللہ کی حکمت و دانش کی ہیبت سے ا ن کے ہاتھ قدرے کانپ رہے تھے اور آواز لرز رہی تھی ۔فرمانے لگے ،''عنائت اللہ خاں، جب میں اللہ کے تخلیقی کارناموں پر نظر ڈالتا ہوں تو میری تمام ہستی اللہ کے جلا ل سے لرز نے لگتی ہے اورجب میں کلیسامیں اللہ کے سامنے سرنگوں ہوکر کہتا ہوں ''تو بہت بڑا ہے ''تو میری ہستی کا ہر ذرّہ میرا ہم نوا بن جاتاہے ،مجھے بے حد سکون.... .....اورخوشی نصیب ہوتی ہے ۔مجھے دوسروںکی نسبت عبادت میں ہزار گنا زیادہ کیف ملتا ہے ،کہو عنائت اللہ خاں!تمہاری سمجھ میں آیا کہ میں کیوں گرجے جاتاہوں ''؟

علامہ مشرقی کہتے ہیں کہ پروفیسر جیمز کی اس تقریر نے میرے دماغ میں عجیب کہرام پیدا کر دیا ۔میں نے کہا ''جناب والا! میں آپ کی روح پرور تفصیلات سے بے حد متاثر ہوا ہوں۔ اس سلسلہ میں قرآن مجید کی ایک آیت یاد آگئی ہے ،اگر اجازت ہو تو پیش کروں'' ؟فرمایا ''ضرور''! چناچہ میں نے یہ آیت پڑھی:

(( ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدام بِیْض وَّ حُمْر مُّخْتَلِف اَلْوَانُھَا وَغَرَابِیْبُ سُوْد ھ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَّآبِ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِف اَلْوَانُہ کَذٰلِکَ ط اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰوءُ ا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ط ))
'' اور پہاڑوںمیں سفیداور سرخ رنگوں کے قطعات ہیں اوربعض کالے سیاہ ہیں،انسانوں ،جانوروںاور چارپایوں کے بھی کئی طرح کے رنگ ہیں۔اللہ سے تو اس کے بندوںمیں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں''۔ (فاطر : 27-28

یہ سنتے ہی پروفیسر جیمز بولے:
کیا کہا؟اللہ سے صرف اہل علم ڈرتے ہیں؟حیرت انگیز ،بہت عجیب ۔یہ بات جو مجھے پچاس برس مسلسل مطالعہ اورمشاہد ہ کے بعد معلوم ہوئی ،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کس نے بتائی ؟کیا قرآن مجید میں واقعی یہ آیت موجود ہے ؟اگر ہے تو میری شہادت لکھ لو کہ قرآن ایک الہامی کتاب ہے ۔محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)اَن پڑھ تھے،انہیں یہ عظیم حقیقت خود بخود معلوم نہ ہو سکتی تھی ،یقینا اللہ تعالیٰ نے انہیں بتائی تھی ۔بہت خوب،بہت عجیب! (چنانچہ سائنس ہمیں اس کائنات اور دیگر موجودات کے مطالعے کا ایک طریقہ بتاتی ہے۔ اس سے ہمیں مخلوق کے وجود کی رعنائیوں اور خالق کی حکمت بالغہ کا شعور ملتاہے۔ لہٰذا اسلام سائنس کی حوصلہ افزائی کرتاہے کیونکہ ہم اس کے ذریعے تخلیقاتِ خداوندی کی لطافتوں اور نزاکتوں کا بہتر مطالعہ کرسکتے ہیں۔
اسلام مطالعہ اورسائنس کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتاہے بلکہ اس امر کی بھی اجازت دیتاہے کہ اگرہم چاہیں تو اپنے تحقیقی کام کو نتیجہ خیزبنانے کے لیے دین کے بیان کردہ حقائق سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔ اس سے ٹھوس نتائج برآمد ہونے کے ساتھ ساتھ منز ل بھی جلد قریب آجائے گی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ دین وہ واحد ذریعہ ہے جو زندگی اورکائنات کے ظہورمیں آنے سے متعلق سوالات کا صحیح اور متعین جواب فراہم کرتاہے۔ اگر تحقیق صحیح بنیادوں پر استوار ہو تو وہ کائنات کی ابتداء ، مقصدزندگی اور نظام زندگی کے بارے میں مختصر ترین وقت میں کم سے کم قوت کو بروئے کار لا تے ہوئے بڑے حقائق تک پہنچا دے گی۔

آج سائنسی علم نے جو ترقی کی ہے اس نے انسان پر حیرت کے دروازے کھول دیے ہیں، جس چیز کے متعلق آج سے 50یا 100سال پہلے سوچنا بھی محال تھاوہ ممکن ہو چکی ہے۔ انسان زندگی کے ہر شعبہ میں سائنسی علم پر بھروسہ اوراس کو اپناتاچلاجا رہا ہے مگر سائنس کاایک نقصان دہ پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ بعض مسلمان بھی دین کے معاملے میں سائنس کو بہت زیادہ اہمیت دینے لگے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام اور سائنس میں تضاد ہے'دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے اور یہ کہ اسلام ایک قدیم مذہب ہے جو موجودہ زمانے کی ضروریات کو پور ا نہیں کر سکتا جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔۔مولانا مودودی بھی جدید سائنس کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :

'' قدیم زمانے میں لوگوں کے لیے آسمان وزمین کے رتق وفتق اور پانی سے ہر زندہ چیز کے پیداکیے جانے اور تاروں کے ایک ایک فلک میں تیرنے کا مفہوم کچھ اور تھا ' موجودہ زمانے میں طبیعیاتPhysics)،حیاتیات (Biology)،اور علم ہیئت (Astronomy) کی جدید معلومات نے ہمارے لیے ان کا مفہوم کچھ اور کر دیاہے اور نہیں کہہ سکتے کہ آگے چل کر انسان کو جو معلومات حاصل ہونی ہیں وہ ان الفاظ کے کن معانی پر روشنی ڈالیں گی''۔ (9)

فزکس کے مشہور نوبل انعام یافتہ سائنس دان ''البرٹ آئن سٹائن '' کے بقول سائنس مذہب کے بغیر لنگڑی ہے اور مذہب سائنس کے بغیر اندھاہے '' (10)۔اس کے معنی یہ ہیں کہ سائنس کو اگر مذہب کی روشنی اور رہنمائی حاصل نہ ہوتو وہ صحیح طورپر آگے کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتی۔ ایسا نہ کرنے سے یقینی نتائج کے حصول میں نہ صرف بہت سا وقت ضائع ہو جائے گا بلکہ ا س سے بڑھ کر یہ امکان بھی غالب ہے کہ تحقیق بالکل بے نتیجہ اور ناقص رہے گی اورماضی گواہ ہے کہ اکثر ایسا ہی ہوتارہا ہے۔ مادہ پرست سائنس دانوں نے ماضی میں جو طریقہ اختیار کیا بالخصوص پچھلے 200سال میں، وہ جو مساعی بروئے کار لاتے رہے اس میں بہت سا وقت ضائع ہوا۔ بہت سی تحقیق اکارت گئی او را س پر صرف ہونے والا لاکھوں کروڑوں ڈالرز کا سرمایہ ضائع ہو گیا۔ اس سے انسانیت کو کچھ بھی فائدہ حاصل نہ ہو سکا۔ اس لیے کہ ان کی تحقیق کی بنیاد غلط راستوں پر استوار تھی۔یہی چیز مذہب اور سائنس کے درمیان ٹکراؤ کا باعث بنی اوراہل مذہب سائنس سے متنفرہوئے۔
اس سے یہ بات واضح طو رپر سمجھ لینی چاہیے کہ سائنس صرف اسی صورت میں قابل اعتما د نتائج حاصل کرسکتی ہے جب اس کی تحقیق وتفتیش کا مدعا ومقصد کائنات کے رازوں اور اشاروں کو سمجھنا ہو۔اگر اس نے اپنے وقت اور وسائل کو ضائع ہونے سے بچاناہے تو اسے صحیح ہدایت کی روشنی میں صحیح راستے کا انتخاب کرناہو گا۔

یہ تصور کہ سائنس اور مذہب ایک دوسرے کے مخالف ہیں ،یہودیت اورعیسائیت کے زیر اثر ممالک میں بھی اسی طرح پھیلاہواہے جیساکہ اسلامی دنیامیں ہے ،خصوصیت سے سائنسی حلقوں میں اگر اس مسئلہ پر تفصیل سے بحث کی جائے تو طویل مباحث کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا۔مذہب اور سائنس کے مابین تعلق کسی ایک جگہ یا ایک وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہا ہے۔ یہ ایک امر واقعہ ہے کہ کسی توحید پرست مذہب میں کوئی ایسی تحریر نہیں ہے جو سائنس کو ردّ کرتی ہو۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں چرچ کے حکم کے مطابق سائنسی علوم کا حصول اور اس کی جستجو گناہ قرار پائی تھی۔ پادریوں نے عہد نامہ قدیم سے ایسی شہادتیں حاصل کیں جن میں لکھا ہوا تھا کہ وہ ممنوعہ درخت جس سے حضرت آدم نے پھل کھایا تھا وہ شجر علم تھا، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوا اور اپنی رحمت سے محروم کردیا۔

سائنسی علوم چرچ کے حکم سے مسترد کر دیے گئے اور ان کا حصو ل جرم قرار پایا۔زندہ جلا دئیے جانے کے ڈر سے بہت سے سائنس دان جلا وطنی پر مجبور ہوگئے یہاں تک کہ انہیں توبہ کرنا،اپنے رویہ کو تبدیل کرنا اور معافی کا خواستگار ہوناپڑا۔مشہور سائنس دان گلیلیو پر اس لیے مقدمہ چلا کہ اس نے اس نظریہ کومان لیا تھا جو زمین کی گردش کے بارے میں کوپر نیکس نے پیش کیاتھا۔ بائیبل کی ایک غلط تاویل کے نتیجہ میں گلیلیو کو سزا دی گئی۔(11)

مسلمان سائنس دانوں کے کارنامے​


یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ اسلام کی انتہائی ترقی کے زمانہ میں جو آٹھویں اور بارہویں صدی عیسوی کے درمیان کازمانہ ہے یعنی وہ زمانہ جب سائنسی ترقی پر عیسائی دنیا میں پابندیاں عائد تھیں 'اسلامی جامعات میں مطالعہ اور تحقیقات کا کام بڑے پیمانہ پر جاری تھا۔یہی وہ جامعا ت تھیں جنہوں نے عظیم مسلمان سائنس دانوں کو جنم دیا۔اس دور کے مسلم سائنس دانوں نے فلکیات ،ریاضی ،علم ہندسہ (جیومیڑی)اور طب وغیرہ کے شعبوں میں قابل قدر کارنامے انجام دیے۔ مسلمانوں نے یورپ میں بھی سائنسی علوم کی منتقلی میں اہم کردار ادا کیا اوراپنے ہاں بھی سائنس دانوں کی معقول تعداد پیداکی۔ اندلس(سپین)میں سائنسی علوم نے اتنی ترقی کی کہ اس ملک کو سائنسی ترقی اور انقلابی دریافتوں کی کٹھالی کہا جانے لگا 'بالخصوص میڈیسن کے شعبے میں اس نے بے پناہ شہرت حاصل کرلی۔

مسلمان طبیبوں نے کسی ایک شعبے میں تخصیص(Specialization)پر زور دینے کی بجائے متعدد شعبوں بشمول علم دواسازی'علم جراحت 'علم امراض چشم 'علم امراض نسواں 'علم عضویات 'علم جرثومیات اور علم حفظان صحت میں مہارت تامہ حاصل کرلی۔ اندلس کے حکیم ابن جلجول(992ء )کوجڑی بوٹیوں اورطبی ادویہ اور تاریخِ طب پر تصانیف کے باعث عالمی شہرت ملی۔اس دور کا ایک اورممتاز طبیب جعفرابن الجذر(1009ء )جوتیونس کارہنے والا تھا'اس نے خصوصی علاماتِ امراض پر 'تیس سے زیادہ کتابیں لکھیں۔عبداللطیف البغدادی (1231۔1162ء ) کو علم تشریح الاعضاء (ANATOMY)پر دسترس کی وجہ سے شہرت ملی۔ اس نے انسانی ہڈیوں کے بارے میں مروّجہ کتب میں پائی گئی غلطیوں کی بھی اصلاح کی۔ یہ غلطیا ں زیادہ تر جبڑے اور چھاتی کی ہڈیوں کے متعلق تھیں۔ بغدادی کی کتاب ''الافادہ والاعتبار'' 1788ء میں دوبارہ زیور طباعت سے مزین ہوئی اور اس کے لاطینی 'جرمن اور فرانسیسی زبانوں میں تراجم کرائے گئے۔اس کی کتاب''مقالات فی الحواس'' پانچوں حواس کی کارکردگی کے بارے میں تھی۔
مسلم ماہرین تشریح الاعضاء نے انسانی کھوپڑی میں موجود ہڈیوں کو بالکل صحیح شمار کیا اور کان میںتین چھوٹی چھوٹی ہڈیوں (میلس،انکس اور سٹیپز)کی موجودگی کی نشاندہی کی۔تشریح الاعضا کے شعبے میں تحقیق کرنے والے مسلمان سائنس دانوں میں سے ابن سینا (1037۔ 980ء )کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی جسے مغرب میں ''ایویسینا'' (AVICENNA)کہا جاتا ہے۔اسے ابتدائی عمر میں ہی ادب 'ریاضی' علم ہندسہ (جیومیٹری) طبیعیات ' فلسفہ اور منطق میں شہرت مل گئی تھی۔ نہ صرف مشرق بلکہ مغرب میں بھی ان علوم میں اس کی شہرت پہنچ گئی تھی۔ اس کی تصنیف ''القانون فی الطب''کو خصوصی شہرت ملی۔ (اسے مغرب میں کینن''CANON''کہا جاتا ہے)۔ یہ عربی میں لکھی گئی تھی۔ 12ویں صدی میں اس کا لاطینی زبان میں ترجمہ ہوا اور 17ویں صدی تک یورپ کے سکولوں میں بطور نصابی کتاب پڑھائی جاتی رہی۔ یہ امراض اور دواؤں کے بارے میں ایک جامع تصنیف ہے۔ اس کے علاوہ اس نے 100سے زیادہ کتابیں فلسفے اورنیچرل سائنسزپر لکھیں۔ اس کے علم کا بیشتر حصہ بشمول ''القانون فی الطب ''طبی معلومات پر مشتمل ہے جسے آج بھی ایک مسلمہ حیثیت حاصل ہے۔

زکریا قزوینی نے دل اور دماغ کے بارے میں ان گمراہ کن نظریات کو غلط ثابت کردیا جو ارسطو کے زمانے سے مروّج چلے آرہے تھے۔چنانچہ انہوں نے جسم کے ان دو اہم ترین اعضا کے بارے میں ایسے ٹھوس حقا ئق بیان کردئیے جو ان کے بارے میں آج کی معلومات سے نہایت قریب ہیں۔

زکریا قزوینی 'حمداللہ المستوفی القزوینی(1350۔1281ء)اور ابن النفیس نے جدید طب کی بنیاد رکھی۔ ان سائنس دانوں نے 13ویں اور14ویں صدیوں میں دل اور پھیپھڑوں کے درمیان گہرے تعلق کی نشاندہی کر دی تھی۔ وہ یوں کہ ''شریانیں آکسیجن ملاخون لے جاتی ہیں اور وریدیں بغیر آکسیجن خون کو لے جاتی ہیں '' اوریہ کہ ''خون میں آکسیجن کی آمیزش کا عمل پھیپھڑوں کے اندر انجام پاتاہے''اور یہ بھی کہ ''دل کی طرف واپس آنے والا آکسیجن ملا خون شریان کبیر(AORTA)کے ذریعہ دماغ اور دیگر اعضائے بدن کو پہنچتا ہے ''۔

علی بن عیسیٰ( م 1038ء)نے امراض چشم پر تین جلدوں پر مشتمل ایک کتاب لکھی جس کی پہلی جلد میں آنکھ کی اندرونی ساخت کی مکمل تشریح اور وضاحت کی گئی ہے۔ان تینوں جلدوں کا لاطینی اور جرمن زبانوں میں ترجمہ کردیاگیاہے۔محمد بن زکریا الرازی (925۔865 )برہان الدین نفیس (م438ء) اسماعیل جرجانی( م136ء) قطب الدین الشیرازی(1310۔ 1236ء)منصور ابن محمداورابوالقاسم الزہراوی (ALBUCASIS ) مسلمان سائنس دانوں میں سے وہ اہم شخصیات ہیں جنہیں طب اور تشریح الاعضا کے علوم میں دسترس کی وجہ سے شہرت ملی۔

مسلم سائنس دانوں نے طب اور تشریح الاعضا کے علاوہ بھی کئی شعبوں میں شاندار کارنامے انجام دئیے۔مثال کے طور پر البیرونی کو معلوم تھا کہ زمین اپنے محور کے گرد گردش کرتی ہے۔ یہ گلیلیوسے کوئی 600سال قبل کا زمانہ تھا۔اسی طر ح اس نے نیوٹن سے 700سال پہلے محور ِزمین کی پیمائش کرلی تھی۔ علی کوشوع ((ALI KUSHCHUپندرہویں صدی کا پہلا سائنس دان تھاجس نے چاند کا نقشہ بنایااور چاند کے ایک خطے کو اسی کے نام سے منسوب کر دیاگیاہے۔9ویں صدی کے ریاضی دان ثابت بن قرہ (THEBIT)نے نیوٹن سے کئی صدیاں پہلے احصائے تفرقی (DIFFERENTIAL CALCULUS)ایجاد کرلی تھی۔ بطانی 10ویں صدی کا سائنس دان تھاجو علم مثلثات(TIRGNOMETERY)کو ترقی دینے والاپہلاشخص تھا۔ابو الوفا محمد البزنجانی نے احصائے تفرقی(حساب کتاب کا ایک خاص طریقہ) میں پہلی بار ''مماس ومماس التمام(11) ''(TANGENT/COTANGENT)اور ''خط قاطع و قاطع ِالتمام' (SECANT-COSEANT)(12)متعارف کرائے۔

الخوارزمی نے 9ویں صدی میں الجبرا پر پہلی کتاب لکھی۔ المغربی نے فرانسیسی ریاضی دان پاسکل کے نام سے مشہور مساوات ''مثلث پاسکل''اس سے 600سال پہلے ایجاد کرلی تھی۔ ابن الہیثم (ALHAZEN)جو 11ویں صدی میں گزراہے علم بصریات کا ماہر تھا۔راجر بیکن اور کیپلر نے اس کے کام سے بہت استفادہ کیا جب کہ گلیلیونے اپنی دوربین انہی کے حوالے سے بنائی۔
الکندی(ALKINDUS)نے علاقی طبیعیات اور نظریہ ٔ اضافت آئن سٹائن سے 1100سال پہلے متعارف کرا دیاتھا۔شمس الدین نے پاسچر سے 400سال پہلے جراثیم دریافت کرلیے تھے۔ علی ابن العباس نے جو10ویں صدی میں گزرا تھا کینسر کی پہلی سرجری کی تھی۔ ابن الجسر نے جذام کے اسباب معلوم کیے اور اس کے علاج کے طریقے بھی دریافت کیے۔یہا ں چندایک ہی مسلمان سائنس دانوں کا ذکر کیا جا سکا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے سائنس کے مختلف شعبوں میں اتنے کارہائے نمایاں انجام دیے کہ انہیں بجاطور پر سائنس کے بانی کہا جاسکتاہے۔

مغرب میں سائنسی انقلاب کا زمانہ


جب ہم مغربی تہذیب پر نگاہ ڈالتے ہیں 'تو پتہ چلتاہے کہ جدید سائنس خداپر ایمان کے ساتھ آئی تھی۔ 17ویں صدی جسے ہم ''سائنسی انقلاب کا زمانہ ''کہتے ہیں اس میں خدا پر ایمان رکھنے والے سائنس دانوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ان کا اولین مقصد خدا کی پیدا کردہ کائنات اور اس کی فطرت دریافت کرنا تھا۔ مختلف ممالک مثلاََبرطانیہ اور فرانس وغیرہ میں قائم سائنسی اداروں نے کائنات کے پوشیدہ اسرار دریافت کرکے اس کے خالق کے قریب تر پہنچنے کے عزم کا اعلان کر رکھا تھا۔یہ رجحان 18ویں صدی میں بھی برقرار رہا۔شاندار سائنسی کارنامے انجام دینے والے بعض سائنس دانوں کو قرب الٰہی کے حصول کے اعلانیہ عزم کے حوالے سے پہچانا جاتاتھا۔نیوٹن، کیپلر ،کوپرنیکس ،بیکن ،گلیلیو،پاسکل ،بوائل ،پالے اور کووئیر اسی قبیل کے سائنس دانوں میں سے تھے۔ان سائنس دانوں نے ایمان باللہ کے جذبے سے سائنسی تحقیق وجستجو کی ،جس کی تحریک انہیں جذبہ ایمانی سے حاصل ہوتی تھی۔
اس کا ثبوت ولیم پالے کی ''فطری علم معرفت ''کے نام سے 1802ء میں چھپنے والی کتاب تھی جس کا اہتمام ''برج واٹر ٹریٹیزز''نے کیا تھا

اس کتاب کا پورا نام (NATURAL THEOLOGY:EVIDENCES OF THE EXISTENCE AND ATTRIBUTES OF THE DEITY ,COLLECTED FROM APPEARANCES OF NATURE تھا)۔

اس کتاب کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ بندہ مظاہرِفطرت پر غور وفکر کرکے ان کے خالق کو پہچان سکتا ہے۔ پالے نے زندہ اجسام کے اعضاء میں ہم آہنگی کوبہترین انداز میں قلم بند کرتے ہوئے اس بات پر زور دیاہے کہ ایک خالق کی موجودگی کا اقرار کیے بغیر اس طرح کی غیرمعمولی ڈیزائننگ کا پایا جانا ناممکن ہے۔ بالفاظ دیگر اعضاء کی یہ غیر معمولی ڈیزائننگ اور ان کے افعال ،ایک خالق ومدبرکے وجود کا ناقابل تردید ثبوت پیش کرتے ہیں۔

پالے کے تحقیقی کام کو بطور ماڈل سامنے رکھ کر ''رائل سوسائٹی آف لندن'' کے نامزد ارکان کے نام ایک خط لکھا گیا جس میں انہیں ذیل کے موضوعات پر ایک ہزار کتابیں لکھنے اور چھپوانے کا اہتمام کرنے کی ہدایت کی گئی۔ ''خداکی قدرت وحکمت اور اس کی صفاتِ خیرجن کا اظہار اس کی تخلیقات سے ہوتا ہے اس پر قابل فہم دلائل و براہین یکجا کرنا۔ مثلاََخدا کی مخلوقات میں پایا جانے والا تنوع' نباتات اور معدنیات کی دنیا 'زندہ اجسا م کا نظامِ ہاضمہ اور پھر اس خوراک کو اپنا جزوبدن بنالینا' انسان کے ہاتھ کی ساخت اور اس کی دیگر صلاحیتوں کی وجہ سے تخلیقات ِخداوندی کے دلائل سامنے لانا'اس کے علاوہ آرٹس اور سائنس کے شعبوں میں قدیم اورجدید دریافتوں اور پورے ماڈرن لٹریچر کا ان حوالوں سے جائزہ لینا ''۔

وجود خداوندی کے نشانات کابہ نظرِغائرمطالعہ کرنے کی اس دعوت کا بہت سے سائنس دانوں نے جواب دیا۔ اس طرح بڑی گراں قدرتصانیف وجودمیں آئیں۔یہ سلسلہ ٔمطبوعات، مذہب اورسائنس کے اتصال و ہم آہنگی کی صرف ایک مثال ہے۔ اس سے پہلے اور بعد کے بے شمار سائنسی مطالعات اور تحقیقات کے پیچھے یہ جذبہ کارفرما تھا کہ خدا کی پیدا کردہ کائنات کو سمجھا جائے اور اس کے ذریعہ اس کے خالق کی لامحدود قوتوں کا ادراک کیا جائے۔


مذہب اور سائنس میں تصادم کا دور

سائنس دان برادری کا اس ابتدائی راستے سے انحراف'19ویں صدی کے مغربی کلچرکے مادہ پرستانہ فلسفے کے غلبے کا نتیجہ تھا۔یہ صورت حال بعض سماجی اور سیاسی عوامل کی وجہ سے پیدا ہوئی جس کا بہت بڑا سبب ڈارون کا نظریہ ٔ ارتقا تھا۔یہ نظریہ ابتدائی نقطہ نظر کے بالکل منافی تھا اورنئی صورت ٔحال یہ بنی کہ مذہب اور سائنس کے لیے حصول علم کے دو ایسے مآخذ سامنے آگئے جو ایک دوسرے سے متصادم تھے۔اس صورت حال کے بارے میں برطانیہ کے تین محققین مائیکل بیجینٹ (MICHAEL BAIGENT) )رچرڈ لیRICHARD LEIGH))اور ہنری لنکن(HENRY LINCOLN)کا یہ تبصرہ تھا:

''ڈارون سے ڈیڑھ صدی پہلے آئزک نیوٹن کے لیے سائنس مذہب سے الگ نہیں تھی۔ بلکہ اس سے بالکل برعکس یہ مذہب کا ایک پہلو تھی اور بالآخر اس کے تابع تھی لیکن ڈارون کے زمانے کی سائنس نے خود کو مذہب سے نہ صرف الگ کر لیا بلکہ اس کی حریف بن گئی۔ اس طرح مذہب او ر سا ئنس کے درمیان ہم آہنگی ختم ہو گئی اور وہ دو مخالف سمتوں میں چلنے لگے جس کی وجہ سے انسانیت مجبور ہو گئی کہ وہ دو میں سے کسی ایک کو منتخب کرے''۔(14)

سائنس کے ثابت کردہ حقائق کو اپنے مدمقابل پا کر مادیت پرست عناصر اپنے مخصوص ہتھکنڈوں پر اتر آئے۔ سائنس دان کو اپنے شعبے میں ترقی پانے'ایم ڈی یا پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے یا سائنسی مجلے میں اپنے مضامین چھپوانے کے لیے چند شرائط پوری کرنی پڑتی تھیں۔ان میں ایک شرط یہ تھی کہ وہ نظریۂ ارتقا کو غیر مشروط طو رپر قبول کرتا ہو۔ اس لیے بعض سائنس دان ڈارون کے مفروضوں کا پرچم اٹھانے پر مجبور ہوگئے حالانکہ دلی طور پر وہ ان کو مسترد کرتے تھے۔تخلیق خداوندی کی نشانیوں کے انکا رپران کی طبیعت مائل نہیں تھی۔

امریکی مجلہ ''سائنٹی فک امریکن''کے ستمبر 1999ء کے شمارے میں ایک مضمون''امریکہ کے سائنس دان اورمذہب '' کے عنوان سے شائع ہوا۔ مضمون نگار روڈنی سٹارک (RODNEY STARK)نے جو یونیورسٹی آف واشنگٹن میں سوشیالوجی پڑھاتے ہیں'سائنس دانوں پر ڈالے جانے والے دباؤ کا انکشاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ''سائنس سے متعلقہ افراد کی مارکیٹنگ کا سلسلہ 200سال سے جاری ہے ۔ سائنس دان کہلانے کے لیے تمہیں اپنا منہ بند رکھنا اور مذہب کی جکڑ بندیوں سے خو د کو آزاد رکھنا ہو گا۔ریسرچ یونیورسٹیوں میں مذہبی لوگ اپنے منہ بند رکھتے ہیں اور غیر مذہبی لوگ الگ تھلگ رہتے ہیں۔انہیں خصوصی سلوک کا مستحق گردانا جاتاہے اور انہیں اعلی ٰ مناصب پر پہنچنے کے مواقع دیے جاتے ہیں۔ (15)


موجودہ حالات اورسائنس دان


آج حالا ت بدل چکے ہیں۔ مذہب اور سائنس کے درمیان مصنوعی فرق کوسائنسی دریافتوں نے حقائق کے منافی قرار دے دیا ہے۔ مذہب کا دعویٰ ہے کہ کائنات کو عدم سے وجود میں لایا گیا ہے او رسائنس نے اس حقیقت کے کئی ثبوت دریافت کر لیے ہیں۔ مذہب یہ تعلیم دیتاہے کہ زندہ اشیا ء کو اللہ تعالیٰ نے تخلیق کیا ہے اور سائنس نے زندہ اجسام کے ڈیزائن میں اس حقیقت کے شواہد دریافت کرلیے ہیں۔ مادہ پرست لوگ جو سائنس اور مذہب کو ایک دوسرے کا دشمن قرار دینا چاہتے ہیں نہ صرف کیتھولک کلیسا کی بے جا سخت گیری کو بطور مثال پیش کرتے ہیں بلکہ تورات یا انجیل کے بعض حصوں کا حوالہ دے کر یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ یہ تعلیمات کس قدر سائنسی دریافتوں سے متصادم ہیں۔ تاہم ایک سچائی جسے وہ نظر انداز کرتے ہیں یا اس سے ناواقفیت کا بہانہ کرتے ہیں، یہ ہے کہ انجیل اور تورات کے متن تحریف شدہ ہیں۔ ان دونوں آسمانی کتابوں میں انسانوں نے بہت سے توہمات اپنی طرف سے شامل کر دیے ہیں۔اس لیے ان کتابوں کو مذہب کے بنیادی مآخذ کے طور پر پیش کرنا غلط ہو گا۔

ان کے برعکس قرآن پورے کا پورا وحی ٔالٰہی پر مشتمل ہے 'اس میں رَتی بھر تحریف نہیں ہوئی اور نہ ہی ایک لفظ کی کوئی کمی بیشی ہوئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن میں کوئی تضاد یا کوئی غلطی نہیں ۔ اس میں بیا ن کردہ حقائق سائنسی دریافتوں سے بے حد مطابقت رکھتے ہیں۔مزید برآں متعدد سائنسی حقیقتیں جو آج منظر عام پر آ سکیں ہیں، قرآن نے 1400سال پہلے ان کا اعلان کر دیا تھا۔ یہ قرآن کا ایک اہم معجزہ ہے جو اس کے کلام اللہ ہونے کے متعدد قطعی شواہد میں سے ایک ہے۔(16)


حواشی

(1)۔ سائنسی انکشافات قران وحدیث کی روشنی میں ۔صفحہ33
(2)۔ یوسف، 12:105
(3)۔ البقرہ، 02:164
(4)۔ الموء من، 40:57
(5)۔ تفسیرابن کثیر ،جلد سوم ، صفحہ 372
(6)۔ (ابن ماجہ 224 /ترمذی 21
(7)۔ (ترمذی 279)
(۔(بحوالہ الشمس والقمر بحسبان : ص 37-3
(9)۔ تفہیم القرآن ،جلد سوم ،سورةالانبیائ، حاشیہ 35
(10)۔ The Quran and Modern Science by Dr. Zakir Naik, Page: 11
(11)۔ بائیبل،قرآن اور سائنس ازڈاکٹرمورس بوکائیے ،صفحہ20-21
(12) ۔ مماس(Tangent)دائرے کو ایک نقطے پر چھونے والا خط۔ اور مماس التمام(Cotangent)کسی قوس یا زاوئیے کا مخصوص جزو۔(Gem Advanced Paractial Dictionary)
(13)۔ خط قاطع(Secant)'دائرے کا نصف قطرجو قاطع التمام ہو ۔(Gem Advanced Paractial Dictionary)
(14)۔ THE MESSIANIC LEGACY,-GEORGI BOOKS ,LONDON :1991 ,p.177-178
(15)۔ EDWARD J. LARSON VE LARRY WITHAM, Scientists and Religion in America, SCIENETIFIC AMERICAN, SEP.1999, p. 81
(16)۔ بحوالہ قرآن رہنمائے سائنس صفحہ87-99
 
قرآن اور سائنس کے درمیان مطابقت کے حوالے سے تین گروہ یا آراء​


بدقسمتی سے سائنس اور قرآن کے درمیان مطابقت کے حوالے سے تین گروہ پائے جاتے ہیں ۔ ان میں سے‌ ایک گروہ یا جماعت کا موقف یہ ہے کہ سائنس کی بنیاد عقل انسانی پر ہے اوریہ قوانین تبدیل بھی ہوتے رہتے ہیں لہذا کسی طور پر بھی قرآن کا سائنس سے مطابقت دکھانا غلط ہے ۔اس سے قرآن سائنس کا محتاج نظرآتا ہے۔ جبکہ دوسرہ گروہ ہر چیز کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش میں‌ رہتا ہے۔
درحقیت یہ دونوں موقف افراط وتفریط کا شکار ہیں ۔اس سلسلے میں تیسراموقف ایک حقیقی اور منصفانہ لگتا ہے اور اس کوپیش کرنے والوں میں‌ ڈاکڑ زاکر نائیک پیش پیش ہیں۔ اسی موقف کو میں‌ نے اپنی کتاب کے آغاز میں‌کچھ اس طرح پیش کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

درحقیقت آج کے اس سائنسی اور مشینی دور میں قرآن مجید اور جدید سائنس کے درمیان مطابقت یا عدم مطابقت کوبطوردعوت پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ دلائل کی زبان سمجھنے والوں کو قائل کیا جاسکے۔ موجودہ دور میں جدید سائنس نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ہم عام طرزِ دعوت کے ساتھ جدید طرز دعوت کو بھی اپنائیں اور اسے منظم انداز سے دنیا کے سامنے پیش کریں۔اس بات کا اعتراف کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ دعوت کی یہ طرز انتہائی کٹھن اور مشکل ہے اور ہمیں اپنے قدم احتیا ط کے ساتھ اٹھانا ہوں گے۔میرے خیال میں اس کے لیے درج ذیل باتوں پر توجہ مرکوز رہنی چاہیے :

قرآن اور سائنس کے درمیان مطابقت کو پش کرتے ہوئے درج زیل چند اصولوں‌کو مدنظر نظر رکھنا ہوگا۔​

1) یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ قرآن سائنس کی کتا ب نہیں بلکہ یہ نشانیوں یعنی آیات کی کتاب ہے۔قرآن مجید کی ایک ہزار سے زاید آیات کا تعلق سائنس اور سائنسی اُمور سے ہے۔ (1)جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بے مثال قدرت اوراسرار و رموز کے متعلق انکشافات کیے ہیں۔ان کو بعض جگہ مفصل اور بعض جگہ اشارة ً بیان کرنے کے بعد انسان کو دعوت ِ فکر دی ہے۔

2)ہمیں سائنس کو بطور کسوٹی قرآن مجید کو سچا ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ قرآن سائنس کی دلیلوں کا محتاج نہیں بلکہ سائنسی نظریات کی حقانیت یا ابطال کو پرکھنے کے لیے قرآن کریم سے رجوع کرنا نہایت ضروری ہے۔ سائنسی نظریات انسان کی جانب سے کی جانے والی مادی تحقیق پر مبنی ہیں جن کا کسی ممکنہ نقص سے پاک ہونے کا یقین نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ جن میں سائنسی بنیادوں پر پیش کیے جانے والے نظریات کو سائنس نے ہی باطل قرار دے دیا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مسلمان کے لیے کسی چیز کے صحیح یا غلط ہونے اور پرکھنے کے لیے اصل کسوٹی ''قرآن مجید '' ہی ہے، سائنس نہیں۔ چنانچہ ہمیں صرف انہی سائنسی دریافتوں کا ذکر کرناچاہیے جوواقعی دلائل اور ثبوت رکھتی ہیں ،جبکہ سائنسی مفروضوں کے ذکر سے اجتناب کیا جائے۔

3) اس سوال کا جواب دینا بھی ضروری ہے جو قرآن اور سائنس کے مضمون کو پڑھتے ہوئے کسی کے ذہن میں پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر یہ سب کچھ قرآن مجید میں پہلے سے ہی موجود تھاتو تفاسیر میں ان کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا اور آج سائنس کے بتانے کے بعد یہ کیوں کہا جارہاہے کہ یہ باتیں تو 14سو سال پہلے ہی قرآن مجید میں موجود تھیں۔ درحقیقت عربی زبان بڑی جامع اور وسیع زبان ہے۔ ایک لفظ کے کئی کئی معانی ہیں نیز کائنات کے اسرارورموز سے اس وقت کے مسلمان ناواقف تھے۔ علاوہ ازیں کسی بھی انوکھی چیز کو سمجھنے یا سمجھانے کے لیے کسی قرینے یا علم کی ضرورت ہوتی ہے اوریہ قرینہ یا علم جو آج ہمیں سائنس کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے۔ سابقہ ادوار کے مفسرین کرام اس سے محروم تھے چنانچہ ہر مفسر نے اپنے دورکے علم اور حالات کے حساب سے قرآنی آیات کی تشریح کی۔
قرآن مجید ایک لفظ کے کئی معانی بتاتا اوراستعمال کرتاہے۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم فرمان مبارک ہے کہ :

(( فُضِّلْتُ عَلَی الاَنْبِیَاءِ بِسِتٍّ، اُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ))
''مجھے دوسرے انبیاء پر جو چھ چیزوں میں فضیلت دی گئی ہے ان میں سے ایک میرا جوامع الکلم ہونا ہے۔ '' (2)

اس مفہوم کی دوسری حدیث ہے:
(( واوتیت جوامع الکلم ))

''اورمجھے جوامع الکلم دیے گئے ''(3)

ہند بن ابی ہالہ کی روایت ہے کہ:

(( کان یتکلم بجوامع الکلم))
یعنی ''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو بہت سی خصوصیات کا جامع بنایا گیا ہے'' ۔ (4)

جوامع، جامع کی جمع ہے۔ اس کے اندر چیزوں کو اکٹھاکر نے او رسمیٹنے کامفہوم پایا جاتاہے۔ کلم ،کلمہ کی جمع ہے۔ اس کے معنی ''بات ''ہیں، یعنی ایسے اقوال جن کے معنی زیادہ اورالفاظ کم ہوں،یعنی کثیر المعانی الفاظ۔ (5)

لہذا اگر کسی واقعہ یا نظریہ میں ہمیں قرآن کریم یا کسی صحیح حدیث کی رُو سے تضاد یا تعارض نظر آ رہا ہو تو اس کی دو ہی وجوہ ہو سکتی ہیں ایک یہ کہ قرآنی آیت یا صحیح حدیث کے الفاظ میں ایسی تاویل کی گنجائش موجودہو جس کی اس سے پیشتر ضرورت ہی پیش نہ آئی ہو اور جب اس سے متعلق کوئی واقعہ رونما ہوتو تب ہی ان الفاظ کا مفہوم ذہن میں آتا ہے ۔

اور دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ نظریہ بذات ِ خود تجرباتی دور سے گزر رہا ہو اوراپنے مشکوک ہونے کی بنأ پر ابھی تک نظریہ کی حد سے آگے نہ بڑھ سکا ہو۔یا جو کچھ بیان کیا جارہا ہو اس کی بنیاد محض ظنون وقیاسات ہوں جبکہ وحی یقینی علم مہیّا کرتی ہے اور انسان کی بھٹکتی ہوئی عقل کے مدتوں کے سفر کو قریب کر دیتی ہے ۔چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔

(( بَلْ کَذَّبُوْا بِمَالَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہ وَلَمَّا یَاْتِہِمْ تَاْ وِیْلُہ ))

بلکہ انہوں نے ہر اس بات کو جھٹلا دیا جس کا وہ اس چیز کے حقیقی علم سے احاطہ نہ کرسکے حالانکہ اس کی حقیقت ابھی ان پر کھلی ہی نہیں تھی ۔(6)

اوریہ ہے بھی حقیقت کہ کسی چیز کے متعلق انسان کا علم خواہ کتنا ہی ترقی کر جائے وہ محدود ہی ہوگااور اس کے بعد بھی اس چیز کے متعلق مزید انکشافات ہوتے رہیں گے جبکہ اللہ تعالیٰ کا علم لا محدود ہے اور وہ اس چیز کا خالق ہے ۔جو کچھ وہ جانتا ہے دوسرا کوئی جان نہیں سکتا۔چناچہ ایک دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک نہایت جامع اوربلیغ خطبہ ارشاد فرمایا ،جس سے سامعین بہت متاثر ہوئے ۔ا ن سامعین میں سے کسی نے حضرت موسیٰ سے پوچھا ، '' کیا اس دنیا میں آ پ سے بڑھ کربھی کوئی عالم ہے ؟''حضرت موسیٰ نے جواب دیا ۔''نہیں ''۔اللہ تعالیٰ کو موسیٰ کا یہ جواب پسند نہ آیا ،لہٰذا انہیں حکم دیا کہ وہ ہمارے فلاں بندے (حضرت حضر ) کو جا کر ملیں۔


حضرت موسیٰ نے ایک ہمسفر اپنے ساتھ لیا اور بہت مشقت کے بعد حضرت حضر کو ملنے میں کامیاب ہوئے ۔ابتدائی گفتگو کے بعد ان کے ساتھ سفر کا آغاز کیا ۔دوران سفر تین ایسے واقعات پیش آئے جو صریحاً خلافِ عقل تھے،لہٰذا حضرت موسیٰ نے فوراً ان پر اعتراضات کر دیئے جن کی تفصیل کا یہ مو قع نہیں۔بعدہ حضرت خضر نے ان واقعات کی تاویل سے مطلع کرنے کے بعد فرمایا :''موسیٰ ! میرا علم اورتمہارا علم دونوں مل کر اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلہ میں ایسے ہی ہیں جیسے اس سمندر کے مقابلہ میں پانی کا ایک قطرہ''۔

یہ واقعہ قرآن کریم اورکتب ِ احادیث میں تفصیل سے مذکور ہے اور اسے بیان کرنے سے غرض یہ ہے کہ جب انسان کا علم اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلہ میں اتنا کم ہے تو پھر کم از کم ایک مسلمان کو کیا حق ہے کہ وہ کتاب اللہ یا کسی صحیح حدیث کے مقابلہ میں اپنے یا دوسرے لوگوں کے علم اورنظریات پر انحصار کرے ۔

دور حاظر میں اس کی مثال یہودیوں کی سلطنت اسرائیل کا قیام ہے ۔ مدّتوں یہی سمجھا جاتا رہا کہ یہودی چونکہ ایک مغضوب علیہ قوم ہے اور ذلّت و مسکنت اس کے مقدر کر دی گئی ہے لہٰذا یہ کبھی حکمران نہیں بن سکتے اورجب ان کی سلطنت قائم ہوگئی تو بہت سے اہل علم کے بھی چھکّے چھوٹ گئے کہ یہ بن گیا ؟یہ بات تو قرآن کے خلا ف ہے حالانکہ قرآن ہی میں آیت مبارکہ کے اگلے الفاظ کچھ اس طرح ہیں :

(( اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰہ ِ وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ ))
اِلّا یہ کہ اللہ کی یا لوگوں کی پناہ میں آجائیں۔ (7)

ان الفاظ کی رو سے دو صورتوں میں یہودی سلطنت وجود میں آسکتی ہے ایک یہ کہ وہ اللہ کے دین پر کاربند ہو جائیں اور کم از کم اپنی طرف سے منز ل من اللہ کتاب پر پوری طرح عمل پیر ا ہوں ۔ا ور دوسرے یہ کہ دوسرے لوگوں کی حکومتوں کی شہ پر ان کی سلطنت قائم ہو سکتی ہے ،اور حقیقتاً ایسا ہی ہے کہ یہ سلطنت برطانیہ ،فرانس اورامریکہ کی شہ پر قائم ہوئی ۔پھر روس بھی ان کاہمنوابن گیا اور تما م اسلام دشمن طاقتوں نے مل کر اسلامی ممالک کے وسط میں اسرائیل قائم کرکے مسلمانوں پر خطرناک وار کردیا ۔

غور فرمائیے آیت کے مندرجہ بالا الفاظ نازل تو دور نبوی میں ہوئے تھے جنہیں مسلمان ہر دور میں پڑھتے رہے لیکن ان کے معانی کی طرف کسی نے کم ہی غور کیا ہو گا پھر جب یہود کی سلطنت قائم ہوگئی تو یہ الفاظ بھی سامنے آگئے ۔ یہ ہے ولما یاتہم تاویلہ کا مطلب۔

اسی طرح جب موجودہ دور میں انسان چاند پر پہنچ گیا تو کئی لوگ اس سے سخت حیران وپریشان ہو گئے اور ا س حقیقت کا ہی انکا ر کرنے لگے ۔وہ یہ سمجھتے تھے کہ انسان زمینی حدود سے آگے نہیں جا سکتا ۔ان کی وجہ استدلا ل یہ آیت تھی :۔


(( یٰمَعْشَرَالْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ ))
اے جنّون اور انسانوں کی جماعت ! اگر تم اس بات کی طاقت رکھتے ہوکہ آسمانوں اورزمین کے کناروں سے آرپار نکل جاؤ ،تو نکل جاؤ،مگر زبردست قوت کے بغیر تم نہیں نکل سکتے ۔(

غور فرمائیے اس آیت میں کوئی ایسی بات نہیں جو انسان کو زمین کی حدودہی تک محدود رہنے کی پابند بناتی ہو اور اگر کوئی شخص ایسا سمجھتا ہے تو یہ اس کی اپنی کم فہمی ہے کیونکہ آیت بالا میں اورآسمانوں اورزمین کے اقطار کا ذکر ہے صرف زمین نہیں۔لہٰذا اگر کوئی شخص چاند یا کسی دوسرے سیارے تک پہنچ جائے تو اقطار السمٰوات والارض سے باہر نہیں گیا ۔دوسرے اس آیت میں یہ بھی مذکور ہے کہ سلطان (قوت ،زور ،غلبہ)سے تم اقطار السمٰوات والارض سے آگے بھی جاسکتے ہو ۔اسی دور میں علامہ اقبال نے یہ شعر کہا تھا۔

سبق مِلا ہے یہ معراج مصطفٰے سے مجھے
کہ عالِم بشریّت کی زد میں ہے گردوں

اندریں صورت یہ بات پوری طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جب کوئی ایسا واقعہ یا نظریہ درپیش آئے جو بظاہر اسلام کے خلاف معلوم ہوتاہو تو اسے فی الواقعہ اسلام کے خلاف نہ سمجھ لینا چاہیے بلکہ اسی کی تاویل پر غورکرناچاہیے یا تاویل کا انتظار کرناچاہیے اورا یسی صورت حال کو اپنی کم علمی اورکم فہمی پر محمول کرناچاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے قول وفعل میں کبھی تضاد واقع نہیں ہو سکتا اور اگر وہ فی الواقعہ اسلام کے خلاف ثابت ہوجائے تو دلائل کے ساتھ ایسے نظریہ کی پر زور تردید کرناچاہیے ۔(9)

4(قرآن مجید میں بیان کردہ سائنسی علم کے متعلق آیا ت کے ترجمہ ا ور تشریح کے لیے سائنس دانوں کی معاونت حاصل کی جائے۔

علاوہ ازیں‌ یہ معلومات اور تحقیق کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ مسلمان جو قرآن مجید کو اپنا ضابطہ حیات قرار دیتے ہیں، ان کا ایمان مزیدپختہ ہوجائے کہ سائنس نے جن حقیقتوں کو آج دریافت کیا ہے ان میں سے کئی ایک کا ذکر قرآن مجید میں کسی نہ کسی شکل میں پہلے سے ہی موجود ہے۔
دوسرا مقصد یہ ہے کہ وہ غیر مسلم جو سائنس پر یقین رکھتے ہیں اور جن کے نزدیک کسی بھی چیز کو پرکھنے کے لیے اصل کسوٹی سائنس ہی ہے، کے لیے حق کوجاننا'سمجھنا اور پرکھنا آسان ہو جائے کیونکہ انہی کی مبینہ کسوٹی کو استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ قرآن مجید برحق اور سچاہے ،گوکہ اس کی ضرورت مسلمانوں کو نہیں۔ یعنی ایک مسلمان کے نزدیک قرآن سائنس کی گواہی کا محتاج نہیں‌ہے۔

حواشی

(1)۔ The Quran and Modern Science by Dr.Zakir Naik,Page: 05
(2)۔ صحیح مسلم از امام مسلم بن حجاج القشیری جلد 5صفحہ 5
(3)۔ البیان والتبیین ازجاحظ جلد 4صفحہ 29
(4)۔ صحیح بخاری کتاب التعبیر
(5)۔ القاموس الوحید از مولانا وحید الزمان قاسمی کیرانوی
(6)۔10/39
(7)۔3/112
(۔55/33
(9)۔ الشمس والقمر ۔ص 80-83
 
Top