کاشفی

محفلین
غزل
(شیخ ابراہیم دہلوی تخلص بہ ذوق)

کیا آئے تم جو آئے گھڑی دو گھڑی کے بعد
سینہ میں ہوگی سانس اڑی دو گھڑی کے بعد

کیا روکا ہم نے گریہ کواپنے کہ لگ گئی
پھر وہ ہی آنسوؤں کی جھڑی دو گھڑی کے بعد

اُس لعل لب کے ہم نے لیئے بوسے اس قدر
سب اُڑ گئی مسی کی دھڑی دو گھڑی کے بعد

کوئی گھڑی اگر وہ ملایم ہوئے تو کیا
کہہ بیٹھیں گے پھر ایک کڑی دو گھڑی کے بعد

اللہ رے ضعف سینہ سے ہر آہ بے اثر
لب تک جو پہنچی بھی تو گھڑی دو گھڑی کے بعد

کل اُس سے ہم نے ترکِ ملاقات کی، تو کیا؟
پھر اُس بغیر کل نہ پڑی دو گھڑی کے بعد

پروانہ گرد شمع کے شب دو گھڑی رہا
پھر دیکھی اُسکی خاک پڑی دو گھڑی کے بعد

تو دو گھڑی کا وعدہ نہ کر، دیکھ جلد آ
آنے میں ہوگی دیر بڑی دو گھڑی کےبعد

کیا جانے دو گھڑی وہ رہے ذوق کس طرح
پھر تو نہ ٹھہرے پاؤں گھڑی دو گھڑی کے بعد
 

کاشفی

محفلین
سخنور صاحب، ظفری صاحب, محمد وارث صاحب, نبیل صاحب اور پیاسا صحرا صاحب آپ تمام حضرات کا بیحد شکریہ سب خوش رہیں۔۔ ڈھیر سارے دودھو نہائیں اور پوتو پھلیں۔۔آمین
 
بہت عمدہ کلام ، واہ ۔

کیا روکا اپنے گریے کو ہم نے کہ لگ گئی
پھر وہ ہی آنسوؤں کی جھڑی دو گھڑی کے بعد

کوئی گھڑی اگر وہ ملایم ہوئے تو کیا
کہہ بیٹھیں گے پھر ایک کڑی دو گھڑی کے بعد

پروانہ گرد شمع کے شب دو گھڑی رہا
پھر دیکھی اُسکی خاک پڑی دو گھڑی کے بعد
 

کاشفی

محفلین
بہت عمدہ کلام ، واہ ۔

کیا روکا اپنے گریے کو ہم نے کہ لگ گئی
پھر وہ ہی آنسوؤں کی جھڑی دو گھڑی کے بعد

کوئی گھڑی اگر وہ ملایم ہوئے تو کیا
کہہ بیٹھیں گے پھر ایک کڑی دو گھڑی کے بعد

پروانہ گرد شمع کے شب دو گھڑی رہا
پھر دیکھی اُسکی خاک پڑی دو گھڑی کے بعد

شکریہ بنت حوا صاحبہ۔۔خوش رہیں۔۔
 
بہت عمدہ انتخاب
یہ تین اشعار رہ گئے ہیں۔

تھے دو گھڑی سے شیخ جی شیخی بھگارتے
ساری وہ شیخی ان کی جھڑی دو گھڑی کے بعد

کہتا رہا کچھ اس سے عدو دو گھڑی تلک
غماز نے پھر اور جڑی دو گھڑی کے بعد

گو دو گھڑی تک اُس نے نہ دیکھا ادھر تو کیا
آخر ہمیں سے آنکھ لڑی دو گھڑی کے بعد
 
آخری تدوین:
Top