کہ اب کوئی امید بهی نہیں تو کیا کریں برائے اصلاح تنقید تبصرہ

کہ اب کوئی امید بهی نہیں تو کیا کریں
سو کیوں ستم سہیں سو کس لئے جلا کریں

خرد بهی قید ہے زباں بهی بس میں اب نہیں
سو کس سے کچھ سنیں کسی سے کیا کہا کریں

دلبر کی دلکشی تو دل لگی کی شرط ہے
دلدار ہو کوئی کہ جس سے ہم وفا کریں

ہر سمت ہی اللہ کی قدرت دکهے ہمیں
دیدار اس صنم کا ایسے جا بجا کریں

ہر درد تیری یاد کا ہر زخم ستم کا
یہ قرض محبت ہے سو کیسے ادا کریں

تم تو وفا کی بندشیں توڑے چلے گئے
ہم خود کو اپنی ذات سے کیسے رہا کریں
 
تقطیع میں مدد چاہیے ذرا

یہ صورت دیکهئے

کہ اب کوئی امید بهی نہیں سو کیا کریں
تو کیوں ستم سہیں سو کس لئے جلا کریں

خرد تو قید ہے زباں بهی بس میں اب نہیں
سو کس سے کچھ سنیں کسی سے کیا کہا کریں

ہے دل لگی کی شرط حسن یار ہاں مگر
کوئی حسین دل ہو جس سے ہم وفا کریں

اللہ کی ہر ہی سمت میں قدرت دکهے ہمیں
دیدار اک صنم کا ایسے جا بجا کریں

ہر دکھ تمہارے قرب کا تحفہ ملا ہوا
یہ قرض محبت ہے سو کیسے ادا کریں

تم تو وفا کی بندشیں توڑے چلے گئے
ہم خود کو اپنی ذات سے کیسے رہا کریں
 
چلئے میں اصل صورت کو وزن میں لے آتا ہوں۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا پھر خود ہی نوک پلک سنوار لیجئے گا:
کہ اب کوئی امید بهی نہیں تو کیا کریں
سو کیوں ستم سہیں سو کس لئے جلا کریں
امید کوئی اب نہیں باقی سو کیا کریں
کس واسطے ستم سہیں کاہے جلا کریں
خرد بهی قید ہے زباں بهی بس میں اب نہیں
سو کس سے کچھ سنیں کسی سے کیا کہا کریں
عقل و زباں ہیں قید میں بس میں نہیں ہے کچھ
کس کا سنانا سنیئے اور کس سے کہا کریں
دلبر کی دلکشی تو دل لگی کی شرط ہے
دلدار ہو کوئی کہ جس سے ہم وفا کریں
ہے دل لگی کی شرط تو بس دل کشی فقط
دلدار ہو جو کوئی تو ہم پھر وفا کریں
ہر سمت ہی اللہ کی قدرت دکهے ہمیں
دیدار اس صنم کا ایسے جا بجا کریں
اللہ کی ہی قدرتیں ہر سمت ہے عیاں
دیدار ہم کہ اس صنم کا جا بجا کریں
ہر درد تیری یاد کا ہر زخم ستم کا
یہ قرض محبت ہے سو کیسے ادا کریں
ہر درد تیری یاد کا ہر زخم جور کا
یہ قرض تم ہی اب کہو کیسے ادا کریں
تم تو وفا کی بندشیں توڑے چلے گئے
ہم خود کو اپنی ذات سے کیسے رہا کریں
ان وفا کی بندشوں کو تبدیلی کی ضرورت نہیں۔
 

نمرہ

محفلین
ویسے آپ اسے مفاعلن مفاعلن مفاعلن فعل میں بھی کر سکتی ہیں، اور شاید اسی میں کہی گئی ہے یہ غزل۔ اس صورت میں ، پہلے تین اشعار بالکل ٹھیک ہیں، آخری تین دیکھنے پڑیں گے آپ کو۔

تقطیع میں مدد چاہیے ذرا

یہ صورت دیکهئے

کہ اب کوئی امید بهی نہیں سو کیا کریں
تو کیوں ستم سہیں سو کس لئے جلا کریں

خرد تو قید ہے زباں بهی بس میں اب نہیں
سو کس سے کچھ سنیں کسی سے کیا کہا کریں

ہے دل لگی کی شرط حسن یار ہاں مگر
کوئی حسین دل ہو جس سے ہم وفا کریں

اللہ کی ہر ہی سمت میں قدرت دکهے ہمیں
دیدار اک صنم کا ایسے جا بجا کریں

ہر دکھ تمہارے قرب کا تحفہ ملا ہوا
یہ قرض محبت ہے سو کیسے ادا کریں

تم تو وفا کی بندشیں توڑے چلے گئے
ہم خود کو اپنی ذات سے کیسے رہا کریں
 
ویسے آپ اسے مفاعلن مفاعلن مفاعلن فعل میں بھی کر سکتی ہیں، اور شاید اسی میں کہی گئی ہے یہ غزل۔ اس صورت میں ، پہلے تین اشعار بالکل ٹھیک ہیں، آخری تین دیکھنے پڑیں گے آپ کو۔


ہم اسے سہہ بحری کہہ سکتے ہیں۔ :cool:
بلکہ قبول کرنے میں چنداں معارض نہیں۔ :rolleyes:
 
کہ اب کوئی امید بهی نہیں رہی سو کیا کریں
تو کیوں ستم سہا کریں سو کس لئے جلا کریں

خرد تو قید ہے زبان بهی تو بس میں اب نہیں
سو کس سے کچھ سنا کریں کسی سے کیا کہا کریں

گو دل لگی کی شرط حسن یار ہی سہی مگر
کوئی حسین دل ہو جس سے ہم کبهی وفا کریں

ہر ایک سمت میں خدا کی قدرتیں ہیں دکه رہی
ہم اک صنم کی دید اس طرح سے جا بجا کریں

ہر ایک دکھ تمہارے قرب کا ہی ہے ملا ہوا
یہ قرض عاشقی ہے اس کو کیسے ہم ادا کریں

وفا کی بندشیں سبهی وہ توڑتا چلا گیا
ہم اپنی ذات سے ہی خود کو کیسے اب رہا کریں
 
بہت شکریہ آپ سب کا :) سمجھ میں بهی آگئی ہیں بحریں. اوپر ایک اور صورت بهی شیئر کر لی ہے. مگر آپ لوگوں کی بتائی ہوئی زیادہ پسند آئی ہے اسی کے مطابق درست کرتی ہوں.
Thanks everyone :)
 
کہ اب کوئی امید بهی نہیں رہی سو کیا کریں
تو کیوں ستم سہا کریں سو کس لئے جلا کریں

خرد تو قید ہے زبان بهی تو بس میں اب نہیں
سو کس سے کچھ سنا کریں کسی سے کیا کہا کریں

گو دل لگی کی شرط حسن یار ہی سہی مگر
کوئی حسین دل ہو جس سے ہم کبهی وفا کریں

ہر ایک سمت میں خدا کی قدرتیں ہیں دکه رہی
ہم اک صنم کی دید اس طرح سے جا بجا کریں

ہر ایک دکھ تمہارے قرب کا ہی ہے ملا ہوا
یہ قرض عاشقی ہے اس کو کیسے ہم ادا کریں

وفا کی بندشیں سبهی وہ توڑتا چلا گیا
ہم اپنی ذات سے ہی خود کو کیسے اب رہا کریں


لا جواب۔
 

الف عین

لائبریرین
چلو، مبارک ہو بحر کا مسئلہ تو درست ہو گیا۔
مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن
بحر ہو گئی ہے۔ ویسے آخری ادھورے رکن کے ساتھ پہلی شکل کے تی اشعار بھی درست تھے، لیکن بعد میں بحر بدل گئی تھی (مفعول فاعلات مفاعیلن فاعلن ہوگئی تھی۔
 

الف عین

لائبریرین
ان دو اشعار میں اب بھی اصلاح کی گنجائش ہے۔
گو دل لگی کی شرط حسن یار ہی سہی مگر
کوئی حسین دل ہو جس سے ہم کبهی وفا کریں
÷÷پہلا مصرع رواں نہیں، دوسرے میں ’حسین دل‘ ہی کیوں؟
جو دل لگی کی شرط حسن یار ہو تو ہو، مگر
پر غور کرو۔

ہر ایک سمت میں خدا کی قدرتیں ہیں دکه رہی
ہم اک صنم کی دید اس طرح سے جا بجا کریں

اس کی بھی روانی بہتر کی جا سکتی ہے۔’ہیں دکھ رہی‘ بھی خوش گوار تاثر نہیں چھوڑتا۔ مثلاً
دکھائی دے رہی ہیں بس اسی خدا کی قدرتیں
یا
ہر ایک سمت میں خدا کی قدرتیں عیاں تو ہیں
اور
اسی صنم کی۔۔۔۔
 

شوکت پرویز

محفلین
سارہ صاحبہ !
الحمدُ ِللہ غزل تو بہت بہتر ہو گئی ہے :) داد قبول ہو۔
۔۔۔
ہر ایک دکھ تمہارے قرب کا ہی ہے ملا ہوا
یہاں "ہی ہے" (جو کہ روانی میں "ہِ ہے" پڑھا جائے گا، زباں پر گِراں پڑ رہا ہے)
شاید یہ کچھ بہتر ہو:
تمہارے قرب ہی نے ہم کو سارے دکھ عطا کیے
یا
تمہارے قرب ہی سے ہم کو سارے دکھ ملے صنم

یا پھر آپ کوئی اور صورت دیکھیں :)
 

الف عین

لائبریرین
استاد جی!
معذرت کہ میں بھی ساتھ ہی میں پوسٹ کر گیا۔۔۔

اور مراسلہ نمبر 13 کی ریٹنگ میں پھر شاید ٹچ سکرین نے دھوکہ دے دیا :(
منتظمین سے درخواست ہے کہ مثبت بٹنوں کو ایک ساتھ اور منفی بٹنوں کو ایک ساتھ کر دیا جائے۔ ابھی زبردست ریٹنگ کرنے گیا تھا تو پر مزاح ہو گئی!! اور مزے کی بات یہ ہے کہ پسند کو نا پسند کی غلطیوں کا نشانہ پیارے شوکت پرویز ہی بنے۔
سارہ! وہ مصرع جس کی نشان دہی شوکت نے کی ہے، اس کو بھی شامل سمجھو میری طرف سے بھی۔
 
عقل و زباں ہیں قید میں بس میں نہیں ہے کچھ
کس کا سنانا سنیئے اور کس سے کہا کریں

اللہ کی ہی قدرتیں ہر سمت ہے عیاں
دیدار ہم کہ اس صنم کا جا بجا کریں




منیب شوکت کا کہنا درست ہے۔
بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف: مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن پر یہ درست نہیں ہے۔
کس کا س ::: مفعول
نا ن سن ی ::: فاعلاتن
ار کس سے ::: مفاعیل؟؟؟

دیدار ::: مفعول
ہم کہ اس ص ::: فاعلاتن
نم کا جا ب ::: مفاعیل؟؟؟
 
Top