کہیں سے لوٹ کے وہ دور کاش آ جائے۔۔ اساتذہ کی رہنمائی کا منتظر

حنیف خالد

محفلین
اساتذہ کی خدمت میں ایک غزل پیش کر رہا ہوں
امید ہے حوصلہ افزائی فرمائیں گے۔

-----------------------------------------

نہ ایسے شخص سے پھر حال دل کہا جائے
جو آج ساتھ رہے اور کل چلا جائے

بڑے دنوں سے مرے تاک میں اداسی ہے
چلو اسی سے کوئی واقعہ سنا جائے

جو تیری عزت و ناموس کا ہو سوداگر
خموش اس پہ بھلا کب تلک رہا جائے

بڑوں کے سامنے چھوٹے ادب سے جھکتے تھے
کہیں سے لوٹ کے وہ دور کاش آ جائے

ہو تیرے نام سے شہرت مری زمانے میں
توُ اس طرح سے مری روح میں سما جائے

بڑا عجیب ہوا حال میرے دل کا حنیف
سمیٹوں جس قدر اتنا ہی ٹوٹتا جائے
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ اصلاح کی ضرورت نہیں۔ بس پہلا مصرع روانی طلب ہے۔
جو تیری عزت و ناموس کا ہو سوداگر
خموش اس پہ بھلا کب تلک رہا جائے
یوں بہتر ہو گا

ہو تیری عزت و ناموس کا اگر سودا
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
۔۔۔۔
بڑے دنوں سے مرے تاک میں اداسی ہے
چلو اسی سے کوئی واقعہ سنا جائے
۔۔۔ مرے تاک میں یا ۔۔۔ مری تاک میں ؟؟


بڑوں کے سامنے چھوٹے ادب سے جھکتے تھے
کہیں سے لوٹ کے وہ دور کاش آ جائے
÷÷÷ پہلے مصرعے میں "جس (دور) میں" کی کمی دکھائی دیتی ہے ۔۔۔کہ دور کی بات دوسرے مصرعے میں ہے ، پہلا مصرع اس کا اشارہ نہیں دیتا۔
 
Top