قتیل شفائی کہہ دے کوئی قتیلؔ سے ، دن ہیں ترے آرام کے

کون دکھائے راستہ، رہبر ہیں سب نام کے
اب کے سفر پر جائیو، اپنی انگلی تھام کے

دن گزرا تو دیر تک، پیڑوں پر چہکار تھی
رات پڑی تو سو گئے، سارے پنچھی شام کے

خوشیوں کی تو بات کیا، غم بھی دھوکا دے گئے
سدا جو ساتھ نہ دے سکیں، وہ ساتھی کس کام کے

لکھا خط اک نار نے ، بوڑھے بہت اداس ہیں
جب سے شہر میں جا بسے ، گھبرو تیرے گام کے

جس دن ہم پر آئی تھی ، تہمت تیرے پیار کی
اُس دن سے ہم ہو گئے ، عادی ہر الزام کے

ہم توبہ کے بعد بھی ، منہ نہ لگائیں گے اُسے
تم واعظ کو بھیج دو ٹکڑے چُن کر جام کے

لمبی راتیں جاگ کر ، غزلیں کہنا چھوڑ دے
کہہ دے کوئی قتیلؔ سے ، دن ہیں ترے آرام کے
 

آوازِ دوست

محفلین
جس دن ہم پر آئی تھی ، تہمت تیرے پیار کی
اُس دن سے ہم ہو گئے ، عادی ہر الزام کے
واہ ! بہت خوب
کون دکھائے راستہ، رہبر ہیں سب نام کے
اب کے سفر پر جائیو، اپنی انگلی تھام کے

دن گزرا تو دیر تک، پیڑوں پر چہکار تھی
رات پڑی تو سو گئے، سارے پنچھی شام کے
حق بات ہے!
 
Top