کاشفی

محفلین
قصیدہ در مدح جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا
(علامہ السید ذیشان حیدر جوادی کلیم الہ آبادی )

کہاں ممکن بھلا اُس کی ثنا ہے
کہ جس کا مدح خواں خود کبریا ہے

نہ میں کچھ ہوں نہ کچھ میری ثنا ہے
قصیدہ فاطمہ کا ہل اتیٰ ہے

وہ عصمت جس کی مریم ابتدا ہے
اسی عصمت کی زہرا انتہا ہے

جہاں عورت کا جو بھی مرتبہ ہے

فقط اک بنتِ احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا ہے

وہ جس کا نام بھی خالق نے رکھا
وہ پوری صنف میں اک فاطمہ ہے

فلک پر جس کو کہتے ہیں فرشتہ
در زہرا کا وہ بھی اک گدا ہے

زمیں والے ہیں انجانے سے لیکن
فرشتہ فاطمہ کو جانتا ہے

تھے منصب دار سب چادر میں لیکن
تعارف سب کا زہرا سے ہوا ہے

در زہرا پہ آتا کیوں نہ رضواں
یہی جنت کا سیدھا راستہ ہے

جسے کہتے ہیں حسنین اپنی جنت
ترا نقشِ قدم اے سیّدہ ہے

بکثرت کیوں نہ ہوتی نسل تیری
تجھے اللہ نے کوثر کہا ہے

ترا فرزند کیوں ہوتا نہ قائم
جو تونے مانگی ہے یہ وہ دعا ہے

کنیزوں کے سروں پر ہے جو چادر
ترا ظلِ کرم اے سیّدہ ہے

پے معراجِ مومن تیری تسبیح
فلک پر اُدنُ منی کی صدا ہے

حکومت کو رلا کر تونے چھوڑا
جہاد ایسا فقط تونے کیا ہے

ہے ساکت صاحبِ نہج البلاغہ
ترا خطبہ فضا میں گونجتا ہے

ترے بچوں نے جیتا ہے جو میداں
اسی کا نام ارضِ کربلا ہے

نبیصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ضعف کو بخشی ہے قوت
تری چادر نبوت کی دوا ہے

جہاں بہہ جائے تیرا خون زہرا
وہاں کی خاک بھی خاک شفا ہے

عداوت اور بنتِ مصطفیٰصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
نہیں تیری، بزرگوں کی خطا ہے

کلیم طورِ مدح فاطمہ ہوں
مجھے اک مصحف زہرا ملا ہے
 
Top