کھیری

میاں وقاص

محفلین
افسانہ : کھیری
انتساب : عثمان جگت پوری کے نام
تح۔ری۔ر : لالہ صحرائی
تھیم / سرھانے منٹو کے آھستہ روئیو
۔

دیکھ پتر
کسی کی دھی بہن کی طرف کبھی آنکھ اٹھا کے نہیں دیکھا کرتے، تو میرا بیٹا اپنے دھیان سے آیا جایا کر اور چوھدری کرامت کے لڑکے سے ملنا جلنا بلکل چھوڑ دے، ھمارا ان لوگوں کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں بنتا

ھم ماٹھے لوگ ھیں پتر
سادگی اور عزت کی زندگی بڑی اچھی چیز ھے
ھمیں کیا لینا دینا اس چودھراھٹ اور اس دنیا کے ٹشن سے
ساری عمر ھم اپنی دو وقت کی روٹی کے ارد گرد زندگی گزار دیتے ھیں
تیرا ابا تو بہت ھی بیبا اور محنتی بندہ تھا، شرافت میں بھی بہت ھی ساؤ تھا، پتا نہیں کیوں نیک بندے اتنی جلدی واپس چلے جاتے ھیں

تو میرا کاکا بس ان شوخے لڑکوں کے ساتھ نہ پھرا کر، ان کی زندگی عیش کے گرد اور ھماری زندگی محنت کے گرد گھومتی ھے بیٹا، ھمارا ان کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں بنتا، یہ کرامت کا لڑکا اور اس کے ساتھ بیٹھنے والے لونڈے لپاڑے اچھے نہیں لگتے مجھے، یہ تجھے خراب نہ کردیں کہیں

دادا نے روٹی کھاتے ھوئے اشتیاق کو حسب معمول سمجھانا شروع کیا اور دین دنیا کی باتیں سمجھاتا ھی چلا گیا

اشتیاق کے جب کان پکنے لگتے تو ھمیشہ وہ دادا جی کا حقہ تازہ کرنے کے بہانے کھسک لیتا یا اتنے میں اسے محلے سے کسی کا آوازہ پڑ جاتا اور وہ باھر جانے کےلئے دادا کے گلے میں بازو ڈال کے کہتا

دادو جی، بس چوھدری کرامت کے لڑکے سے دوستی رکھ لینے دیں، وہ دل کا برا نہیں ھے، اس کا رشتے دار گنے کی مل میں بڑا افسر ھے، اس نے مجھے لارا لگا رکھا ھے کہ جب سیزن شروع ھوگا تو مجھے وھاں دفتر میں لگوا دے گا، وہ میٹرک پاس کو کلرک رکھ لیتے ھیں دادو
بس اسی لئے میں اس کے پاس بیٹھ جاتا ھوں باقی سب تو اس کے دوست ھیں، مجھے ان سے کیا لینا دینا، بس کام لگنے تک ذرا اس کے آس پاس رھنا پڑے گا

مہر دین مونجھ کی چارپائیاں بُنتے تھے، ایک دن ندی نالوں اور کھیتوں کے کناروں سے مونجھ کاٹ کے لاتے پھر اپنے ھاتھوں سے اس کا بان بٹتے، جب مال تیار ھو جاتا تو بان کی اٹیاں کُھرجی میں بھر کے سائیکل پر رکھتے اور چارپائیاں بُننے نکل جاتے، سارا سارا دن گلی کوچوں میں ھانکیں لگاتے، بس یہی ان کا روزگار تھا اور ساری عمر اسی دھندے میں گزری تھی

مونجھ کا بان اور چارپائیاں بُن بُن کے مہر دین کے ھاتھوں پر چانڈیاں پڑ چکی تھیں لیکن وہ اپنی محنت کی روکھی سوکھی کھاتے اور مٹکے کا ٹھنڈا پانی پی کر شکر کا کلمہ بلند رکھتے تھے

کچھ دادا کی محنت اور کچھ ھاجراں نے لوگوں کے کپڑے لتے سی پرو کر اشتیاق کو میٹرک کروا دیا تھا، میٹرک کرنے کے بعد مزدوری اس کے بس کا روگ نہیں رھا اور نوکری لینے کی اوقات نہیں تھی، نہ پلے کوئی پیسہ دھیلہ نہ کوئی تعلقات، اسی لئے وہ چوھدریوں کے لڑکوں میں اٹھتا بیٹھتا تھا تاکہ نوکری کا کوئی جگاڑ لگ جائے

ایک دن اشتیاق کی امید بر آئی، گنے کا سیزن شروع ھوا تو اسے چوھدری کی وساطت سے شوگر مل میں نوکری مل گئی

دادا جی
آج کے بعد آپ مونجھ کاٹنے نہیں جاؤ گے اور نہ ھی لوگوں کی چارپائیاں بُنو گے، اب اپنے بھی اچھے دن شروع ھو گئے ھیں دادو
اشتیاق نے گھر میں داخل ھوتے ھی اعلان کیا اور کلرکی ملنے کی خوشخبری سنائی

خبر سن کر لگتا تھا دادا کے چہرے سے جیسے بہت سا بوجھ اتر گیا ھو، ماتھے کی ساری شکنیں سیدھی ھو گئیں اور کمر کا جھکاؤ بھی کافی حد تک جاتا رھا، دادا نے ایکدم سے اپنے اندر جوانی کی رمق عودتی ھوئی محسوس کی

اب مونجھ کی چارپائیوں کی جگہ ستلی اور پلاسٹک کی رنگین ڈوری سے چارپائیاں بننے کا رواج ھوتا چلا جا رھا تھا جس سے نرم و ملائیم چارپائیاں بنتی تھیں ایسی کہ بے شک کوئی چارتہی بچھائے بغیر اس پر سکون کی نیند سے سو سکتا تھا، اکثر لوگ بازار سے سامان لا دیتے اور دادا کو صرف چارپائی بننے کی مزدوری ملتی، مونجھ کی قدر گھٹنے کے بعد دادا کی کمائی بھی دن بدن کم ھوتی چلی جا رھی تھی

دادا جب کام چھوڑنے پر راضی نہ ھوئے تو اشتیاق نے پہلی تنخواہ دادا کے ہاتھ پہ رکھ کے انہیں اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ مونجھ کاٹنے باٹنے کی بجائے بازاری ڈوری خرید لیں تاکہ کچھ محنت تو آپ کے سر سے ٹل جائے

اگلی تنخواہ پر اس نے زبردستی اپنی ماں کی مشین بیچ ڈالی لیکن اسے پتا تھا کہ ماں بھی نہیں مانے گی اس لئے وہ پہلے ھی دکاندار کے ساتھ بدلے کا سودا طے کر کے آیا تھا، اماں کا احتجاج شروع ھوا تو اگلے دن اس کو پاؤں والی نئی مشین لا کے دے دی تاکہ اس کی محنت بھی کچھ کم ھو جائے، وہ ھر ماہ اپنے لئے رنگ برنگے سوٹ بھی خرید کر لاتا اور ماں اسے خوشی خوشی سی کر دے دیتی

پھر ایک تنخواہ پر وہ بکری کے دو بچے لے آیا، روز شام کو نہا دھو کر نیا سوٹ پہن کے خوشبو لگا کے وہ باھر نکل جاتا اور پھر عشاء کے بعد کترے ھوئے چارے کی پنڈ اٹھائے گھر میں داخل ھوتا

کھانا کھا کر وہ لالٹین کی روشنی میں انگریزی کی کوئی نہ کوئی کتاب پڑھتے پڑھتے سو جاتا، کبھی وہ دادا کو انگریزی پڑھ کر سناتا اور دادا حیرانی سے اس کا منہ دیکھتے کہ اس سے پہلے تو طالب علمی کے دور میں بھی اسے کبھی اتنی انگریزی پڑھتے سنتے نہیں دیکھا تھا

وہ دادا کے سامنے اکثر اپنے افسر کی تعریفیں بھی کرتا کہ افسر نے کہا ھے تم سیزن ختم ھونے سے پہلے پہلے اپنی انگریزی اچھی کرلو تو سیزن کے اختتام پر تمھیں چھٹی کرانے کی بجائے سیلز برانچ میں شفٹ کر دوں گا تاکہ تمھاری نوکری پکی رھے

یہ سب کچھ دیکھ سن کر دادا جی خدا کا شکر بجا لاتے کہ برسوں کی محنت ور آئی ھے اور اس کا پوتا کسی اچھی جگہ نوکری کرنے کے لائق ھو گیا ھے، دادا کو جب انگریزی کی سدھ بدھ کچھ پلے نہ پڑھتی تو وہ اسے ڈھیروں دعائیں دے کر سونے چل دیتے

بکریوں کے بچے اب خود بکریاں بن چکے تھے، اشتیاق شام کو واپس آتا تو پہلے بکریوں پر نظر مارتا، بکریوں کے تھن تھل تھل کرتے دودھ سے بھرے ھوئے ھوتے، دادا واپس آ کر دیکھتے تو ھاجراں کو ھانک لگاتے، بیٹا پہلے دھار نکال لو اور کھیری پر تھیلا سی کے چڑھا دو، کسی کی نظر نہ لگ جائے، خدا کا شکر ھے اب ھمیں دودھ پینا نصیب ھوا ھے تو لوگوں کی نظر بد سے بچا کر رکھو

دادا اکثر و بیشتر ھاجراں کو یاد دلاتے کہ کھیری کو ڈھانپ کے رکھنا چاھئے، ھر کوئی نیک نگاہ نہیں ھوتا، بہتوں کی نظر کے ساتھ شیطان بندھا ھوتا ھے، ھر دیکھنے والے کی نگاہ اپنی حسرتوں کے آئینے میں دیکھتی ھے، اپنی نعمت اور عورت کو مستور رکھنا چاھئے ورنہ انہیں بیشتر گندی نظروں سے ھی پالا پڑتا ھے لیکن ھاجراں بیچاری گھر کے کام اور لوگوں کے کپڑے سینے پرونے میں یہ کام ھمیشہ ھی بھول جاتی تھی

اشتیاق کے معمولات کی کسی کو کچھ سمجھ نہیں آتی تھی، دادا اور اماں یہی سمجھتے تھے کہ غریب کے بچے کو جب اچھی نوکری ملی ھے تو کیوں نہ عیش کرے، چلو جو جی کرتا ھے کرتا رھے، بچے کو اپنی خوشی کرنے کا بھی حق ھونا چاھئے، نئے نئے کپڑوں اور خوشبوؤں کے سارے شوق اسی عمر میں ھی پیدا ھوتے ھیں پھر بال بچے میں پڑ کے کون اتنی عیاشی کر سکتا ھے بھلا

لیکن ایک دن دادا کو ساری کہانی سمجھ میں آگئی، اشتیاق کے سارے راز ایک ایک کر کے ان پر کھلتے چلے گئے

سیزن کے اختتام پر اسے سپلائی اینڈ سیلز برانچ میں شفٹ کر دیا گیا جہاں کام کی وجہ سے مسلسل وھیں رکنا تھا، صرف ویک اینڈ پر ھی گھر آنا تھا، چوھدری کا لڑکا شام کو یہ بتانے آیا کہ فکر نہ کریں، اشتیاق نے میرے گھر پہ فون کرکے یہ پیغام دیا ھے

گھر میں اک عجیب اداسی سی پھیلی ھوئی تھی، اگلے دن دادا بھی کام پر نہیں گئے اور اماں بھی رمکے رمکے مشین چلاتی رھی، وہ پہلی سی تیزی اماں کے مشین چلانے میں نہ تھی اور دادا کے حقہ گڑکنے میں بھی نہ تھی، پھر وہ گاھے گاھے آپس میں ایک دوسرے کو تسلی دیتے رھے کہ پانچ دن کی ھی تو بات ھے وہ ھفتہ اتوار تو ھمارے ساتھ ھی رھا کرے گا ناں مگر اماں کو اس کے کھانے پینے کی فکر ستائے جا رھی تھی تو دادا کو بھی اندر ھی اندر کسی حادثے یا پرائے لوگوں کے ساتھ رہ کر اس کے بگڑنے کا دھڑکا لگا ھوا تھا، نہ جانے کیسے لوگوں کے ساتھ رھے گا اور کیسی کیسی الٹی سیدھی مت سیکھے گا

وہ دن جیسے تیسے اُسل وٹے لیتے گزر گیا، اشتیاق کا لایا ھوا چارہ ختم ھو چکا تھا، شام ھوئی تو دادا کو بکریوں کا خیال آیا، یہ وھی وقت تھا جب اشتیاق پرنا اٹھا کے چارہ لینے جایا کرتا تھا، دادا نے مرغیوں والے کھڈے کے اوپر سے پلاسٹک کا پرنا اٹھایا اور چارہ لینے چل دیئے

ھاجراں نے فکر مندی سے آواز دی، ابا جی غلطی ھو گئی، لوئے لوئے جا کے چارہ لے آتے تو اچھا تھا اب اندھیرے میں کہیں ٹھڈا کھا کے گر گرا نہ جانا

میں ابھی اتنا بوڑھا نہیں ھوا بیٹا تو فکر نہ کر، یہ کہہ کر وہ ھنستے ھنستے گھر سے نکل گئے لیکن جب واپس آئے تو بہت بوڑھے ھو چکے تھے، ان کا چہرہ آنے والے وقت کے خوف سے زرد تھا اور ھونٹ سوکھے ھوئے تھے، وہ بار بار پانی پیتے اور ھاجراں بار بار پوچھتی، ابا جی کیا ھوا؟

آپ کہیں کوئی چوٹ کھا کر تو نہیں آئے، کہیں آپ کو کتے تو نہیں پڑ گئے، مگر دادا جی مری سی آواز میں ایک ھی جملہ کہتے، میں کہتا تھا ناں کھیری کو ڈھانپ کر رکھنا چاھئے، اپنی نعمت اور عورت کو مستور رکھنا بہت ضروری ھے پر میری کوئی سنتا ھی نہیں

اماں کو سخت پریشانی لاحق ھو گئی، نہ جانے دادا جی کا دماغ چل گیا یا کسی آسیب نے آ لیا ھے کہ سوال کچھ کرتی ھوں اور جواب کچھ دیتے ھیں

دادا جب مختارے کے ٹال پر پہنچے تو وھاں کچھ بھی نہیں تھا، دکان بند تھی، دادا سخت حیران تھے کہ اشتیاق روز اسی وقت آتا اور چارہ لے کر جاتا تھا، آج کیا ھوا، شائد مختارے کی طبیعت خراب ھو اس لئے آج جلدی بند کر گیا ھے

مختارے نے جانا کہاں تھا، ساتھ ھی اس کا گھر تھا، دادا نے سوچا چلو اس کی خیر خبر ھی پوچھ لوں، دادا نے دروازہ بجایا تو کسی نے درز سے جھانک کر پرنا دیکھا اور بڑی لوچدار آواز میں کہا، جانو دکان کی طرف سے آتے ناں، کب سے انتظار کر رھی ھوں تیرا

دادا چپکے سے دکان کے سامنے جا کھڑے ھوئے، مہہ جبیں نے وارفتگی سے دروازہ کھولا مگر کچھ کہتے کہتے رک گئی، اشتیاق کی جگہ دادا کو دیکھ کر اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا، اس نے ایک ھاتھ کھلے سر اور دوسرا سینے پر رکھا اور جھینپ کر ایک دم سے دروازے کی اوٹ میں چلی گئی، پھر سانسیں بحال کر کے پلٹی، شائد وہ سمجھ گئی تھی کہ اب منہ چھپانے سے مزید گڑ بڑ ھو سکتی ھے

اس نے سر پہ دوپٹہ اوڑھ کر دادا کو سلام کیا اور مدعا پوچھے بغیر پرنا ان کے ھاتھ سے لے کر ٹوکے کے سامنے بچھا دیا، چارے کا دتھہ پرنالے میں لگا کر وہ ٹوکہ چلانے ھی لگی تھی کہ اسے کچھ یاد آگیا، پھر اس نے اپنا رخ تبدیل کیا اور سیدھے ھاتھ کی بجائے الٹے ھاتھ سے ٹوکہ گھماتی رھی تاکہ سامنا دادا جی کی طرف نہ رھے

چارہ کتر کر اس نے پرنے کے چاروں پلو سیدھے کئے اور گرہ لگانے کےلئے جھک کر اپنی طرف کے دو پلو پکڑ لئے، اصولی طور پر سامنے والے دو پلو اشتیاق نے پکڑنے تھے جس کی جگہ اب دادا جی کھڑے تھے

دادا نے اپنی طرف کے پلو اٹھائے اور لڑکی کی طرف دیکھا جس کے چہرے کا جوبن کمرے کا اندھیرا مات کر رھا تھا، آنکھوں میں سرمے کے ڈورے اور کانوں کے ساتھ لمبے جھمکے چہرے کے نور پر ایسے نمایاں تھے جیسے سونے پر نگینہ، دادا کی نظریں اس کے چہرے پر ٹک نہ سکیں اور اس کی صراحی دار گردن سے پھسلتی ھوئی نیچے ھوتی گئیں، اس کا ڈیزائین دار کھلا گلہ اک اور قیامت کا دروازہ تھا جس کی گہرائی اس کی جوانی کا راز اگل اگل کر جتا رھی تھی، ایک گہری لکیر کے گرد حصار اٹھائے اس کا ماربل جیسا سفید شفاف سینہ کھلے گلے سے نکلوں نکلوں کر رھا تھا

دادا نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور پرنے کی لڑیں پکڑ کر بیٹھ گئے
تیرا ابا کہاں ھے کڑیئے؟

دادا جی وہ تو شام کو دکان بند کر دیتے ھیں پھر کوئی آ جائے تو مجھے ھی دیکھنا پڑتا ھے، ابا تھکے ھوئے ھوتے ھیں اس لئے، لڑکی نے ھچکچاتے ھوئے جواب دیا تو دادا نے دوسرا سوال داغ دیا

تمھیں اشتیاق پسند ھے؟
وہ اپنی غلطی پر دوبارہ چادر کا پلو ڈالنے لگی مگر اس کا کھلا گلہ گزرے دنوں کی کہانی کا راز اگل چکا تھا، وہ پرنے کو آخری گرہ لگا رھی تھی لیکن دادا کا سوال سن کر خاموش رھی

تم بتاؤ گی یا تمھارا گلہ ٹوکے میں دے کے کاٹ دوں تب بتاؤ گی؟
وہ پھر بھی خاموش رھی لیکن اس کا انگ انگ جواب میں ھاں ھاں چیخ رھا تھا

دادا نے پنڈ سر پہ اٹھائی اور واپس چل دیئے، سارے رستے وہ زخم خوردہ یہی سوچتے رھے کہ آخر وھی ھوا جس کا ڈر تھا، جتنا اس بچے کو سنبھال سنبھال کے رکھا تھا اتنا ھی یہ آگے تک کام دکھا گیا، چوھدریوں کے لڑکوں نے اسے بگاڑ کے رکھ دیا، یہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ دنیا کی ھوا اسے اتنی جلدی لگے گی

دادا جی اپنی چارپائی پر بیٹھے ایک عجیب ھیجانی کیفیت میں مبتلا تھے، وہ آنکھیں کھولتے تو بکریوں کی دودھ سے بھری کھیری پر نظر پڑتی، وہ آنکھیں بند کرتے تو ٹال والی کا گریبان پھاڑ کر امڈتا ھوا سینہ آنکھوں کے سامنے آ جاتا

اے ھاجراں…‍!
ھاجراں دادا جی کو دیکھ کر پہلے ھی پریشان تھی، آواز سن کر وہ دوڑی چلی آئی، ابا جی آپ کی گردن میں تو بل نہیں آ گیا جو اس طرح بے چین ھو کر سر کو جھٹک رھے ھیں؟

دیکھ پتر میری کوئی سنتا نہیں
ان بکریوں پہ ابھی تھیلا چڑھاؤ، آج کا کام کل پہ نہیں ڈالا کرو، جو چیز پردے میں رھنی چاھئے اسے پردے میں رکھنے سے کبھی غفلت مت برتو

بس ابا جی پرانے کپڑے کا تھیلا بنانے کو دل نہیں چاھا، یہی سوچتی رھی ھوں کسی کے سوٹ سے کپڑا بچ جائے تو بناؤں گی لیکن اب کل سویرے ھی دو میٹر کپڑا لاتی ھوں بس آپ فکر نہ کریں اتنی سی بات کےلئے آپ اتنے پریشان کیوں ھیں؟

دادا جی کو اگلی بات سمجھانے کےلئے کوئی سمجھ نہیں آ رھی تھی لیکن نئے کپڑوں سے انہیں موقع مل ھی گیا

اچھا یہ بتاؤ بیٹا
اپنے اشتیاق نے تم سے اب تک کتنے سوٹ اپنے دوست کی منگیتر کےلئے سلوائے ھیں؟

ھر مہینے ھی سلواتا ھے ابا جی

اس میں سنگترے رنگ کا بھی سوٹ تھا کوئی؟

جی ابا جی، وہ سارے سوٹ ھی شوخ رنگوں کے تھے، ھاجراں نے سوچتے ھوئے جواب دیا

ھم نے اس پر اعتبار کر کے بڑی غلطی کی ھے بیٹا، اسے عورت کا جوبن دیکھنے کا چسکا پڑ گیا ھے اور ایسی عورت اسے مل بھی گئی ھے، اس نے وہ سارے سوٹ اسی کے لئے بنوائے تھے، جب وہ تم سے بحث کرتا تھا کہ وہ بڑے شہر کی فیشن والی لڑکی ھے اسے کھلے گلے پسند ھیں تب بھی نہ تم سمجھی نہ میں، وہ سارے سوٹ اس نے مختارے کی لڑکی کو دیئے ھیں

یہ بڑے شہروں کے فیشن اچھے نہیں ھوتے بیٹا، یہ لوگ فیشن کی آڑ میں لڑکیوں کی شرم و حیاء کھرچتے ھیں اور کچھ نہیں، توبہ کرلو، آئیندہ کبھی کسی کو کھلے گلے کا سوٹ سی کر مت دینا، تمھارے ھاتھوں سے بھی اس لڑکے نے یہ جرم کروا کے دم لیا ھے، میں کہتا تھا ناں ڈھانپنے والی چیزوں کو فوراً ڈھانپ کے رکھا کرو، نعمتوں کو مستور رکھنا بہت ضروری ھے پر میری سنتا کون ھے؟

گھر میں مکمل خاموشی تھی، اماں نے بے دلی سے بکریوں کی دھار نکالی اور ایک پیالہ دودھ کے ساتھ دو ڈسپرین کی گولیاں دادا کو لا دیں

ابا جی میں تو کہتی ھوں اب لاڈ پیار چھوڑیں اس بار جیسے ھی گھر آتا ھے اس کو دبڑ کٹ لگا دیں، آپ نے ھی لاڈ پیار سے رکھا ھے، کبھی ڈانٹ پھٹکار بھی کر لیا کریں

دادا جی نے کھیس چہرے سے ھٹایا اور اٹھ کر بیٹھ گئے، بس کیا بتاؤں بیٹا، جوان لڑکے پہ ھاتھ نہیں اٹھانا چاھئے، میرے بچے کی ایک ھی ایک نشانی ھے لیکن سب سمجھانے والی باتیں پیار محبت سے سمجھاتا رھا ھوں مگر اب کیا کروں کچھ سمجھ نہیں آتی

دو گولیاں کھا کر دادا پھر کھیس تان کر لیٹ گئے، آدھے گھنٹے میں انہیں کھل کر پسینہ آگیا، وجود کچھ ھلکا ھوا تو ھاجراں کو پھر آواز دی

دیکھو بیٹا تم نے مختارے کی لڑکی تو دیکھی ھوئی ھے، اچھی لڑکی ھے اس کا شرم و حیا اسی نے کھرچا ھے تو اسی کے پلے باندھ دو، ایک دوسرے کو پسند بھی تو کرتے ھیں، صبح جا کے اس کا ھاتھ مانگ لاؤ

اشتیاق جب واپس آیا تو چارہ لانے کی ڈیوٹی اس نے واپس اپنے ھاتھ میں لےلی، دوپٹہ کیلی پہ لٹکا کے وہ اشتیاق کی طرف منہ کئے چارہ کتر رھی تھی اور اشتیاق اس کے جوبن کا زلزلہ دیکھ کر اپنی سانسیں سنبھالنے کی ناکام کوشش کر رھا تھا، چارہ پرنے میں اکٹھا کر کے جب وہ گرہ لگوانے کو جھکی تو اشتیاق نے کہا

جانو وعدہ کرو تم اسی طرح جھک کر آداب سلام کیا کرو گی، پانی کا گلاس اور روٹی کا چھابڑا بھی ایسے ھی دل میں اتر کر پیش کیا کرنا، میں نے تمھارے لئے دادا کے ھاتھوں بڑی کٹ کھائی ھے، دادا نے پوری ایک سوٹی میرے بدن کے اوپر توڑی ھے، زندگی میں پہلی بار پٹا ھوں وہ بھی تمھارے لئے لیکن منگنی کے بعد اس بات کا کوئی دکھ نہیں رھا، بس دکھ صرف اس بات کا ھے کہ دادا میری انگریزی کی کہانیاں ماسٹر جی کو دکھانے لے گئے تھے انہوں نے دادا کو صاف صاف بتا دیا کہ یہ تو نہائیت واھیات کہانیاں ھیں، بس یہاں بڑی شرمندگی اٹھانی پڑی ھے

بھلا اس میں میرا کیا قصور، وہ تو مینیجر نے کہا تھا اگر تم جلدی انگریزی سیکھنا چاھتے ھو تو پھر انگلش میں جذباتی قسم کی لو اسٹوریاں پڑھا کرو، دادا کو اب کون سمجھائے کہ دنیا میں ترقی کرنے کےلئے کیا کچھ سیکھنا پڑتا ھے، ھم نے اب ساری عمر بان تو باٹنا نہیں ھے، دنیا میں اور بھی بڑے کام ھیں جس میں راہ پانے کےلئے بندے کو اپنی شرم و حیا تھوڑی بہت تو کھرچنی ھی پڑتی ھے ورنہ گزارہ نہیں ھوتا، اگر مینیجر کے ساتھ مل کے میں تھوڑا بہت کمیشن نہ کھاتا تو یہ موٹر سائیکل کہاں سے لے پاتا

جیسی روح ویسے فرشتے، لڑکی اپنے محبوب کے ساتھ پوری طرح متفق تھی، اور اس کی کامیابیوں پر خوش بھی، نہ چاھتے ھوئے بھی اسے عشاء سے پہلے گھر پہنچنا تھا، یہی دادا جی کا حکم تھا، اشتیاق نے چارے کی گٹھڑی بائیک پر رکھی اور واپس ھو لیا

دادا جی اپنی زندگی میں بکری سے لیکر عورت تک سب کے پردے نبھاتے نبھاتے اپنی عمر گزار گئے، کاش وہ کچھ عرصہ اور زندہ رھتے تو انہیں پتا چلتا کہ اب اک سینہ ھی نہیں اس معاشرے کی جدید عورت کے سارے ھی خدوخال جینز اور سکن ٹائیٹ قسم کے لباسوں میں سے نکلوں نکلوں کرتے ھیں اور ان کے رنگ برنگے سینہ بند باریک قمیضوں میں سے راھگیروں کو جھانک رھے ھوتے ھیں کیونکہ شمیز پہننے والی پابند شرم و حیا عورتیں بھی کہیں مرکھپ گئی ھیں

اگر آج آپ زندہ ھوتے تو قسم ھے دادا جی تمھیں ککھ سمجھ نہ آتی کہ آج کے ماحول میں کس کی کھرچی ھوئی شرم و حیا کونسے اشتیاق کے پلے باندھنی ھے
 
Top