کھٹی میٹھی غزل

برادر

محفلین
ایک کھٹی میٹھی غزل

مشینی دور ہے اب تو زمانے رنگ بدلتے ہیں
جواں جاتے ہیں مسجدکوتو بابے فلرٹ کرتے ہیں

نہیں مانا جو شادی پر میری محبوبہ کا ا بّا
ٹکٹ لے کر مجھے بولی چلو اب بھاگ چلتے ہیں

کنوارے رہ کے پچھتانے سے اچھا ہے میرے یارو
کہ اک شوہر سا کہلا کے سدا پھر ہاتھ ملتے ہیں

بڑے بدبخت ہیں جو ڈائٹنگ کر کر کے مر جائیں
جو مرنا ہی مقدر ہے تو کچھ کھا پی کے مرتے ہیں

یہ کیا معیار باندھا ہے یہاں گندی سیاست نے
کہ توپوں کے دہانوں سے یہاں رہبر نکلتے ہیں

جو زیادہ لُوٹ کر کھائے بڑا لیڈر وہ کہلائے
دیانتدار لوگوں کو یہاں اُلّو سمجھتے ہیں

تجارت دین کی بھی خوب ہے بازارِ دنیا میں
مجاہد قوم کے میری مساجد میں گرجتے ہیں

غریبوں کی شہادت بھی یہاں پہ مرگِ کلبی ہے
اگرغدّار مر جائے شہادت نام دیتے ہیں

محبت کے چراغوں کو وفا کا تیل مت دینا
کہ اس مادّی زمانے میں یہ نوٹوں ہی سے جلتے ہیں

رضا دل کے پھپھولوں کو نہ دکھلاؤ زمانے کو
کہ بھروپِ طبیباں میں یہاں جلّاد بستے ہیں​
 
Top