کھُل جائے ہم پہ بھید جو اس کائنات کا - مقسط ندیم

فرخ منظور

لائبریرین
کھُل جائے ہم پہ بھید جو اس کائنات کا
ہوجائے ختم دہر میں مقصد حیات کا

کیا ڈھونڈتے ہیں جا کے ستاروں کے شہر میں
خود جن پہ انکشاف نہیں اپنی ذات کا

دیکھیں تو ہر ثواب پہ لالچ کا پیرہن
سوچیں تو ہر گناہ میں پہلو نجات کا

شبنم ہے توُ تو پھیل اسی وقت پھول پر
اب کون انتظار کرے آدھی رات کا

اِنساں ہیں ساری دنیا کے سب ایک سے ندیم
قائل نہیں میں نام و نسب، ذات پات کا
 

ظفری

لائبریرین
بہت خوب فرخ بھائی ۔ شکریہ کہ آپ نے اتنی خوبصورت غزل شئیر کی ۔

اور کیا ہی خوبصورت شعر ہے کہ :

کیا ڈھونڈتے ہیں جا کے ستاروں کے شہر میں
خود جن پہ انکشاف نہیں اپنی ذات کا

بہت خوب !
 

راہب

محفلین
کوئی ہے کوئی ہے ما بدولت حکم دیتے ہیں کہ اسی وقت سخنور کا منہ موتی چور کے لڈوں سے بھر دیا جائے
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ ظفری صاحب، سارہ خان، وارث اور راہب صاحبان - راہب صاحب میرا منہہ بھرنے کے لئے تو ایک ہی لڈو کافی ہے - :)
 

الف عین

لائبریرین
راہب۔ ایک لڈو ہی کیا، محض ایک عدد سفید شے کافی ہے!!
ویسے یہی غزل سب سے ہلکی لگی ہے مقسط کی، تعجب کہ سب سے زیادہ اس کی تعریف ہوئی ہے!!
 
Top