کاشفی

محفلین
غزل
(اشفاق حسین)
کھو جاؤں کہیں خلا میں جا کر
میرے لئے اب یہی دعا کر

اب خواہشِ سائباں نہیں ہے
لے جاؤ یہ آسماں اُٹھا کر

بے گھر کیا کتنی خواہشوں کو
اپنے لئے ایک گھر بنا کر

کاٹی ہے یہ فصل میں نے کیسی
خوابوں کے نگر پہ ہل چلا کر

دنیا کا یہی رہے گا عالم
دنیا کا بہت نہ غم کیا کر

مفہوم بدل گیا خوشی کا
اک شخص کا غم گلے لگا کر

میں غیر ہوں تیرے واسطے اب
اب مجھ سے تپاک سے ملا کر

ہے عمر کی پانچویں دَھَائی
کچھ کارِ جنوں کی ابتدا کر

کٹتی ہی نہیں ہے رات اشفاق
میں تھک گیا دل جلا جلا کر
 
Top