کچھ یوں بھی سوچا از قلم واصف

نیرنگ خیال

لائبریرین
سامان گاڑی کی ڈگی میں رکھ دواور فرنٹ سیٹ پر بیٹھ جاؤ۔ میں نے عارف سے کہااور خود ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا۔ عارف(جو کہ فقط دو دن قبل گھر کے کام کاج کے لیے رکھا ملازم تھا) سامان ڈگی میں رکھ کر میرے ساتھ آبیٹھا- عارف کا تعلق تو سکردو سے تھا لیکن فکر معاش اسے کھینچ کر جڑواں شہروں تک لے آئی تھی۔اور ایک مسافر خانہ اس کے سر چھپانے کی جا ٹھہرا تھا۔اور ہمارے ایک رشتہ دار کے گھر کام کرنے والی خاتون (جو کہ خود بھی سکردو سے تعلق رکھتی تھی) کے حوالہ سے ہمارے ہاں گھریلو کام کاج کی غرض سے آیا تھا-

دودن قبل جب عارف ہمارے ہاں آیا تھا تواس سے پہلی ملاقات میں جب ہم نے اس سے اس کے کام کاج تجربے کے بارے میں دریافت کیا تھا تو اس کے بقول اس کو گھر کے تمام کاموں پر عبور تھا اور وہ پہلے بھی اسلام آباد میں ایک جگہ بطور ہیلپر کام کر چکا تھا جہاں کچن کے تمام کام(کھانا پکانے کے علاوہ)، گھر کی صفائی، ڈسٹنگ، چائے بنانا اور باقی چھوٹے موٹے کام کرنا اس کا معمول تھا- اور ہماری ضرورت ایسے ہی تمام کاموں کے لئے کوئی ہیلپر رکھنے کی تھی اسی وجہ سے ہم نے اس کو اپنے ہاں ملازمت پر رکھ لیا تھا- مگرصرف ایک ہی گھنٹے میں یہ بات میرے گھر والوں پر عیاں ہو گئی کے عارف جھوٹ بول رہا ہے اور اس کو کوئی کام نہیں آتا- مگرمیں نے بزور اصرار اپنے گھر والوں سے اس کو موقع فراہم کرنے کی درخواست کی- مگر صورت حال سدھرتی نظر نہیں آ رہی تھی- عارف سے کوئی ایک کام بھی نہیں ہوہا تھا- گھر والے اس معاملے پر برہم تھے مگر میں اس سب صورت حال کی اصل وجہ جاننا چاہتا تھا-اورگھر سے بار بار فون پر عارف کو کام سے نکالنے کی خواہش کے باوجود میں نے گھر والوں کوایک دو دن صبر کرنے کا کہا اور یوں دو دن گزر گئے- اگلے دن بھی یہی ماجرا ہوا اور جب عارف سے کام نا بن پڑا تو میں نے سوچا کہ میں شام کو اس معاملے کو حل کرتا ہوں- شام کو گھر پہنچ کر میں سیدھا عارف کے کمرے میں چلا گیا اور ساری بات معلوم کی- عارف نے اس بات کا اقرار کیا کے اس کو کچھ زیادہ کام پر عبور نہیں ہے - میں نے اس کو اپنی مجبوری بتائی کہ ہم دونوں (میں اور میریاہلیہ ) ورکنگ ہیں اور والدہ ضعیف ہیں اس لئے ہمیں ایک ماہر کام کرنے والے کی ضرورت ہے اور ہم تمھیں مزید نہیں رکھ سکتے- عارف اس بات پر راضی تھا اور کہنے لگا جی آپ کا مسئلہ درست ہے آپ کے بچے چھوٹے ہیں بہتر ہو گا کہ آپ کو کوئی ماہر کام کرنے والا مل جائے- عارف میری مجبوری سمجھ رہا تھا اور کچھ مزید باتیں کرنے کے بعد میں نے اس سے کہا کہ جاؤ اپنا سامان باندھ لو میں تمھیں مسافر خانہ تک چھوڑ آتا ہوں اور دو دن کے کام کا جو حساب بنتا ہے وہ بھی دے دیتا ہوں- عارف نے کہا جی ٹھیک ہے اور اپنا سامان اکٹھا کرنے چلا گیا-

یہ لمحہ میرے لئے بہت تکلیف دہ تھا، کیونکہ جو وجہ میں عارف کے اس تمام رویہ سے اخذ کر پایا تھا وہ اس کی ڈیڑھ سالہ بیٹی اور اس کی بیوی تھیں جو کہ سکردو میں ہی مقیم تھیں جن سی ملنے عارف سال میں ایک ہی دفعہ جا پاتا تھا کیونکہ سکردو آنے جانے کا خرچہ ہی تین سے چار ہزار روپے تھا اور عارف محض آٹھ سے دس ہزار روپے ماہوار کما پاتا تھا جس میں سے عارف ایک سے دو ہزار روپے سگریٹ نوشی پر خرچ کر دیتا تھا اور جو کچھ بچتا تھا وہ عارف گھر بھیج دیتا تھا- یہ تمام باتیں عارف سے معمولی بات چیت میں اس نے مجھے بتائی تھیں-

میں عارف کو گاڑی میں لیے مسافر خانے کی طرف جا رہا تھا اور وہ چند کلو میٹر کا سفر میرے لیئے کسی لا متناہی سفر سے کم نہ تھا- کئی کلو میٹر جانے کے بعد بھی مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے چند قدم ہی چلا ہوں- میں دل ہی دل میں عارف کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کی بچی کا کیا ہو گا، خود سے سوال کر رہا تھا کی کہیں میں اس کے ساتھ نا انصافی تو نہیں کر رہا- یہ کھانا کہاں سے کھائے گااور ایسے ہی بے شمار سوال ذہن میں گردش کر رہے تھے- بیچ بیچ میں،میں عارف سے بھی باتیں کر رہا تھا یہ جاننے کے لئے کی کہیں وہ دل برداشتہ تو نہیں - اس کی منزل قریب آ رہی تھی اور میرا دل بھاری ہو رہا تھا- میں نے عارف کو مسافر خانے کا پاس اتار دیا، اور جوکچھ مالی ودیگر امداد میں اس کی کر سکتا تھا وہ کر دی- خدا حافظ کہہ کرمیں وہاں سے چل پڑا اوربے شمار باتوں نے میری سوچ کا گھیراؤ کر لیا-

چند ماہ قبل بہت سی کمپنیاں خام تیل کے بحران کی وجہ سے متاثر ہوئی تھیں اور بہت سے ملازمین کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا تھا اور میرے کئی دوست احباب بھی اس عمل سے اثر انداز ہوئے تھے- اب عارف کو ملازمت سے نکالنے کے بعد میں ملازمت سے نکالے جانے والے عمل کوبہت زیادہ محسوس کر رہا تھا- مجھے یہ احساس ہو رہا تھا کی کسی کو ملازمت سے نکالنا کسی کو ملازمت دینے سے زیادہ مشکل کام ہے- میں یہ سوچ رہا تھا کہ کیا جب کمپنیاں لوگوں کو ملازمت سے نکالتی ہیں تو کیا وہ بھی کچھ ایسا سوچتی ہیں جیسا میں عارف کو رخصت کرتے وقت سوچ رہا تھا- کرتی بھی ہیں اور نہیں بھی، میرے لا شعور سے جواب آ رہا تھا- یہ جواب ضرور کچھ حقائق پر منحصر تھا کیونکہ میں نے کچھ لوگ ایسے دیکھے تھے جن پر ملازمت سے رخصت کے وقت خصوصی شفقت برسائی گئی تھی اور کچھ ایسے بھی تھے جو اپنے حق سے بھی محروم تھے- اب میں نے مزید سوچا کہ ایسا کوئی کیونکر کرے گا؟ یا کیا وجہ تھی جو مجھے عارف سے فقط دو دن کے رشتے( وہ بھی جس میں میری اس سے ملاقات چند گھنٹوں سے زیادہ نہ تھی ) کے باوجود مجھے اس کی تکلیف محسوس ہو رہی تھی- مجھے رہ رہ کر اس کے گھر والوں کا خیال آ رہا تھا-کیا فرق تھا مجھ میں اور ایک کمپنی کے مالک میں جو کھڑے کھڑے سو سو لوگوں کو ملازمت سے نکال دیتا ہے- کافی غور و فکر کے بعد مجھے اس کی وجہ سمجھ آ گئی-وجہ ہے ملازم اور مالک کے درمیان تعلق- گھریلو ملازمین سے روز کا ٹاکرا ہوتا ہے ان کی اچھی بری عادات سے واقفیت ہوتی ہے ملازمین کی گھریلوضروریات سے آگاہی ہوتی ہے- اپنے سامنے کام کرتا دیکھ کرملازم کی تھکن کا احساس ہوتا ہے- جبکہ کارپوریٹ کلچر نے دیگر اصطلاحات متعارف کروا کر انسان کا انسان سے جو رشتہ ہونا چاہئے اس کو پس پردہ ڈال دیا ہے – مختلف نام نہاد ڈیپارٹمنٹ جو انسانوں کے حقوق کے علم بردار ہوتے ہیں وہ اپنی عیش و عشرت اورمالکان کی نظر کرم حاصل کرنے کی وجہ سے مالکان کو حقائق سے دور رکھتے ہیں- اور اس امر کو جدید اصطلاح میں ڈیلیگیشن آف پاور کا نام دیا جاتا ہے- کسی کمپنی کے مالک کو اس کی کمپنی میں کام کرنے والے دس سے پندرہ لوگوں کے علاوہ کسی کا نام تک معلوم نہیں ہوتا گھریلو مسائل سے آگاہی تو بہت دور کی بات ہے – یوں جب کسی کی ملازمت ختم کرنے کا وقت آتا ہے تو درد صرف اسی کے لئے محسوس ہوتا ہے جس سے رابطہ ہو، جس کے حال احوال سے واقفیت ہو-جس کی کمائی اور اخراجات سے آگاہی ہو- اگر مجھے عارف کے یہ سب حقائق معلوم نہ ہوتے تو شائد مجھے بھی اس سے ہمدردی نہ ہوتی-

انسان کے اندر جو اللہ تعالی نے انسانیت سے ہمدردی انسان کے اصل میں رکھی ہے اس کودیگر سوشل نیٹورکنگ سسٹم و دیگر ادارتی سسٹم متعارف کروا کر دھوکا دیا جا رہا ہے- اگر کسی انسان کو دوسرےانسان کے مسائل سے آگاہے ہو تو وہ تلخ فیصلے انتہائی مجبور ہو کر ہی کر سکتا ہے-ہمیں چاہئے کہ اپنے آس پاس موجود لوگوں سے ہمدردی کریں جو روزمرہ زندگی میں ہمارے بیشتر مسائل حل کرتے ہیں بلا واسطہ یا بلواسطہ ہمیں ان کا احساس ہونا چاہئے اور ان کے مسائل سے آگاہی ہماری ذمہ داری ہونی چاہئے-
 
Top