حزیں صدیقی کچھ چمن کی خبر نہیں آتی

مہ جبین

محفلین
کچھ چمن کی خبر نہیں آتی
اب صبا بھی اِدھر نہیں آتی

سانس کوئی نہ رائیگاں جائے
زندگی لوٹ کر نہیں آتی

ایک رستہ ہے جس سے منزل تک
ساتھ گردِ سفر نہیں آتی

ہر گھڑی آدمی رہے تیار
وہ گھڑی پوچھ کر نہیں آتی

اب یہ صورت ہے آئینے میں بھی
اپنی صورت نظر نہیں آتی

بعض اوقات سامنے کی چیز
ڈھونڈتے ہیں نظر نہیں آتی

وہ تجلی ہے چار سوُ لیکن
ہر نظر کو نظر نہیں آتی

ہوگئے شب سے اس قدر مانوس
یاد بھی اب سحر نہیں آتی

جاؤ اوپر تو چاند سے کہنا
چاندنی میرے گھر نہیں آتی

حزیں صدیقی
 
Top