ناسخ کچھ عدم کا بھی خیال اے دل تجھے یاں چاہیے - امام بخش ناسخ

حسان خان

لائبریرین
کچھ عدم کا بھی خیال اے دل تجھے یاں چاہیے
گو عزیزِ مصر ہے پر یادِ کنعاں چاہیے
کوچۂ دلدار کی حسرت میں رونے کے لیے
پاؤں کو اب آبلے کی چشمِ گریاں چاہیے
حشر برپا کر رہی ہے ناقۂ لیلیٰ کی چال
صورِ اسرافیل اب جائے حدی خواں چاہیے
چاک رکھتا ہوں جو وحشت میں گریباں مثلِ صبح
اک پری رو غیرتِ خورشیدِ تاباں چاہیے
غل مری زنجیر کا پہونچا تو وہ کہنے لگا
خانۂ زنجیر کو بھی اب نگہباں چاہیے
میرے غل میں رو کے عالم کو کرے گا اب وہ قتل
اشک کیسی ناوکِ مژگاں کو پیکاں چاہیے
ہوں وہ مجنوں عہدِ طفلی میں مجھے کہتے تھے لوگ
گوشۂ زنداں اسے جائے دبستاں چاہیے
استلامِ سنگِ اسود سے مجھے کیا زاہدا
بوسۂ خالِ تہِ ابروئے جاناں چاہیے
دمبدم کہتی ہے میری کشتیِ عمرِ رواں
مجھ کو آبِ خنجرِ قاتل کا طوفاں چاہیے
آ گیا پیری میں اُس کے بوسۂ لب کا خیال
ہونٹھ کاٹوں کس طرح حسرت سے دنداں چاہیے
پنجۂ خورشید کو کافی ہے اک جیبِ سحر
روز یاں دستِ جنوں کو سو گریباں چاہیے
حسرتِ نظارۂ زلفِ پریشاں دل میں ہے
بہرِ تسکیں گور میں کچھ مارِ پیچاں چاہیے
عمر گذری روتے روتے ہنس بھی لوں اب جی میں ہے
میرے منہ پر کوئی قاتل زخمِ خنداں چاہیے
سنگریزے لے چلوں چن چن کے بہرِ کودکاں
عاریت اے کوہ مجھ وحشی کو داماں چاہیے
روحِ سعدی ہو گئی ہو گی خوشی سے باغ باغ
آج پڑھنے کے لیے اُس کو گلستاں چاہیے
طالبِ دنیا مونث ہیں بھلا کیا اُن سے کام
مرد ہے ناسخ تو عشقِ شاہِ مرداں چاہیے
(امام بخش ناسخ)
 
Top