کچھ ستارے جگمگانے کے لیے موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثروت حسین

فلک شیر

محفلین
آدمی کو رہ دکھانے کے یے موجود ہیں
کچھ ستارے جگمگانے کے لیے موجود ہیں
ابر، دیواریں ، سمندر اور نادیدہ افق
رہرووں کو آزمانے کے لیے موجود ہیں
کیوں گرفتہ دل نظر آتی ہے اے شامِ فراق
ہم جو تیرے ناز اُٹھانے کے لیے موجود ہیں
دیکھتا رہتا ہوں اشیاے تصرف کی طرف
یہ کھلونے ٹوٹ جانے کے لیے موجود ہیں
پیشِ پا افتادہ قریے، سربرآوردہ شجر
سو بہانے دل لگانے کے لیے موجود ہیں
کون کر سکتا ہے ایسے میں کسی دریا کا رُخ
جب وہ آنکھیں ڈوب جانے کے لیے موجود ہیں
میں درختوں سے مخاطب ہوں خدائے عز و جل
جو زمیں پر سر اُٹھانے کے لیے موجود ہیں
ثروت حسین
 
میرے خلوص کی گہرائی سے نہیں ملتے
یہ جھوٹے لوگ ہیں سچائی سے نہیں ملتے

وہ سب سے ملتے ہوئے ہم سے ملنے آتا ہے
ہم اس طرح کسی ہرجائی سے نہیں ملتے

پُرانے زخم ہیں کافی ، شمار کرنے کو
سو، اب کِسی بھی شناسائی سے نہیں ملتے
 

طارق شاہ

محفلین

کیوں گرفتہ دِل نظر آتی ہے، اے شامِ فِراق
!
ہم جو تیرے ناز اُٹھانے کے لیے موجود ہیں

کون کر سکتا ہے، ایسے میں کسی دریا کا رُخ
جب وہ آنکھیں ڈوب جانے کے لیے موجود ہیں

کیا کہنے !:)
 
Top