کون و مکاں میں قید۔۔!

ملک حبیب

محفلین
ایک تازہ غزل صاحبان ذوق کی نذر

دونوں ہیں بیکرانئ کون و مکاں میں قید
دل قید میں زمیں کی خیال آسماں میں قید

رہتے ہیں اب تو آنکھ میں آنسو کچھ اس طرح
تاروں کا سلسلہ ہو کسی کہکشاں میں قید

آنکھوں میں میری دیکھ کے بتلائیے ذرا
تصویر کس حَسین کی ہے اس مکاں میں قید

لازم ہے غَم کے واسطے خونِ جگر حضور
موجوں کا اضطراب ہے بحرِ رواں میں قید

تیری ہی جستجو رہے بعد از وصال بھی
اتنی سی آرزو ہے دِلِ ناتواں میں قید

بس ایک تیرا نام ہے اے جانِ عاشقاں
میرے یقیں پہ نقش تو میرے گُماں میں قید

دنیا کے کام کاج سے آزاد ہو گیا
جب سے ہوا ہوں عشق کے اس امتحاں میں قید

ممکن ہے بھول جائے زمانہ مجھے حبیب
رہتا ہے کون یاد کے اُجڑے مکاں میں قید

کلام ملک حبیب
 
Top