مجید امجد کون دیس گیو ۔ ۔ ۔ ۔از مجید امجد

فرخ منظور

لائبریرین
گیت

کون دیس گیو ۔ ۔ ۔ ۔


کون دیس گیو ۔ ۔ ۔ ۔

نیناں،
کون دیس گیو ۔ ۔ ۔ ۔
رُت آئے، رُت جائے، مہاری عمر کٹے رو رو
کجرا رے، متوارے نیناں، کون دیس گیو

دیکھتے دیکھتے اس نگری میں چاروں اور نُور بہا

ایک گزرتی رتھ سے چھلکا امڈ کے جوبن، اہا، اہا
راہ راہ پہ پلک پلک نے سیس نوا کے کہا:
"بانوری لہرو
رس کے شہرو
نینو، ٹھہرو، ٹھہرو!
چھین نہ لو ان ہنستے جُگوں سے سُکھ کا
سانس اِک رہا سہا"

دھول اڑی اور پھول گرے

لمحے، خوشبوئیں، جھونکے
اُبھرے، پھیلے، گئے گئے
ایدھر دیکھیں، اودھر دیکھیں، دل کے سنگ نہ کو
کون دیس گیو
کجرا رے، متوارے نیناں، کون دیس گیو

اب ان تپتے ویرانوں میں

کانٹے چن چن پور دُکھیں
جانے تم کس پھول بھوم میں جھوم جھوم ہنسو
کون دیس گیو
کجرا رے او، متوارے او، نیناں
کون دیس گیو

(مجید امجد)


1953ع
 

فاتح

لائبریرین
بہت شکریہ جناب گو کہ ہماری طبعِ بد ذوق پر گیت پڑھنے کی بجائے سننا زیادہ بھلا محسوس ہوتا ہے۔:)
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ جناب گو کہ ہماری طبعِ بد ذوق پر گیت پڑھنے کی بجائے سننا زیادہ بھلا محسوس ہوتا ہے۔:)

شکریہ فاتح صاحب! مجھے بھی گیت پڑھنا بالکل پسند نہیں۔ لیکن مجید امجد کا یہ رُخ بھی متعارف کروانا چاہ رہا تھا اور گیت بھی اچھا تھا۔
 
Top