کونٹریکٹ، اظہر م کے قلم سے

کونٹریکٹ

عجیب دنیا ہے یہ، میں یہاں آ تو گیا ہوں پر جتنے حسین خواب میں دیکھا کرتا تھا یہاں کے بارے میں وہ سب چکنا چور ہو چکے ہیں۔ چار لاکھ روپے دئیے تھے میں نے ایجنٹ کو جس میں سے دولاکھ بیس ہزار کفیل کے تھے، جس نے مجھے دبئی کا ویزہ عطا کیا تھا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ یہاں پہنچنا ہی اصل کام ہے، نوکریاں تو پیڑوں پر اُگتی ہیں۔ جہاں سے دل کیا توڑ لوں گا۔ پر ایسا کچھ نہیں ہے۔
تین مہینے گزر چکے ہیں یہاں آئے ہوئے، روزگار کا دور دور نامُ نشان بھی نہیں ہے۔ جو پیسے ساتھ لایا تھا، کب کے خرچ کر چکا ہوں، گھر فون تک کرنے کو پیسے نہیں ہیں۔ ماں نے سارا زیور مجھے دے دیا تھا، اس امید پر کہ میں یہاں سے کما کر کچھ بھیجوں گا، لیکن یہاں تو میں خود اپنا خرچ اُٹھا نہیں پا رہا، اُسے کیا بھیجوں؟
حالت یہ ہے کہ آج صبح کامران مجھے دیکھتے ہی راستہ بدل گیا ، شائد اُسے پتہ تھا کہ میں پیسے مانگوں گا۔ رشتہ داری کی بھی آخر ایک حد ہوتی ہے۔ اور وہ حد گزر چکی۔
بر دبئی کا کشتی سٹینڈ ہے یہ جہاں میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ خواب صرف خواب ہوتے ہیں اور جب تک خواب ہوتے ہیں سہانے لگتے ہیں ۔ حقیقتیں صرف تلخ ہوتی ہیں، خاص کر ہم جیسے لوگوں کے لئے۔ اپنا وطن پھر بھی کافی بہتر تھا، یہاں تو عجیب حال ہے کہ نوکری کرنا مردوں کے لئے انتہائی مشکل ہے اور عورتیں جب چاہیں ملازمت حاصل کر لیتی ہیں۔
پہلا انٹرویو دینے جب میں پہنچا تو مہندس کی آسامی کے لئے تھا اور میرا سی وی ہر لحاظ سے مطابقت رکھتا تھا اُس آسامی کے لوازمات سے۔ انٹرویو بہت اچھا ہوا تھا اور مدیر نے مجھے باہر انتظار کرنے کو کہا تو میں سمجھا کہ کہ بس پالا مار لیا ہے اور کونٹریکٹ ہاتھ آیا کہ آیا۔ بس دو امیدواروں کی دوری تھی ایک لڑکی اور ایک لڑکا۔ لڑکی کو بلا لیا گیا تھا اور میں بیچ میں حائل شیشے کی بڑی سی کھڑکی سے اُن دونوں کو دیکھ سکتا تھا۔ دل ہی دل میں دعائیں مانگنا شروع کر دیں میں نے اور جتنی یاد تھیں سبھی مانگیں۔ میں نے اُس لڑکی کو دو تین بار کھڑے ہو کر میز پر جھک کے مدیر کو کچھ سمجھاتے دیکھا، شائد وہ اپنے سی وی کی وضاحتیں دے رہی تھی۔ جیسے ہی وہ باہر آئی سیکرٹری نے فون سُن کر مجھے اور دوسرے لڑکے کو بلایا اور کہا کہ آپ لوگ جا سکتے ہیں۔ کونٹریکٹ عطا ہو چکا۔ میں منہ لٹکا کر چلا آیا۔
اُس کے بعد بھی دو انٹرویو ہوئے لیکن وہاں مجھ سے زیادہ تجربہ کار افراد کے آ جانے کی وجہ سے میری دال نہ گل سکی۔ اب تک اور کچھ ہوا تھا یا نہیں ہوا تھا لیکن میں یہ دھکے کھاتے ہوئے اچھی خاصی عربی بولنے اور سمجھنے بھی لگا تھا
گزشتہ ماہ تو کامران کی کمپنی میں ایک آسامی نکل آئی تھی اور اُس نے اپنے مدیر سے بات بھی کر لی کہ وہ مجھے ہی رکھے گا۔ میں حسب معمول وقت سے پہلے وہاں موجود تھا۔ یہ ایک بہت بڑی بلڈنگ تھی جس کے سب سے اوپر والے فلور پر انٹرویو تھا۔ میں لفٹ میں سوار ہوا تو بند ہوتے ہوتے لفٹ کو بیچ میں دو نازک سے ہاتھوں نے روک دیا، لفٹ کا دروازہ پورا کھل گیا۔ وہ دو بہت خوبصورت لڑکیاں تھیں، دونوں اندر آ گئیں۔ لفٹ چلی تو ایک نے دوسری سے کچھ کہا عربی میں جو میں سمجھ نہ سکا ، دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔ پھر پہلی نے دوسرے سے اتنا کہا کہ کپڑے ٹھیک کرو انٹرویو ہے، خیال کرنا۔ یہ دوسری والی منی اسکرٹ میں ملبوس تھی۔ پھر اُس نے جو حرکت کی بیان سے باہر ہے، وہ دونوں شائد مجھے فراموش ہی کر چکی تھیں۔ اوپر پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ لڑکی بھی اُسی آسامی کے لئے وہاں آئی ہوئی تھی۔ یہاں بھی آفس کے بیچ میں بڑی کھڑکی موجود تھی اور منظر دیکھا جا سکتا تھا۔ وہ لڑکی مجھ سے پہلے انٹرویو کے لئے بلائی گئی اور کافی طویل گُفتگو ہوئی اُس کی مدیر کے ساتھ۔ اس بیچ مدیر کا قلم تین بار زمین پر گرا اور اُس نے اُٹھایا بھی یہ الگ بات کہ ڈھونڈنے میں وقت کافی لگتا رہا۔ جیسے ہی وہ باہر آئی تو ہم تین لوگ جو باہر بیٹھے تھے اُنہیں یہ کہ کر فارغ کر دیا گیا کہ آسامی پُر ہو چکی اور کونٹریکٹ عطا ہو چکا۔
اور اس ماہ بھی تو دو انٹرویوز میں وہی ہوا کہ ملازمت لڑکیوں کو عطا کر دی گئی، پر اب مجھ میں حوصلہ نہیں کہ سب کا احوال لکھ پاؤں، کتنی خبیث ہیں نا یہ لڑکیاں ، ہم مردوں کی نوکریوں کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں۔ پیٹ میں دوڑتے بلی چوہوں کی کھرونچوں سے تنگ آ کر میں سوچ رہا ہوں ۔ بلکہ پتہ نہیں کیا کیا سوچ رہا ہوں۔ میرا دل کر رہا ہے کہ کسی ہوٹل میں جا بیٹھوں اور کھانا کھاؤں ڈٹ کے اور پھر اُسے کہوں کہ مجھے شرطہ کے حوالے کر دے۔ آگے جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ ایک خیال یہ آتا ہے کہ کسے راہ گیر سے اپنی مشکل بیان کروں شائد ترس کھا کر کچھ پیسے دے دے تو پیٹ گی آگ تو بجھے۔ واپس کمرے میں بھی نہیں جا سکتا اُس کا کرایہ جو نہیں دے سکا ہوں ، کیا کروں ؟ کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔
رُکئے شائد کوئی مجھے بلا رہا ہے، ارے ہاں یہ مرسیڈیز جو قریب میں کھڑی ہے اُس میں وہ ادھیڑ عمر کی خاتوں میری طرف ہی اشارہ کر رہی ہیں۔ میں آتا ہوں۔
جی مادام ؟
بھوکے ہو؟ ملازمت نہیں ہے؟ عربی میں پوچھا گیا
ہاں
کونٹریکٹ چاہئے، ہونٹوں پہ اُنگلی رکھ کے پوچھا گیا
ہاں
اب میں اور لکھ نہیں پاؤں گا، کہ مجھے کونٹریکٹ سائین کرنا ہے اور میں مرسیڈیز کی جانب جا رہا ہوں
 

شوکت پرویز

محفلین
بہت جذباتی تحریر ہے اظہر بھائی !
آپ نثر بھی بہت اچھی لکھتے ہیں۔ اور جس گہرائی سے آپ نے CV میں وضاحتوں والی بات، اور پین گرنے والی بات، اور وہ آخری کانٹریکٹ وال بات کہی ہے، یہ بہت ہی تلخ حقیقت ہے۔۔۔
۔۔۔
ویسے لوگوں کو بیرون ملک جانے سے پہلے اچھی سے تحقیق کر لینی چاہئے، اس سے ایسے واقعات کچھ کم تو ضرور ہو سکتے ہیں۔
 
بہت خوبصورت تحریر ہے محمد اظہر نذیر بھائی۔ کچھ ٹائیپوز ہیں جن پر ہماری صلاح ملاحظہ فرمائیے

کونٹریکٹ

عجیب دنیا ہے یہ، میں یہاں آ تو گیا ہوں پر لیکن جتنے حسین خواب میں دیکھا کرتا تھا یہاں کے بارے میں وہ سب چکنا چور ہو چکے ہیں۔ چار لاکھ روپے دئیے تھے میں نے ایجنٹ کو جس میں سے دولاکھ بیس ہزار کفیل کے تھے، جس نے مجھے دبئی کا ویزہ عطا کیا تھا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ یہاں پہنچنا ہی اصل کام ہے، نوکریاں تو پیڑوں پر اُگتی ہیں۔ جہاں سے دل کیا چاہا توڑ لوں گا۔ پر ایسا کچھ نہیں ہے لیکن یہ سب خواب تھا۔
تین مہینے گزر چکے ہیں یہاں آئے ہوئے، روزگار کا دور دور نام و نشان بھی تک نہیں ہے۔ جو پیسے ساتھ لایا تھا، کب کے خرچ کر چکا ہوں، گھر فون تک کرنے کو پیسے نہیں ہیں۔ ماں نے سارا زیور مجھے دے دیا تھا، اس امید پر کہ میں یہاں سے کما کر کچھ بھیجوں گا، لیکن یہاں تو میں خود اپنا خرچ اُٹھا نہیں پا رہا، اُسے کیا بھیجوں؟

حالت یہ ہے کہ آج صبح کامران مجھے دیکھتے ہی راستہ بدل گیا ، شائد اُسے پتہ تھا کہ میں پیسے مانگوں گا۔ رشتہ داری کی بھی آخر ایک حد ہوتی ہے۔ اور وہ حد گزر چکی۔

بر دبئی کا کشتی سٹینڈ ہے یہ جہاں میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ خواب صرف خواب ہوتے ہیں اور جب تک خواب ہوتے ہیں سہانے لگتے ہیں ۔ حقیقتیں صرف تلخ ہوتی ہیں، خاص کر طور پر ہم جیسے لوگوں کے لئے۔ اپنا وطن پھر بھی کافی بہتر تھا، یہاں تو عجیب حال ہے کہ نوکری کرنا مردوں کے لئے انتہائی مشکل ہے اور عورتیں جب چاہیں ملازمت حاصل کر لیتی ہیں۔

پہلا انٹرویو دینے جب میں پہنچا تو مہندس کی آسامی کے لئے تھا اور میرا سی وی ہر لحاظ سے اُس آسامی کے لوازمات سےمطابقت رکھتا تھا۔ انٹرویو بہت اچھا ہوا تھا اور مدیر نے مجھے باہر انتظار کرنے کو کہا تو میں سمجھا کہ کہ بس پالا مار لیا ہے اور کونٹریکٹ ہاتھ آیا کہ آیا۔ بس دو امیدواروں کی دوری تھی ایک لڑکی اور ایک لڑکا۔ لڑکی کو بلا لیا گیا تھا اور میں بیچ میں حائل شیشے کی بڑی سی کھڑکی سے اُن دونوں کو دیکھ سکتا تھا۔ دل ہی دل میں دعائیں مانگنا شروع کر دیں میں نے اور جتنی یاد تھیں سبھی مانگیں۔ میں نے اُس لڑکی کو دو تین بار کھڑے ہو کر میز پر جھک کے کرمدیر کو کچھ سمجھاتے دیکھا، شائد وہ اپنے سی وی کی وضاحتیں دے رہی تھی۔ جیسے ہی وہ باہر آئی سیکرٹری نے فون سُن کر مجھے اور دوسرے لڑکے کو بلایا اور کہا کہ آپ لوگ جا سکتے ہیں۔ کونٹریکٹ عطا ہو چکا۔ میں منہ لٹکا کر چلا آیا۔

اُس کے بعد بھی دو انٹرویو ہوئے لیکن وہاں مجھ سے زیادہ تجربہ کار افراد کے آ جانے کی وجہ سے میری دال نہ گل سکی۔ اب تک اور جو کچھ بھی ہوا تھا یا نہیں ہوا تھا ہو، لیکن میں یہ دھکے کھاتے ہوئے اچھی خاصی عربی بولنے اور سمجھنے بھی لگا تھا۔

گزشتہ ماہ تو کامران کی کمپنی میں ایک آسامی نکل آئی تھی اور اُس نے اپنے مدیر سے بات بھی کر لی کہ وہ مجھے ہی رکھے گا۔ میں حسب معمول وقت سے پہلے وہاں موجود تھا۔ یہ ایک بہت بڑی بلڈنگ تھی جس کے سب سے اوپر والے فلور پر انٹرویو تھا۔ میں لفٹ میں سوار ہوا تو بند ہوتے ہوتے لفٹ کو بیچ میں دو نازک سے ہاتھوں نے روک دیا، لفٹ کا دروازہ پورا کھل گیا۔ وہ دو بہت خوبصورت لڑکیاں تھیں، دونوں اندر آ گئیں۔ لفٹ چلی تو ایک نے دوسری سے کچھ کہا عربی میں جو میں سمجھ نہ سکا ، دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔ پھر پہلی نے دوسری سے اتنا کہا کہ کپڑے ٹھیک کرو انٹرویو ہے، خیال کرنا۔ یہ دوسری والی منی اسکرٹ میں ملبوس تھی۔ پھر اُس نے جو حرکت کی بیان سے باہر ہے، وہ دونوں شائد مجھے فراموش ہی کر چکی تھیں۔ اوپر پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ لڑکی بھی اُسی آسامی کے لئے وہاں آئی ہوئی تھی۔ یہاں بھی آفس کے بیچ میں بڑی کھڑکی موجود تھی اور منظر دیکھا جا سکتا تھا۔ وہ لڑکی مجھ سے پہلے انٹرویو کے لئے بلائی گئی اور کافی طویل گُفتگو ہوئی اُس کی مدیر کے ساتھ۔ اس بیچ دوران مدیر کا قلم تین بار زمین پر گرا اور اُس نے اُٹھایا بھی یہ الگ بات کہ ڈھونڈنے میں وقت کافی لگتا رہا۔ جیسے ہی وہ باہر آئی تو ہم تین لوگ جو باہر بیٹھے تھے اُنہیں یہ کہ کر فارغ کر دیا گیا کہ آسامی پُر ہو چکی اور کونٹریکٹ عطا ہو چکا۔

اور اس ماہ بھی تو دو انٹرویوز میں وہی ہوا کہ ملازمت لڑکیوں کو عطا کر دی گئی، پر اب مجھ میں حوصلہ نہیں کہ سب کا احوال لکھ پاؤں، کتنی خبیث ہیں نا یہ لڑکیاں ، ہم مردوں کی نوکریوں کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں۔ پیٹ میں دوڑتے بلی چوہوں کی کھرونچوں سے تنگ آ کر میں سوچ رہا ہوں ۔ بلکہ پتہ نہیں کیا کیا سوچ رہا ہوں۔ میرا دل کر چاہ رہا ہے کہ کسی ہوٹل میں جا بیٹھوں اور کھانا کھاؤں ڈٹ کر اور پھر اُسے کہوں کہ مجھے شرطہ کے حوالے کر دے۔ آگے جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ ایک خیال یہ آتا ہے کہ کسی راہ گیر سے اپنی مشکل بیان کروں شائد ترس کھا کر کچھ پیسے دے دے تو پیٹ کی آگ تو بجھے۔ واپس کمرے میں بھی نہیں جا سکتا اُس کا کرایہ جو نہیں دے سکا ہوں ، کیا کروں ؟ کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔

رُکئے شائد کوئی مجھے بلا رہا ہے، ارے ہاں یہ مرسیڈیز جو قریب میں کھڑی ہے اُس میں وہ ادھیڑ عمر کی خاتوں میری طرف ہی اشارہ کر رہی ہیں۔ میں آتا ہوں۔

جی مادام ؟

بھوکے ہو؟ ملازمت نہیں ہے؟ عربی میں پوچھا گیا

ہاں

کونٹریکٹ چاہئے، ہونٹوں پہ اُنگلی رکھ کے پوچھا گیا

ہاں

اب میں اور لکھ نہیں پاؤں گا، کہ مجھے کونٹریکٹ سائین کرنا ہے اور میں مرسیڈیز کی جانب جا رہا ہوں۔
 
زبردست لا شک فیہا
ایسے بھی عرب معاف کیجئے گا بڑے ہوس پرست ہوتے ہیں میرے کئی انٹر پریٹر ساتھیو نے جو دہلی انٹرپریٹر کا کام کرتے ہیں ایسی ایسی باتیں بتائی ہیں کہ وہ میں یہاں شیر نہیں کر سکتا۔تف ہو ایسے عرب اور عربی سماج پر ۔اسلام کا نام لیکر اندر سے کچھ باہر سے کچھ والا معاملہ ہے یہ رکھتے ہی ہیں ایسے لڑکیوں کو استحصال کرنے اور اپنی عیاشی کا سامان بہم پہنچانے کے لئے ۔
 
بہت جذباتی تحریر ہے اظہر بھائی !
آپ نثر بھی بہت اچھی لکھتے ہیں۔ اور جس گہرائی سے آپ نے CV میں وضاحتوں والی بات، اور پین گرنے والی بات، اور وہ آخری کانٹریکٹ وال بات کہی ہے، یہ بہت ہی تلخ حقیقت ہے۔۔۔
۔۔۔
ویسے لوگوں کو بیرون ملک جانے سے پہلے اچھی سے تحقیق کر لینی چاہئے، اس سے ایسے واقعات کچھ کم تو ضرور ہو سکتے ہیں۔

بہت شکر گزار ہوں جناب
 
زبردست لا شک فیہا
ایسے بھی عرب معاف کیجئے گا بڑے ہوس پرست ہوتے ہیں میرے کئی انٹر پریٹر ساتھیو نے جو دہلی انٹرپریٹر کا کام کرتے ہیں ایسی ایسی باتیں بتائی ہیں کہ وہ میں یہاں شیر نہیں کر سکتا۔تف ہو ایسے عرب اور عربی سماج پر ۔اسلام کا نام لیکر اندر سے کچھ باہر سے کچھ والا معاملہ ہے یہ رکھتے ہی ہیں ایسے لڑکیوں کو استحصال کرنے اور اپنی عیاشی کا سامان بہم پہنچانے کے لئے ۔

بہت شکر گزار ہوں جناب
 
Top