داغ کونسا طائرِ گم گشتہ اسے یاد آیا ۔ داغ دہلوی

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

کونسا طائرِ گم گشتہ اسے یاد آیا
دیکھتا بھالتا ہر شاخ کو صیّاد آیا

میرے قابو میں نہ پہروں دلِ ناشاد آیا
وہ مرا بھولنے والا جو مجھے یاد آیا

کوئی بھولا ہوا اندازِ ستم یاد آیا
کہ تبسّم تجھے ظالم دمِ بیداد آیا

لائے ہیں لوگ جنازے کی طرح محشر میں
کس مصیبت سے ترا کشتۂ بیداد آیا

جذبِ وحشت ترے قربان ترا کیا کہنا
کھنچ کے رگ رگ میں مرے نشترِ فصّاد آیا

اس کے جلوے کو غرض کون و مکاں سے کیا تھے
داد لینے کے لئے حسنِ خدا داد آیا

بستیوں سے یہی آواز چلی آتی ہے
جو کیا تو نے وہ آگے ترے فرہاد آیا

دلِ ویراں سے رقیبوں نے مرادیں پائیں
کام کس کس کے مرا خرمنِ برباد آیا

عشق کے آتے ہی منہ پر مرے پھولی ہے بسنت
ہو گیا زرد یہ شاگرد جب استاد آیا

ہو گیا فرض مجھے شوق کا دفتر لکھنا
جب مرے ہاتھ کوئی خامۂ فولاد آیا

عید ہے قتل مرا اہلِ تماشا کے لئے
سب گلے ملنے لگے جبکہ وہ جلّاد آیا

چین کرتے ہیں وہاں رنج اٹھانے والے
کام عقبیٰ میں ہمارا دلِ ناشاد آیا

دی شبِ وصل موذّن نے اذاں پچھلی رات
ہائے کمبخت کو کس وقت خدا یاد آیا

میرے نالے نے سنائی ہے کھری کس کس کو
منہ فرشتوں پہ یہ گستاخ یہ آزاد آیا

غمِ جاوید نے دی مجھ کو مبارکبادی
جب سنا یہ انہیں شیوۂ بیداد آیا

میں تمنائے شہادت کا مزا بھول گیا
آج اس شوق سے ارمان سے جلّاد آیا

شادیانہ جو دیا نالہ و شیون نے دیا
جب ملاقات کو ناشاد کی ناشاد آیا

لیجیے سنیے اب افسانۂ فرقت مجھ سے
آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا

آپ کی بزم میں سب کچھ ہے مگر داغ نہیں
ہم کو وہ خانہ خراب آج بہت یاد آیا

(داغ دہلوی)
 

جیہ

لائبریرین
واہ جی واہ تین تین مطلعے۔ پہلا مطلع مجھے بہت پسند آیا ۔ باقی اشعار بھی کم نہیں خاص کر وہ شعر جدے آپ نے نیلی روشنائی سے رنگین کردیا ہے، مشہور اور لاجواب شعر ہے۔

نشتر فصّاد کی ترکیب پڑھ کر ایک سوال ذہن میں ابھر آیا ہے۔ فصد کھولنا بظاہر ایک طریقہء علاج نظر آتا ہے۔ غالب کے ہاں بھی اس کا ذکر ہے۔ مگر مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ یہ کس مرض کا علاج تھا۔ اور کیا اس میں کسی رگ کو چھید کر خون نکالا جاتا تھا؟۔ اور کیا یہ ایک شافی طریقہ تھا؟
 

مغزل

محفلین
کیا کہنے فرخ بھائی ، بہت خوب انتخاب ہے ، شاید میں پہلے بھی پڑھ سن چکا تھا، مگر شکریہ نہ ادا کرسکا، کمال انتخاب ہے ، جواب نہیں۔واہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ جی واہ تین تین مطلعے۔ پہلا مطلع مجھے بہت پسند آیا ۔ باقی اشعار بھی کم نہیں خاص کر وہ شعر جدے آپ نے نیلی روشنائی سے رنگین کردیا ہے، مشہور اور لاجواب شعر ہے۔

نشتر فصّاد کی ترکیب پڑھ کر ایک سوال ذہن میں ابھر آیا ہے۔ فصد کھولنا بظاہر ایک طریقہء علاج نظر آتا ہے۔ غالب کے ہاں بھی اس کا ذکر ہے۔ مگر مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ یہ کس مرض کا علاج تھا۔ اور کیا اس میں کسی رگ کو چھید کر خون نکالا جاتا تھا؟۔ اور کیا یہ ایک شافی طریقہ تھا؟

غزل پسند کرنے کا شکریہ جویریہ! دراصل یہ طریقہ علاج حکما کے ہاں اب بھی رواج پذیر ہے۔ جب کوئی پھوڑے میں پیپ پڑ جائے تو پیپ کو نشتر سے نکالا جاتا تھا۔ جس سے تکلیف فوری کم ہو جاتی تھی۔
 

شاہ حسین

محفلین

غزل پسند کرنے کا شکریہ جویریہ! دراصل یہ طریقہ علاج حکما کے ہاں اب بھی رواج پذیر ہے۔ جب کوئی پھوڑے میں پیپ پڑ جائے تو پیپ کو نشتر سے نکالا جاتا تھا۔ جس سے تکلیف فوری کم ہو جاتی تھی۔

شکریہ جناب سخنور صاحب اسی ذیل میں عرض کرتا چلوں نشتر کے ساتھ جونک (جو ایک کیڑا ہے ( سے بھی یہ کام لیا جاتا تھا ۔
 

فاتح

لائبریرین
سبحان اللہ انتہائی عمدہ انتخاب ہے۔ ہم نے اس غزل کا صرف ایک ہی شعر سن رکھا تھا آج تک۔
بہت شکریہ فرخ صاحب۔
 

محمد وارث

لائبریرین
غزل

کونسا طائرِ گم گشتہ اسے یاد آیا
دیکھتا بھالتا ہر شاخ کو صیّاد آیا

میرے قابو میں نہ پہروں دلِ ناشاد آیا
وہ مرا بھولنے والا جو مجھے یاد آیا

کوئی بھولا ہوا اندازِ ستم یاد آیا
کہ تبسّم تجھے ظالم دمِ بیداد آیا

لائے ہیں لوگ جنازے کی طرح محشر میں
کس مصیبت سے ترا کشتۂ بیداد آیا

جذبِ وحشت ترے قربان ترا کیا کہنا
کھنچ کے رگ رگ میں مرے نشترِ فصّاد آیا

اس کے جلوے کو غرض کون و مکاں سے کیا تھے
داد لینے کے لئے حسنِ خدا داد آیا

بستیوں سے یہی آواز چلی آتی ہے
جو کیا تو نے وہ آگے ترے فرہاد آیا

دلِ ویراں سے رقیبوں نے مرادیں پائیں
کام کس کس کے مرا خرمنِ برباد آیا

عشق کے آتے ہی منہ پر مرے پھولی ہے بسنت
ہو گیا زرد یہ شاگرد جب استاد آیا

ہو گیا فرض مجھے شوق کا دفتر لکھنا
جب مرے ہاتھ کوئی خامۂ فولاد آیا

عید ہے قتل مرا اہلِ تماشا کے لئے
سب گلے ملنے لگے جبکہ وہ جلّاد آیا

چین کرتے ہیں وہاں رنج اٹھانے والے
کام عقبیٰ میں ہمارا دلِ ناشاد آیا

دی شبِ وصل موذّن نے اذاں پچھلی رات
ہائے کمبخت کو کس وقت خدا یاد آیا

میرے نالے نے سنائی ہے کھری کس کس کو
منہ فرشتوں پہ یہ گستاخ یہ آزاد آیا

غمِ جاوید نے دی مجھ کو مبارکبادی
جب سنا یہ انہیں شیوۂ بیداد آیا

میں تمنائے شہادت کا مزا بھول گیا
آج اس شوق سے ارمان سے جلّاد آیا

شادیانہ جو دیا نالہ و شیون نے دیا
جب ملاقات کو ناشاد کی ناشاد آیا

لیجیے سنیے اب افسانۂ فرقت مجھ سے
آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا

آپ کی بزم میں سب کچھ ہے مگر داغ نہیں
ہم کو وہ خانہ خراب آج بہت یاد آیا

(داغ دہلوی)

واہ واہ واہ، لاجواب۔ انتہائی خوبصورت غزل ہے، شکریہ جناب شیئر کرنے کیلیے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جی انسان تو غلطی کا پتلا ہے :)

چلیں اس بہانے ہمیں اپنے 'انسان' ہونے کی سند بھی ہاتھ لگی جو اپنی بیگم کو سامنے پیش کی جا سکتی ہے ;)
 

محمد وارث

لائبریرین
سپردم بہ "او" مایۂ خویش را
"او" دانی حسابِ کم و بیش را

معذرت خواہ ہوں کہ شعر میں 'تو' کو 'اُو' سے بدلنا پڑا وگرنہ ضمیر بیگم سے پھر جاتی ;)
 
Top