!کوئی نا سر اٹھا کے چلے

baighairat-brigade-670.gif

بے غیرت بریگیڈ — فائل فوٹو

آزادی اظہار، جمہوری روایات کا اہم ستون ہوا کرتا ہے۔ فرانسیسی مفکر والٹئیر نے کہا تھا؛
“چاہے مجھے آ پ کے نظریات سے اختلاف ہی کیوں نہ ہو، آپ کو ان نظریات کے اظہار کی اجازت ہونی چاہئے اور آپ کے اس حق کے لیے مجھے جان بھی دینی پڑی تو کچھ مضائقہ نہیں!”
مملکت خداداد میں بہر حال آغاز سے ہی اس قسم کے تردد کا اہتمام نہیں رکھا گیا۔ قائد اعظم کی وہ تقریر جس کو دہراتے ہوئے ہمارے لبرل حضرات تھکتے نہیں، جس میں دراصل جناح صاحب نے دو قومی نظریے کو ترک کر کے ایک قوم ہونے کا پیغام سنایا، چند اعلی سرکاری افسروں کو پسند نہ آئی اور اس کو سنسر کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ ڈان اخبار کے مدیر الطاف حسین کی مداخلت کے باعث ممکن نہ ہو سکی۔​
اس کے بعد ستمبر 1951 میں فاطمہ جناح کے قوم سے خطاب کے دوران دو مرتبہ ان کی تقریر کو سنسر کیا گیا۔ جو قوم اپنے قائد اور اس کی بہن کو آزادیء رائے کا حق نہ دی سکی، اس سے مزید کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟​
ضمیر نیازی کی اس ضمن میں لکھی کتاب اس طرح کے واقعات سے بھری ہوئی ہے کہ کب کب ’وسیع تر قومی مفاد‘ کے نام پر کیا کیا گل کھلائے گئے۔ ان کے مطابق اظہار رائے کی آزادی سلب کرنے کی بنیاد برطانوی راج نے شروع کی۔ اس سلسلے میں کسی ہندوستانی اخبار پر پہلی پابندی 1832 میں راجہ رام موہن رائے کے روزنامہ ’مرا ۃ الا خبار‘ پر لگائی گئی کیونکہ اس میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور اس کے نمک حلال نوابوں پر تنقید کی گئی تھی۔​
1857 کی مختصر جنگ کے بعد اردو اخبارات پر مقدمات چلائے گئے کیونکہ ان کے مدیران نے انگریز حکومت کی بجائے ہندوستانیوں کی حمایت کی تھی۔ ان مقدمات کے نتیجے میں ’دلی اردو اخبار‘ کے مدیر محمد باقر کو موت کی سزا سنائی گئی۔​
بیسویں صدی کے آغاز میں مشہور اخبارات جیسے زمیندار، الہلال، کامریڈ اور پیسہ اخبار کو کئی بار جرمانہ ہوا اور ان کی آزادی سلب کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ برطانوی سرکار کی ان گھٹیا حرکتوں کے باعث جناح صاحب نے ڈان اخبار شروع کیا۔ آزادی کے بعد پہلے جناح صاحب اور پھر انکی ہمشیرہ کی تقاریر سے چھیڑ خانی کی گئی۔​
1948 میں بائیں بازو کے اخبارات (سویرا، نقوش اور ادب لطیف) پر​
پابندی عائد کر دی گئی۔ اسی دور میں اردو افسانے کے نمایاں ترین نام سعادت حسن منٹو کو ’فحاشی‘ کے الزام کی وجہ سے تین دفعہ عدالت کا سامنا کرنا پڑا۔
’کھول دو‘ نامی افسانہ نقوش میں چھپا اور بہت جلد نقوش کی اشاعت پر پابندی لگ گئی۔ مارچ 1949 میں ماہنامہ ’جاوید‘ میں منٹو صاحب کا افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ شائع ہوا اور بہت جلد اس کے مدیر اور منٹو صاحب کو پریس ایڈوائزری بورڈ کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس بورڈ کے ممبران میں فیض احمد فیض، حمید نظامی اور زمیندار اخبار کے اطہر علی شامل تھے۔ فیض صاحب نے منٹو کی حمایت کی لیکن ان کی ایک نہ چلی اور کارووائی کے بعد منٹو صاحب کو سزا سنائی گئی۔​
1958 میں مارشل لاء نفاذ کے بعد سب سے پہلے بائیں بازو کے اخبارات پر حکومتی قبضہ کیا گیا اور اس کام میں مستقبل کے صوفی قدرت اللہ شہاب کا بھرپور حصہ تھا۔ پاکستان ٹائمز پر قبضے کے بعد پہلا اداریہ شہاب نے ہی ’اک نیا آغاز‘ کے عنوان سے لکھا تھا۔ ایوب دور میں ہی قلم کاروں کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک نیا ادارہ ’رائیٹرز گلڈ‘ کے نام سے تخلیق دیا گیا۔​
دوسر ے مارشل لاء کے دوران افواج پاکستان نے نظریہ ء پاکستان نامی ایک ‘معمہ’ تشکیل دیا جس پر کچھ روز قبل کافی بحث ہو چکی ہے۔ بھٹو صاحب کے بظاہر جمہوری دور میں بھی اظہار رائے کی کوئی خاص آزادی نہیں تھی۔ ضیاء نامی ظلمت نے 80 کی دہائی میں اس رویے کو عروج پر پہنچا دیا۔ 88 سے 99 کی جمہوری حکومتوں نے بھی ضیا ء روایات کو زندہ رکھا اور پنجاب کے موجودہ نگران وزیر اعلی اس تلخ حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔​
گزشتہ ایک ہفتے میں اظہار رائے کو کچلنے کی دو کوششیں کی گئی ہیں اور یہ بات حیران کن نہیں ہے کہ دونوں واقعات ایک مخصوص ادارے سے متعلق تھے۔ پہلے تو زید حامد کے ایک سابق دست راست نے ایک پروگرام میں فوج کے سربراہ کے متعلق کچھ الفاظ دہرائے جو کہ اس کے اپنے نہیں بلکہ زید بلونگڑے کے تھے۔ اس گستاخی پر اس ٹی وی چینل کو دو دن کے لیے پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔​
اس کے دو ہی دن بعد لاہور سے تعلق رکھنے والے بینڈ “بے غیرت بریگیڈ” کے گانے ’دھنک دھنک‘ پر پابندی عائد کر دی گئی۔ پہلے تو اس گانے کی ویڈیو بنانے کو ہی کوئی سٹوڈیو والا راضی نہیں تھا، جب کسی نہ کسی طرح ویڈیو بن ہی گئی اور انٹر نیٹ پر متعارف کرائی گئی تو اس نے قلیل عرصے میں بے پناہ مقبولیت حاصل کر لی۔​
اس گانے میں فوجی افسران کے کارناموں اور تزویراتی گہرائی جیسے اہم موضوعات کا ذکر کیا گیا تھا۔ لہذا وسیع تر قومی مفاد کے پیش نظر اس گانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔​
ملک اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور ایک کے علاوہ تمام صوبائی دارالحکومت دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑے جا چکے ہیں۔ اس اثنا میں ایک گانا ہی قومی مفاد کی خلاف ورز ی کر سکتا ہے۔ فیض صاحب نے شاید اسی موقع کے بارے میں لکھا تھا کہ؛​
یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلقنہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ سے پھولنہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست کشادکہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
تحریر:عبدالمجید عابد​
بہ شکری ٍ ڈان اردو
 

عمراعظم

محفلین
اکثر اپنے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے اس طرح کے اقدامات کو ضروری سمجھا گیا۔ آزادیء اظہار اگر ’ان کے اقتدار یا عیاشیوں سے متصادم ہو تو سزا کی مستحق ٹھہرتی ہے۔
 
Top