افتخار عارف کوئی مژدہ نہ بشارت نہ دعا چاہتی ہے

محمداحمد

لائبریرین
غزل

کوئی مژدہ نہ بشارت نہ دعا چاہتی ہے
روز اک تازہ خبر خلق خدا چاہتی ہے

موج خوں سر سے گزرنی تھی سو وہ بھی گزری
اور کیا کوچۂ قاتل کی ہوا چاہتی ہے

شہر بے مہر میں لب بستہ غلاموں کی قطار
نئے آئین اسیری کی بنا چاہتی ہے

کوئی بولے کے نہ بولے قدم اٹھیں نہ اٹھیں
وہ جو اک دل میں ہے دیوار اٹھا چاہتی ہے

ہم بھی لبیک کہیں اور فسانہ بن جائیں
کوئی آواز سر کوہ ندا چاہتی ہے

یہی لو تھی کہ الجھتی رہی ہر رات کے ساتھ
اب کے خود اپنی ہواؤں میں بجھا چاہتی ہے

عہد آسودگی جاں میں بھی تھا جاں سے عزیز
وہ قلم بھی مرے دشمن کی انا چاہتی ہے

بہر پامالی گل آئی ہے اور موج خزاں
گفتگو میں روش باد صبا چاہتی ہے

خاک کو ہمسر مہتاب کیا رات کی رات
خلق اب بھی وہی نقش کف پا چاہتی ہے

افتخار عارف
 
غزل

کوئی مژدہ نہ بشارت نہ دعا چاہتی ہے
روز اک تازہ خبر خلق خدا چاہتی ہے

موج خوں سر سے گزرنی تھی سو وہ بھی گزری
اور کیا کوچۂ قاتل کی ہوا چاہتی ہے

شہر بے مہر میں لب بستہ غلاموں کی قطار
نئے آئین اسیری کی بنا چاہتی ہے

کوئی بولے کے نہ بولے قدم اٹھیں نہ اٹھیں
وہ جو اک دل میں ہے دیوار اٹھا چاہتی ہے

ہم بھی لبیک کہیں اور فسانہ بن جائیں
کوئی آواز سر کوہ ندا چاہتی ہے

یہی لو تھی کہ الجھتی رہی ہر رات کے ساتھ
اب کے خود اپنی ہواؤں میں بجھا چاہتی ہے

عہد آسودگی جاں میں بھی تھا جاں سے عزیز
وہ قلم بھی مرے دشمن کی انا چاہتی ہے

بہر پامالی گل آئی ہے اور موج خزاں
گفتگو میں روش باد صبا چاہتی ہے

خاک کو ہمسر مہتاب کیا رات کی رات
خلق اب بھی وہی نقش کف پا چاہتی ہے

افتخار عارف
بہت ہی عمدہ شراکت.. افتخار عارف صاحب کی ایک ویڈیو جو ہم اکثر دیکھتے ہیں یہ غزل اس میں سنی گئی. بہت خوب...
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت ہی عمدہ شراکت.. افتخار عارف صاحب کی ایک ویڈیو جو ہم اکثر دیکھتے ہیں یہ غزل اس میں سنی گئی. بہت خوب...

ہم نے ایک ویڈیو کو آڈیو بنا لیا ہےاور اُسے سنتے رہتے ہیں ۔ اس میں یہ غزل ہے اور وہ جشن افتخار عارف کے نام سے ہے۔
 
غزل

کوئی مژدہ نہ بشارت نہ دعا چاہتی ہے
روز اک تازہ خبر خلق خدا چاہتی ہے

موج خوں سر سے گزرنی تھی سو وہ بھی گزری
اور کیا کوچۂ قاتل کی ہوا چاہتی ہے

شہر بے مہر میں لب بستہ غلاموں کی قطار
نئے آئین اسیری کی بنا چاہتی ہے

کوئی بولے کے نہ بولے قدم اٹھیں نہ اٹھیں
وہ جو اک دل میں ہے دیوار اٹھا چاہتی ہے

ہم بھی لبیک کہیں اور فسانہ بن جائیں
کوئی آواز سر کوہ ندا چاہتی ہے

یہی لو تھی کہ الجھتی رہی ہر رات کے ساتھ
اب کے خود اپنی ہواؤں میں بجھا چاہتی ہے

عہد آسودگی جاں میں بھی تھا جاں سے عزیز
وہ قلم بھی مرے دشمن کی انا چاہتی ہے

بہر پامالی گل آئی ہے اور موج خزاں
گفتگو میں روش باد صبا چاہتی ہے

خاک کو ہمسر مہتاب کیا رات کی رات
خلق اب بھی وہی نقش کف پا چاہتی ہے

افتخار عارف
عمدہ شراکت کا شکریہ۔
 
ہم نے ایک ویڈیو کو آڈیو بنا لیا ہےاور اُسے سنتے رہتے ہیں ۔ اس میں یہ غزل ہے اور وہ جشن افتخار عارف کے نام سے ہے۔
وہ سرگودھا کا اک پرانا مشاعرہ ہے جس کا آغاز ہے کہ،

خزانہ زر و گوہر پہ خاک ڈال کے رکھ
ہم اہل مہر و محبت ہیں دل نکال کے رکھ

ہمیں تو اپنے سمندر کی ریت کافی ہے
تو اپنے چشمہ بے فیض کو سنبھال کے رکھ
 

نیرنگ خیال

لائبریرین

طارق شاہ

محفلین

عہد آسودگیِ جاں میں بھی تھا جاں سے عزیز
وہ قلم بھی مِرے دشمن کی انا چاہتی ہے

بہرِ پامالیِ گُل آئی ہے، اور موجِ خِزاں !
گفتگو میں رَوَش ِبادِ صبا چاہتی ہے

کیا کہنے !
 

محمداحمد

لائبریرین
عمدہ اور بہترین شراکت
بہت اعلیٰ و عمدہ انتخاب احمد بھائی
عہد آسودگیِ جاں میں بھی تھا جاں سے عزیز
وہ قلم بھی مِرے دشمن کی انا چاہتی ہے

بہرِ پامالیِ گُل آئی ہے، اور موجِ خِزاں !
گفتگو میں رَوَش ِبادِ صبا چاہتی ہے

کیا کہنے !

بے حد شکریہ!

ممنون ہوں۔ :)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
واہ واہ واہ احمد بھائی
یہ غزل، اگر میں غلط نہیں تو، افتخار عارف صاحب سے یوٹیوب پہ پہلا تعارف تھا۔ ایک مشاعرے کی ویڈیو ہے مگر اُس میں صرف پہلے تین اشعار ہی تھے۔
مکمل غزل کے لئے شکریہ :)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
شہر بے مہر میں لب بستہ غلاموں کیقطار
نئے آئین اسیری کیبنا چاہتی ہے

واہ۔ بہت خوب۔ عمدہ شراکت اور بہت شکریہ احمد۔
 
Top