کوئی مسیحا مل جاتا ہے، لیکن قسمت دل کی۔اسلم کولسری

کوئی مسیحا مل جاتا ہے، لیکن قسمت دل کی
ٹھہر گیا ہے ایک مسلسل درد ضرورت دل کی
پتھر سے شیشہ ٹکرا کر پوچھ رہا ہے مجھ سے
اچھا جی، اب تم بتلاؤ کیا قیمت ہے دل کی
ہمی نے اپنے آپ کو سارے جگ میں خوار کیا ہے
ہمی نے بات زیادہ مانی ذہن کی نسبت دل کی
کس درجہ دشوار ہوا ہے سانس کا آنا جانا
کتنی اچھی لگتی تھی شہ رگ سے قربت دل کی
چلتے چلتے دنیا بھر کے دکھ جھولی میں ڈالے
کہنے کو معمولی سی تھی ایک شرارت دل کی
بربادی کا باعث ہے یہ جب وہ شوخ ملا تھا
ہونٹوں پر کچھ اور تھا لیکن اور تھی نیت دل کی
ایک تصویر ہے اس کی ، ایک طرف خط اس کا
ایک مصیبت آنکھوں کی ہے، ایک مصیبت دل کی
شعروں سے ظاہر ہو جاتا ہے، اس کی نظروں میں
کیا تیری اوقات ہے اسلمؔ ، کیا حیثیت دل کی
 
Top