کوئی شامِ غم مناؤ، مرا دل دکھا ہوا ہے

جیا راؤ

محفلین
السلام علیکم
بہت عرصے بعد کچھ لکھا ہے۔۔۔ اس پر اساتذہ کی رائے اور رہنمائی کا انتظار رہے گا۔۔۔:)


کوئی شامِ غم مناؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے
افسردہ گیت گاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

تم چاہتے ہو مجھ کو دل و جان سے بھی بڑھ کر
مجھے آج پھر بتاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

مرے ہم نفس کی یادو! میرا روم روم رو دے
مجھے آج یوں ستاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

مری آس کی شمع بھی، مری سانس کا دیا بھی
مرے چارہ گر بجھاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

روٹھی ہوں میں مناؤ، زلفوں میں گُل سجاؤ
مرے ناز بھی اٹھاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

شبِ ہجر کے ستارو! مجھے ساتھ ساتھ اپنے
نہ آج تم جگاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

جیا آج تم بھی چپ ہو، مری جان کچھ تو بولو
مجھے شاعری سکھاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

 
میں استاد تو نہیں ہوں لیکن رائے دینا چاہوں گا کہ "لفظ دُکھا" کی جگہ اگر افسردہ استعمال ہوتا تو زیادہ اچھا لگتا پڑھنے کے لحاظ سے۔
ویسے اگر جائزہ لیا جائے تو آپ مبارکباد کی مستحق ہیں۔
میری طرف سے مبارکباد قبول کریں۔
لیکن ابھی سوال باقی ہے کہ آپ آج افسردہ کیوں ہیں؟
 

الف عین

لائبریرین
غزل تو اچھی ہے۔ لیکن دو بحریں جمع ہو گئی ہیں اکثر مصرعوں میں۔ بعد میں تفصیل سے دیکھتا ہوں
 

مغزل

محفلین
السلام علیکم
بہت عرصے بعد کچھ لکھا ہے۔۔۔ اس پر اساتذہ کی رائے اور رہنمائی کا انتظار رہے گا۔۔۔:)


کوئی شامِ غم مناؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے
افسردہ گیت گاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

تم چاہتے ہو مجھ کو دل و جان سے بھی بڑھ کر
مجھے آج پھر بتاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

مرے ہم نفس کی یادو! میرا روم روم رو دے
مجھے آج یوں ستاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

مری آس کی شمع بھی، مری سانس کا دیا بھی
مرے چارہ گر بجھاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

روٹھی ہوں میں مناؤ، زلفوں میں گُل سجاؤ
مرے ناز بھی اٹھاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

شبِ ہجر کے ستارو! مجھے ساتھ ساتھ اپنے
نہ آج تم جگاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

جیا آج تم بھی چپ ہو، مری جان کچھ تو بولو
مجھے شاعری سکھاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے


داخلی حسّیت اور واردات پر مشتمل بہت عمدہ کوشش ہے ، شاعری کا اصل ماخذ یہی ہے کہ شاعر نے اپنا آپ کتنا برتا ہے اور اس کا مسئلہ کیا اور یہ کہ اس واردات میں‌لزوجیت کتنی ہے مزید یہ کہ اس کا اطلاق کیوں کر اور کس قدر ہے یہی وہ لوازم ہیں جس سے شاعر کا ذاتی رویہ اور اسلوب نکھرتا ہے عروضی معاملت اور دیگر اسقام کے بار ے میں بابا جانی آئندہ کی نشست تک کے لیے انتظار کی سولی پر ٹانک گئے ہیں لہذا اس وقت تک میں ہونٹ سینے کی کوشش کرتاہوں ، بہر کیف ’’ بنیادی مآل ‘‘ بہت خوب ہے سو میری جانب سے مبارکباد ، گر قبول افتد زہے عزو شرف
 

مغزل

محفلین
جیا ، ذرا اس لڑی ’’ سوات معاہدہ :‌الطاف حسین نے چار دن سے کھانا نہیں‌کھایا ‘‘ میں جھانک لیں۔۔ :grin: مراسلہ نمبر سات ::
 

الف عین

لائبریرین
کوئی شامِ غم مناؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے
افسردہ گیت گاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

///اس کی بحر و اوزان ہیں، متفاعلن فعولن متفاعلن فعولن جس میں زیادہ تر مصرعے ہیں، دوسری بحر ہے مفعول فاعلاتن (2 بار) کچھ مصرعے اس میں ہیں، لیکن دونوں بحروں کو خلط ملط نہیں کیا جا سکتا۔
کوئی شامِ غم مناؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے
کوئی غم کا گیت گاؤ۔۔۔
یا
کوئی دکھ کا گیت گاؤ۔۔۔

تم چاہتے ہو مجھ کو دل و جان سے بھی بڑھ کر
مجھے آج پھر بتاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے
//پہلا مصرع بحر سے خارج ہے اور دوسرا ’بتاؤ‘ فعل کے ساتھ اچھا نہیں لگ رہا۔
مجھے چاہتے ہو جب تم دل و جان سے بھی بڑھ کر
مجھے پھر یقیں دلاؤ۔۔
یا
یہی بات پھر سناؤ۔۔
مرے ہم نفس کی یادو! میرا روم روم رو دے
مجھے آج یوں ستاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے
//درست ہے
مری آس کی شمع بھی، مری سانس کا دیا بھی
مرے چارہ گر بجھاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے
/// شمع کا یہ تلفظ میرے گلے سے نہیں اترتا، اگرچہ وارث اسے جائز قرار دیتے ہیں۔ لیکن آس اور سانس کا ردھم ایسا ہے کہ شمع اور دیا کو قبول کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسرا متبادل میں نے سوچا تو ہے۔ لیکن مزا نہیں آیا۔
مری سانس کا دیا بھی، مری آس کا دیا بھی،

روٹھی ہوں میں مناؤ، زلفوں میں گُل سجاؤ
مرے ناز بھی اٹھاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے
///میں جو روٹھوں تو مناؤ، مری زلف بھی سنوارو

مرے ناز بھی اٹھاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

شبِ ہجر کے ستارو! مجھے ساتھ ساتھ اپنے
نہ آج تم جگاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

///پہلا مصرع اچھا ہے اور بحر میں ہے۔ لیکن دوسرا خارج ہو گیا ہے۔ اس کو یوں کیا جا سکتا ہے:
نہ یوں مجھ کو بھی جگاؤ
یا
نہ مجھے بھی تم جگاؤ

جیا آج تم بھی چپ ہو، مری جان کچھ تو بولو
مجھے شاعری سکھاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے
/// درست تو ہے یعنی وزن میں ہے، لیکن پہلا مصرع زیادہ جاندار ہو جاتا ہے اگر الفاظ کی ترتیب یہ ہو۔۔
جیا تم بھی آج چپ ہو! مری۔۔۔۔
اور "شاعری سکھاؤ" کی جگہ ’شاعری سناؤ‘ کر دو تو معنی بدل جاتے ہیں، لیکن کیا واقعی واحد متکلم کے شاعری سیکھنے سے اسے کچھ سکون مل سکتا ہے؟
 

محمداحمد

لائبریرین
مری آس کی شمع بھی، مری سانس کا دیا بھی
مرے چارہ گر بجھاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

جیا صاحبہ،

آپ کی غزل آج دیکھی ہے۔ اچھی لگی آپ کی یہ غزل۔ یہ ایک کیفیت کی غزل ہے سو اس میں اظہارِ ذات کی بڑی گنجائش ہے اور آپ نے اسے بہت اچھا نبھایا بھی ہے۔

بہت سی داد حاضر ہے۔

اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!
 

جیا راؤ

محفلین
کوئی شامِ غم مناؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے
افسردہ گیت گاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

///اس کی بحر و اوزان ہیں، متفاعلن فعولن متفاعلن فعولن جس میں زیادہ تر مصرعے ہیں، دوسری بحر ہے مفعول فاعلاتن (2 بار) کچھ مصرعے اس میں ہیں، لیکن دونوں بحروں کو خلط ملط نہیں کیا جا سکتا۔
کوئی شامِ غم مناؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے
کوئی غم کا گیت گاؤ۔۔۔
یا
کوئی دکھ کا گیت گاؤ۔۔۔

تم چاہتے ہو مجھ کو دل و جان سے بھی بڑھ کر
مجھے آج پھر بتاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے
//پہلا مصرع بحر سے خارج ہے اور دوسرا ’بتاؤ‘ فعل کے ساتھ اچھا نہیں لگ رہا۔
مجھے چاہتے ہو جب تم دل و جان سے بھی بڑھ کر
مجھے پھر یقیں دلاؤ۔۔
یا
یہی بات پھر سناؤ۔۔
مرے ہم نفس کی یادو! میرا روم روم رو دے
مجھے آج یوں ستاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے
//درست ہے
مری آس کی شمع بھی، مری سانس کا دیا بھی
مرے چارہ گر بجھاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے
/// شمع کا یہ تلفظ میرے گلے سے نہیں اترتا، اگرچہ وارث اسے جائز قرار دیتے ہیں۔ لیکن آس اور سانس کا ردھم ایسا ہے کہ شمع اور دیا کو قبول کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسرا متبادل میں نے سوچا تو ہے۔ لیکن مزا نہیں آیا۔
مری سانس کا دیا بھی، مری آس کا دیا بھی،

روٹھی ہوں میں مناؤ، زلفوں میں گُل سجاؤ
مرے ناز بھی اٹھاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے
///میں جو روٹھوں تو مناؤ، مری زلف بھی سنوارو

مرے ناز بھی اٹھاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

شبِ ہجر کے ستارو! مجھے ساتھ ساتھ اپنے
نہ آج تم جگاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

///پہلا مصرع اچھا ہے اور بحر میں ہے۔ لیکن دوسرا خارج ہو گیا ہے۔ اس کو یوں کیا جا سکتا ہے:
نہ یوں مجھ کو بھی جگاؤ
یا
نہ مجھے بھی تم جگاؤ

جیا آج تم بھی چپ ہو، مری جان کچھ تو بولو
مجھے شاعری سکھاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے
/// درست تو ہے یعنی وزن میں ہے، لیکن پہلا مصرع زیادہ جاندار ہو جاتا ہے اگر الفاظ کی ترتیب یہ ہو۔۔
جیا تم بھی آج چپ ہو! مری۔۔۔۔
اور "شاعری سکھاؤ" کی جگہ ’شاعری سناؤ‘ کر دو تو معنی بدل جاتے ہیں، لیکن کیا واقعی واحد متکلم کے شاعری سیکھنے سے اسے کچھ سکون مل سکتا ہے؟


بہت شکریہ اعجاز انکل آپ نے اتنا وقت دیا۔۔۔ :):)
اصلاح شدہ غزل پھر سے پوسٹ کر رہی ہوں۔۔۔۔:)


کوئی شامِ غم مناؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے
کوئی دکھ کا گیت گاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

مجھے چاہتے ہو جب تم دل و جان سے بھی بڑھ کر
مجھے پھر یقیں دلاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

مرے ہم نفس کی یادو! میرا روم روم رو دے
مجھے آج یوں ستاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

مری آس کی شمع بھی، مری سانس کا دیا بھی
مرے چارہ گر بجھاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

میں جو روٹھوں تو مناؤ، مری زلف بھی سنوارو
مرے ناز بھی اٹھاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

جیا تم بھی آج چپ ہو! مری جان کچھ تو بولو
مجھے شاعری سکھاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے



اعجاز انکل یہ شعر دیکھئیے۔۔۔

شبِ ہجر کے ستارو! مجھے ساتھ ساتھ اپنے
نہ آج تم جگاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے



نہ یوں مجھ کو بھی جگاؤ
یا
نہ مجھے بھی تم جگاؤ

اس کے پہلے مصرعہ میں "مجھے" ہے۔۔۔
تو دوسرے مصرعہ میں "مجھ کو" یا "مجھے" کی جگہ کچھ اور استعمال کرنا پڑے گا؟ :confused:

اور کیا آخری شعر میں "سکھاؤ" کو "سناؤ" سے بدل دیا جائے۔۔۔ ؟:confused:
 

جیا راؤ

محفلین
مری آس کی شمع بھی، مری سانس کا دیا بھی
مرے چارہ گر بجھاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

جیا صاحبہ،

آپ کی غزل آج دیکھی ہے۔ اچھی لگی آپ کی یہ غزل۔ یہ ایک کیفیت کی غزل ہے سو اس میں اظہارِ ذات کی بڑی گنجائش ہے اور آپ نے اسے بہت اچھا نبھایا بھی ہے۔

بہت سی داد حاضر ہے۔

اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!

بہت شکریہ احمد صاحب۔۔۔۔۔ :):)
 

الف عین

لائبریرین
جیا، اس شعر کو یوں کر دو
پہلا مصرع
شبِ ہجر کے ستارو! لئے ساتھ ساتھ اپنے
دوسرا مصرع،، جو تم کو پسند ہو۔

اور آخری شعر میں مطلب تو یہی تھا میرا کہ ’سکھاؤ‘ میں بات بنتی نہیں، سناؤ‘ ہی بہتر ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اعجاز صاحب کی اصلاح کے بعد، آپ کی غزل بہت خوبصورت ہو گئی ہے جیا راؤ ماشاءاللہ۔ ردیف خوب سوجھی آپ کو، اور امید ہے کہ مزید اشعار بھی سوجھتے رہیں گے اور یہاں اپنا کلام پوسٹ کرتی رہیں گی :)
 

فاتح

لائبریرین
جیا صاحبہ! سبحان اللہ! سبحان اللہ! کیا عمدہ کلام ہے۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
وارث صاحب کی تائید کرتا ہوں کہ اعجاز صاحب کی مفصل اصلاح کے بعد تو چار چاند لگ گئے ہیں۔
درج ذیل شعر کے مصرع ثانی میں خصوصاً مصرع اولیٰ کے بے تکلف انداز کے باعث، "شاعری سناؤ" یا "شاعری سکھاؤ" کی بجائے "کوئی شعر تو سناؤ" زیادہ جچے گا۔
جیا تم بھی آج چپ ہو! مری جان کچھ تو بولو
مجھے شاعری سکھاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے
 

جیا راؤ

محفلین
جیا، اس شعر کو یوں کر دو
پہلا مصرع
شبِ ہجر کے ستارو! لئے ساتھ ساتھ اپنے
دوسرا مصرع،، جو تم کو پسند ہو۔

اور آخری شعر میں مطلب تو یہی تھا میرا کہ ’سکھاؤ‘ میں بات بنتی نہیں، سناؤ‘ ہی بہتر ہے۔


شکریہ اعجاز انکل۔۔۔
اب دیکھئیے۔۔۔۔ :)



کوئی شامِ غم مناؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے
کوئی دکھ کا گیت گاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

مجھے چاہتے ہو جب تم دل و جان سے بھی بڑھ کر
مجھے پھر یقیں دلاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

مرے ہم نفس کی یادو! میرا روم روم رو دے
مجھے آج یوں ستاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

مری آس کی شمع بھی، مری سانس کا دیا بھی
مرے چارہ گر بجھاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

میں جو روٹھوں تو مناؤ، مری زلف بھی سنوارو
مرے ناز بھی اٹھاؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے

شبِ ہجر کے ستارو! لئے ساتھ ساتھ اپنے
نہ مجھے بھی تم جگاؤ، مرا دل دکھا ہوا ہے

جیا تم بھی آج چپ ہو! مری جان کچھ تو بولو
کوئی شعر ہی سناؤ، مرا دل دُکھا ہوا ہے
 

جیا راؤ

محفلین
اعجاز صاحب کی اصلاح کے بعد، آپ کی غزل بہت خوبصورت ہو گئی ہے جیا راؤ ماشاءاللہ۔ ردیف خوب سوجھی آپ کو، اور امید ہے کہ مزید اشعار بھی سوجھتے رہیں گے اور یہاں اپنا کلام پوسٹ کرتی رہیں گی :)

بہت شکریہ وارث جی۔۔۔:)
آپ کی رائے کا بھی انتظار تھا۔۔۔ :)
 
Top