کوئی زندہ سُخن اور اپنے بس میں۔اسلم کولسری

کوئی زندہ سُخن اور اپنے بس میں
کنول کِھلتے نہیں کنج قفس میں
کسی کُچلے ہوئے جگنو کی صورت
ہمیں بھی رینگنا تھا خار و خس میں
ہمیشہ کی طرح اب کے بھی سوچا
سنبھل جائیں گے ہم اگلے برس میں
مگر کوئی سمجھ پاتا بھی کیسے
ہمارا عشق تھا شامل ہوس میں
کسی کو توڑ ہی دیتی ہیں یکسر
کسی کو راس آجاتی ہیں رسمیں
دراڑیں بن گئی ہیں جسم و جاں کی
ان آنکھوں سے گری خاموش قسمیں
ابھی تک یاد ہے تریاق لہجہ
ابھی تک زہر ہے ایک ایک نس میں
خدایا قافلے والے سلامت
لہو کا شور ہے بانگِ جرس میں
ذرا سی عمر تھی اسلمؔ ہماری
مگر برباد کردی پیش و پس میں
 
Top