کوئی تھا چاند ، یا پھر چاندنی بردار دیکھا ہے

کوئی تھا چاند ، یا پھر چاندنی بردار دیکھا ہے
نظر کو سامنے جس کے بہت لاچار دیکھا ہے

کبھی جو سیر کی ، اپنے ہی اندر ڈوب کر میں نے
تھکن سے چور اک سایہ پسِ دیوار دیکھا ہے

مسلسل جھوجھتا رہتا ہوں میں امواجِ دریا سے
ہمیشہ خود کو اِس جانب اُسے اُس پار دیکھا ہے

نمو جس درد نے پائی، پلا جو میرے آنگن میں
اُسی کا میرے سر نے آہنی ہر وار دیکھا ہے

کسی دن قتل ہو جائے گا یہ معصوم سا بچہ
ہمیشہ اُس گلی میں سایۂ تلوار دیکھا ہے

دِگر گوں ہے مرے اندر کی حالت اے مرے ہمدم
در و دیوار کو گرتے ہزاروں بار دیکھا ہے

ذوالفقار نقوی
 
Top