"کوئی بھول نہیں پایا"

کوئی بھول نہیں پایا
ان درد کے لمحوں کو
اس ہونٹ کی جنبش کو
پلکوں کے لرزنے کو
ان ہونٹوں کی جنبش میں
مرتے ہوئے لفظوں کو
اس درد کے لہجے میں
اک چور تبسم کو
کوئی بھول نہیں پایا.......
ہاتھوں میں کسی کے تھے
کچھ پھول چنبیلی کے
کوئی بھول نہیں پایا........
جب دور تلک کوئی
آتا تھا نہ جاتا تھا
بس عرش سے سبزے تک
خاموش سناٹا تھا
کوئی پاس کسی کے تھا
خاموش شرابا تھا
دھندلا سا اجالا تھا
نہ چاند نہ ہالا تھا
پھر بھی تھیں کئی کرنیں
جو چار سو بکھری تھیں
خاموش سفر میں تھیں
کوئی بھول نہیں پایا.......
خاموش سفر میں جب
کوئی ساتھ چلا تو تب
ہر سمت اداسی تھی
وہ چال میں لرزش تھی
کہ دیکھنے والی تھی
کوئی کتنا اکیلا تھا!
اس درد کے صحرا میں
سبزے کا سمندر تھا
چنبیلی کی کلیاں تھیں
اور ایک اکیلا تھا
نہ ہونٹ کی جنبش تھی
نہ پلکوں کا لرزہ تھا
بس چاند تھا، ہالا تھا
اور ایک اکیلا تھا
 
Top