کوئٹہ:‌فائرنگ سے ایچ ڈی پی کے سربراہ ہلاک ، مشتعل مظاہرین کی ہنگامہ آرائی

زین

لائبریرین
کوئٹہ میں مسلح افراد نے فائرنگ کرکے ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ حسین علی یوسفی کو ہلاک کردیا۔ فائرنگ کا واقعہ شہر کی مصروف شاہراہ جناح روڈ‌ پر پیش آیا ۔ واقعہ کے بعد پارٹی کے مشتعل کارکنوں‌نے جناح روڈ، قندھاری بازار، لیاقت بازار، پرنس روڈ ‌اور دیگر پر تین گاڑیوں ، پانچ موٹر سائیکلوں کے علاوہ ایک بینک بھی نذرآتش کردیا۔ بینک سے ملحقہ نجی ٹی وی کے دفتر پر فائرنگ بھی کی گئی تاہم اس سے کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں‌ملی ۔
مشتعل مظاہرین نے دکانوں، دفاتر اور گاڑیوں پر پتھرائو بھی کیا ۔جناح روڈ پر ہنگامہ آرائی کے دوران نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے تین راہ گیر بھی زخمی ہوگئے ۔ جنہیں ہسپتال پہنچادیا گیا۔ ہسپتال ذرائع کے مطابق دو زخمیوں‌کو گردن میں گولیاں‌لگی ہیں جس کے باعث ان کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے ۔

ادھر کالعدم مذہبی تنظیم لشکر جھنگوی نے حسین علی یوسفی کے قتل کی ذمہ داری قبول کرلی ہے ۔ تنظیم کے ترجمان علی حیدر نے نامعلوم مقام سے پریس کلب کوئٹہ فون کرکے بتایا کہ اپنے مقاصد کے حصول کےلیے مسلح جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔

ڈی آئی جی آپریشن کوئٹہ وزیر خان ناصر کے مطابق واقعہ کے بعد سریاب ، کیچی بیگ اور بروری روڈ کے علاقوں میں‌کالعدم مذہبی تنظیم کے خلاف کریک ڈائون کیا گیا جس کے دوران پندرہ مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے ۔

ادھر ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے جنرل سیکرٹری عبدالخالق ہزارہ نے پارٹی چیئرمین کی ہلاکت کے خلاف کل کوئٹہ میں شٹر ڈائون ہڑتال کی کال دیدی ہے ۔ سول ہسپتال میں‌ہنگامی پریس کانفرنس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ حکومت عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں‌ناکام ہوچکی ہے ، ہزارہ قبیلے کے افراد کو نشانہ بنایا جارہا ہے اس سے قبل بھی ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے چار اہلکاروں کو سریاب روڈ پر قتل کیا گیا اور واقعہ میں‌ملوث ملزمان کو تاحال گرفتار نہیں کیا جاسکا۔
 

زین

لائبریرین
تفصیلی خبر
yousufi.jpg

فائل فوٹو۔حسین علی یوسفی

کوئٹہ......صوبائی دار الحکومت کوئٹہ میں مصروف شاہراہ جناح روڈ پر مسلح افراد نے فائرنگ کرکے ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ حسین علی یوسفی کو قتل کردیا اور فرار ہوگئے ، واقعہ کے بعد شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے، مشتعل افراد کی فائرنگ اور پتھراﺅ سے بارہ افراد زخمی ہوگئے جبکہ ایک بینک تین گاڑیاںاور پانچ موٹر سائیکلیں نذر آتش کردی گئیں،نجی ٹی وی چینل سماءکے دفتر پر بھی فائرنگ کی گئی ، ہنگامہ آرائی کے بعد شہر مکمل طور پر بند ہوگیا ،پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں ،پولیس نے مشتعل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا ،سیکورٹی فورسز نے درجنوں مشتعل مظاہرین اورکالعدم مذہبی تنظیم کے بارہ مشتبہ ارکان کو بھی حراست میں لے لیا ،حالات قابو کرنے کے لیے فرنٹیئر کور نے شہر کا کنٹرول سنبھال لیا ،وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ، کالعدم مذہبی تنظیم لشکر جھنگوی نے واقعہ کی ذمہ داری قبول کرلی جبکہ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے پارٹی سربراہ کے قتل کے خلاف آج منگل کو کوئٹہ میں ہڑتال کی کال دیدی۔تفصیلات کے مطابق صوبائی دار الحکومت کوئٹہ میں نامعلوم مسلح افراد نے ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ حسین علی یوسفی کو جناح روڈ پر ڈاکٹر بانو روڈ کے قریب اس وقت فائرنگ کرکے قتل کردیا جب وہ اپنی گاڑی سے اتر کر دفتر کی طرف جارہے تھے ۔ ملزمان واردات کے بعد فرار ہوگئے۔ حسین علی یوسفی کی لاش سول ہسپتال پہنچادی گئی ۔واقعہ کی اطلاع ملتے ہی ایچ ڈی پی کے کارکن اور ہزارہ قبیلے کے افراد بڑی تعداد میں ہسپتال پہنچے اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی ۔ مظاہرین نے ہنگامہ آرائی شروع کردی جس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے پورے شہر میں ہنگامے ٹوٹ پڑے۔مشتعل مظاہرین نے جناح روڈ، پرنس روڈ، سائنس کالج چوک، قندھاری بازار، لیاقت بازار اور دیگر شاہراہوں پر ٹائر جلائے اور تمام بازار مکمل بند کرادیئے اور جناح روڈ پر واقع مسلم کمرشل بینک اور اس کے سامنے کھڑی دو گاڑیوں کو نذرآتش کردیا بینک کا عملہ اندر پھنس کر رہ گیا جنہوں نے کئی گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد اپنی مدد آپ کے تحت دروزاے و کھڑکیاں توڑ کر جان بچائی ۔ مشتعل مظاہرین نے بینک سے اس سے ملحقہ نجی ٹی وی چینل سماءکے دفتر پر بھی فائرنگ کی اور پتھراﺅ کیا جس سے ٹی وی وی دفتر کو شدید نقصان پہنچا ۔تاہم اس واقعہ میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ مشتعل مظاہرین نے پرنس روڈ اور دیگر مختلف شاہراہوں پر ٹریفک پولیس کی ایک موٹر سائیکل سمیت پانچ موٹر سائیکلوں کو بھی نذرآتش کردیا اس کے علاوہ مشتعل مظاہرین نے فائرنگ اور پتھراﺅ کرکے کرتے ہوئے دیگ رسرکاری و غیر سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچایا ۔ہنگاموں کے بعد شہر مکمل طور پر بند ہوگیا اور لوگوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ ذرائع کے مطابق منان چوک ، جناح روڈ، پرنس روڈ، قندھاری بازار دیگر مقامات پر ہنگامہ آرائی کے دوران فائرنگ سے آٹھ افراد زخمی ہوئے جبکہ پتھراﺅ سے چار افراد زخمی ہوئے جنہیں طبی امداد کے لیے ہسپتال پہنچادیا گیا ۔ اس دوران پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں کی بڑی تعداد حالات قابو کرنے کے لیے پہنچ گئی جس کے بعد مشتعل مظاہرین اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں شروع ہوگئیں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا اور درجنوں مظاہرین کو حراست میں لے لیا ۔شہر میں کشیدگی پھیلنے کے بعد انتظامیہ نے حالات قابو میں رکھنے کے لیے فرنٹیئر کور کو طلب کرلیا جس نے شہر کا کنٹرول سنبھال لیا ۔صوبائی حکومت نے شہر میں دفعہ 144نافذ کرتے ہوئے ڈبل سواری اور چار سے زائد افراد کے اجتماع پر بھی پابندی عائد کردی ۔ دریں اثناءایچ ڈی پی کے چیئر مین حسین علی یوسفی کے قتل کی ذمہ داری کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی نے قبول کرلی۔ اپنے آپ کو تنظیم کا ترجمان ظاہر کرنے والے علی حیدر نے نامعلوم مقام سے کوئٹہ پریس کلب فون کرکے بتایا کہ اپنے مقاصد کے حصول کےلیے مسلح جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔ ادھر ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے جنرل سیکرٹری عبدالخالق ہزارہ نے سول ہسپتال کوئٹہ میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے فرقہ وارانہ دہشت گردی اورٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کو حکومت کی ناکامی و نا اہلی قرار دیا انہوں نے بتایا کہ حسین علی یوسفی کے جسدخاکی کو منگل کی صبح دس بجے ہزارہ قبرستان عملدرآمد روڈ میں ہزاروں سوگواران کی موجودگی میں سپرد خاک کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو دہشت گردی کے نیٹ ورک کو توڑنے میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے مستعفی ہوجانا چاہیئے ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ کئی عرصے سے ہزارہ قبیلے کے افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے گزشتہ روز بھی سریاب روڈ پر ہزار ہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں کو قتل کیا گیا ۔ حکومت اب تک ان واقعات میں ملوث کسی ایک ملزم کو بھی گرفتا ر کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی حکومتی شخصیت حسین علی کی تعزیت کےلیے ہمارے پاس نہ آئیں ۔ اب ہم اپنی حفاظت کےلیے خود اقدامات اٹھائیں گے۔ ادھروزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے صورتحال کا جائزہ لینے کےلیے اعلیٰ سطحی کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے ۔ ان واقعات کے خلاف گزشتہ روز ہزارہ سٹوڈنٹس فیڈریشن نے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا اور کہا تھا کہ ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات سے لوگ نفسیاتی مریض بن رہے ہیں۔ اس ماہ کے پچیس دنوں میں مبینہ طور پر فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کے حوالے سے آدھا درجن سے زیادہ افراد کو ہلاک کیا گیا ہے۔ بلوچستان میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات انیس سو ننانوے سے شروع ہوئے جس کے بعد سن دو ہزار تین اور دو ہزار چار میں بڑے واقعات ہوئے جن میں امام بارگہ اثنا عشریہ سریاب روڈ پر ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے پولیس کیڈٹس پر فائرنگ اور عاشورہ کے جلوس پر حملہ نمایاں ہیں۔
 
Top