کمپیوٹر کے عہد میں اردو املاء۔۔ کچھ استفسار

الف عین

لائبریرین
کمپیوٹر کے عہد میں اردو املاء۔۔ کچھ استفسار
اعجاز عبید

کمپیوٹر کے جدید دور میں داستانِ حمزہ۔۔ معذرت کہ میں پہلے جملے میں ہی املاءکی غلطی کر گیا، میرا مطلب داستانِ امیر حمزہ سے نہیں بلکہ ’ہمزہ‘ سے تھا جو اردو کا عجیب و غریب اور معصوم سا ایک حرف ہے۔ لیکن یقین جانیے کہ اس لفظ ہمزہ کو میں نے انٹر نیٹ پر اکثر ’حمزہ‘ لکھا دیکھا ہے۔اب بات کیوں کہ ہمزہ کی ہے تو دور کیوں جایئے، حیدرآباد کے ادارۂ ادبیاتِ اردو جیسے اردو کے ثقہّ ادارہ اپنی مطبوعات میں ’ادارہءادبیاتِ اردو‘ لکھنا شروع کر دے تو۔۔۔؟
اس سلسلے میں پہلے ایک وضاحت کر دوں کہ کمپیوٹر کی اصطلاح میں ایک لفظ ہے ’کیریکٹر‘ (Character)، اس سے مراد کسی کا کردار یا سیرت نہیں ہے بلکہ وہ شے ہے جو کمپیوٹر کے کی بورڈ۔ کلیدی تختے۔ پر کسی کنجی کو دبا کر نتیجے کے طور پر برامد ہوتی ہے۔ چناں چہ سارے حروف ہی نہیں، اعداد علامتیں جیسے کاما، قوسین، واوین اور اوقاف و رموز ہی نہیں دو الفاظ کے درمیان دی جانے والی خالی جگہ بھی شامل ہے جو کی بورڈ کی سپیس بار کو دبانے سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ خلاءبھی ایک کیریکٹر ہے۔ چناں چہ ہم آگے اس لفظ کا اکثر استعمال کریں گے۔
اب واپس اپنے موضوع کی طرف۔
کمہیوٹر کے اس زمانے میں اردو لکھنے کے جو بھی طریقے ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ کسی طریقے میں درست املاءلکھنا ممکن نہ ہو۔ امکان یہی ہے کہ ٹائپسٹ اور کمپوزر حضرات اس لکھنے کے طریقے سے کماحقہْ (اکثر اس لفظ پر بھی الٹا پیش نہیں دیا جاتا۔ حالاں کہ ایسے الفاظ جو گفتگو میں کم مستعمل ہوں اور جن کادرست تلفظ اعراب پر منحصر ہو، اعراب ضروری ہیں) واقف نہیں ہیں یا محض سہل پسند ہیں۔ اور ناشرین کو مطمئن کر دیتے ہیں کہ اس سافٹ وئیر میں اس طرح لکھنا ممکن نہیں۔
اب جب کہ ۶ سال قبل ونڈوز 2000 کے اجراءکے بعد کسی بھی سافٹ وئیر میں اردو لکھنا ممکن ہو گیا ہے، اردو میں ای میل کیا جا سکتا ہے، ویب سائٹس اردو تحریر میں اسی طرح بنائی جا سکتی ہیں جس طرح انگریزی کی ویب سائٹس۔ اور ان پیج جیسے سافٹ وئیرس کی چنداں ضرورت نہیں، اس بات کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کہ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ پر اردو کی بطور زبان سپورٹ کی موجودگی میں جب اردو سہولیات اتنی آسان ہو گئی ہیں تو اردو تحریر کے اس دور میں اردو املاءکا معیار مقرر کیا جائے۔ یہ اس لئے بھی کہ ماشاءاللہ ہمارے ادیب و شعراءبھی کمپیوٹر پراپنی تخلیقات کمپوز کر کے اکثر ای میل سے جرائد کو بھیجنے لگے ہیں۔
اب جولائی 2006 میں مائکرو سافٹ کمپنی نے ونڈوز ایکس پی کا اردو مواجہ (انٹر فیس ۔Interface۔ کا یہ مائکروسافٹ کا ہی اردو ترجمہ ہے) بھی ریلیز کر دیا ہے، اس میں بھی لائحۂ عمل کو لائحہءعمل لکھا جائے تو کیا گوارا ہوگا؟ مایئکروسافٹ کچھ ماہ قبل ہی اپنے آفس سوئٹ کے بھی اردو ورژن کا اجراءکر چکی ہے۔ اور اس طرح اردو کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس ضمن میں یہ ہندی سے بھی آگے ہے جسکا ایم ایس آفس کا ہندی انٹر فیس اب تک ریلیز نہیں ہوا ہے۔
کچے تکنیکی گفتگو مزید کروں کہ شاید کہ آپ کے دل میں اتر جائے مری بات۔۔
انٹر نیٹ اور کمپیوٹر میں اردو کی بطور زبان سپورٹ جس وجہ سے ممکن ہو سکی ہے، اس کا نام ہے یونی کوڈ (Unicode) جو دراصل یونیورسل کوڈ (Universal Code)کا مخففّ ہے۔ اس لئے کچھ یونی کوڈ کے بارے میں ’نظر خراشی ‘کی اجازت دیں۔
کمپیوٹر صرف ایک زبان سے واقف ہے، یعنی یہ بھی غلط ہے کہ کمپیوٹر محض انگریزی جانتا ہے، اس کی زبان صرف اور صرف بائنری (Binary) ہے جو صرف ایک اور صفر ک ے ہندسے استعمال کر کے بنتی ہے، صفر مطلب موجود نہیں، ایک مطلب موجود۔ اور جس کی اکائی دہائی سیکڑہ دو(2) پر بڑھتی ہوئی قوتیں ہیں۔ یعنی
20=1
21=2
22=8
23=16
وغیرہ۔ مثال کے طور پر انگریزی کا حرف ’اے‘ (A)لیں۔ اس اے کا ایک کوڈ میں عدد مقرر ہے 65۔ اسے بائنری زبان میں اس طرح لکھا جائے گا:
65=64+0+0+0+0+1
26 =2x2x2x2x2x2= 64۔ 65 میں شامل ہے یعنی ایک
25 = 2x2x2x2x2 = 32۔ شامل نہیں یعنی صفر
24 = 2x2x2x2=16۔ شامل نہیں یعنی صفر
23 = 2x2x2=8۔ شامل نہیں یعنی صفر
22 = 2x2 = 4۔ شامل نہیں یعنی صفر
21 = 2 = 2۔ شامل نہیں یعنی صفر
20 = 1 شامل ہے یعنی ایک
چنانچہ 65 کو اس طرح لکھا جائے گا:
100001
’سی‘ یعنی 67 کو اس طرح
64+0+0+0+2+1=67
100011
اور 120 کا عدد:
64+32+16+8+0+0+0= 120 = 1111000
یعنی 120میں دو پر6 کی قوت یعنی 64 شامل ہے، 5 کی قوت 32 شامل ہے، اور ان مقامات پر موجوdگی کے اظہار کے لئے ایک کا ہندسہ، لیکن دو پر دو کی قوت چار، ایک کی قوت دو اور صفر کی قوت ایک شامل نہیں اس لئے ان مقامات پر صفر۔
یہ مثال جو میں نے دی ہے وہ ونڈوز 2000 (اور لینکس نامی آپریٹنگ سسٹم کے 1998کے ورژن سے) سے قبل کا واحد امکان تھا اور اب بھی ہر آپریٹنگ سسٹم کی ’ڈیفالٹ‘ (پہلے سے موجود) صورت ہے، وہ حروف کے اظہار کے لئے استعمال کئے جانے والے کوڈ آسکی (ASCII, Americam System of Character Information Interchange)کی ہے۔ اور اگر آپریٹنگ سسٹم یہ کوڈ استعمال کرے تو یہ محض انگریز، درست کہا جائے تو محض لیٹن سکرپٹ کا بن کر رہ جاتا ہے۔ اس کوڈ میں آپ کو اردو یا ہندی لکھنے کی ضرورت ہو تو زبان نہیں محض خط یا فانٹ (Font) منتخب کرنے کی ضرورت ہو گی۔ اور جب آپ اپنی اردو یا ہندی تحریر کی کوئی فائل کسی اور کو دیں تو وہ اس وقت تک نہیں پڑھ سکے گا جب تک کہ اس کے پاس وہ فانٹ نہ ہو، یا وہ سافٹ وئر جس سے وہ زبان لکھی گئی ہے۔ مثلاً اردو کے لئے ان پیج سافٹ وئیر کی فائل دوسرے فریق کے پاس ان پیج ہونے پرہی کھل سکے گی اور پڑھی جا سکے گی۔ اس طریقے میں یہ عمل ہوتا ہے کہ ’اے‘ کے ٥٦ کی قدر کے تحت ہی متعلقہ فانٹ میں اے کی جگہ ہندی کا ما یا اردو کا ج متخصص کر دیا گیا ہو۔ جب وہ فانٹ ہوگا تو آپ’ ما‘کو’ ماّ اور’ ‘ج کو ’ج‘ پڑھ سکیں گے ورنہ وہ آپ کو انگریزی کا ’اے‘ ہی نظر آئے گا۔تو یہ تھا آسکی کوڈ، اور دوسری زبانوں کے لئے بھی اسی قسم کے کوڈ تھے، عربی اور چینی کے لئے الگ، اور ان کوڈس کو استعمال کرنے والے آپرہٹنگ سسٹم۔۔ عربی ونڈوز علیٰحدہ تھی تو چینی ونڈوز علیٰحدہ۔ ہندوستان میں ہندوستانی زبانوں کے لئے ایک مشترکہ کوڈ بنایا گیا (ISCII, Indian System of Character Information Interchange)۔ جس میں ہندی ہی نہیں بنگالی گجراتی ٹمل اور ملیالم وغیرہ کے حروف کے کوڈ نمبرس مخصوص کئے گئے۔ چناں چہ بنگالی کا حرف کا ہو یا ہندی کا ، یا پھر اڑیا کا، سب کے لئے ایک ہی قدر۔ اردو کے لئے ایسی ہی ایک کوشش جیلانی بانو کے صاحب زادے اشہر فرحان نے کی، اور اس کوڈ کو انھوں نے پاسکی (PASCII, Persio Arabic System of Character Information Interchange) کا نام دیا۔ اسی کو انھوں نے اپنے اردو سافٹ وئیر اردو پیج کمپوزر یا صفحہ ساز میں استعمال کیا اور اب سی ڈیک نامی ادارہ بھی اسی کے استعمال سے اردو ناشر کے نام سے ایک ڈی ٹی پی سافٹ ویرکا اجراءکر چکا ہے۔ یہ پاسکی نظام بھی آسکی کی طرح ٨ بِٹ (8 Bit) نظام تھا، یعنی اس میں دو پر آٹھ کی قوت یعنی ٦٥٢ کیریکٹرس کی نمائندگی ممکن تھی جو ایک ہی فانٹ میں دئے جا سکتے تھے۔ اردو کے دوسرے سافٹ وئر جیسے کاتب، راقم، اردو ماہر، نگار وغیرہ میں آسکی کا نظام استعمال کیا گیا تھا اور صفحہ ساز اور اردو ناشر میں پاسکی۔ لیکن یہ کوڈ پھر بھی اس قابل نہ تھے کہ مکمل آپریٹنگ سسٹم بنایا جا سکے۔
جب کئی زبانوں کے اس طرح علیٰحدہ علیٰحدہ کوڈس بنا دئے گئے تب کمپیوٹر کے ماہرین کو خیال آیا کہ اب جب کہ کمپیوٹنگ ونڈوز 95 کے زمانے سے ہی ترقی پا کر 16اور 32بِٹ (اور اب پچھلے دو سال میں 64بِٹ بھی) کے دور میں داخل ہو چکی ہے تو کیوں نہ 16یا 32 بِٹ کوڈ بنایا جائے۔ سولہ بِٹ کا مطلب ہے 65ہزار سے (صحیح تعداد65536) زائد کیریکٹرس جو ایک ہی فانٹ میں ممکن ہیں۔ اور 32اور 64بِٹ کے کوڈ کا تو ابھی صرف خواب ہے کہ 65ہزار کیریکٹرس کے اس بین الاقوامی کوڈ میں ہزاروں زبانوں کے حروف شامل کرنے پر بھی لا تعداد کیریکٹرس کی جگہیں اب بھی خالی بچی ہیں۔ اسی آفاقی کوڈ میں اب انگریزی کے حروف بھی شامل ہیں اور اردو عربی بنگالی اور چینی کے بھی۔ اردو کے ’ج‘ کا الگ عدد مقرر ہے تو ہندی کے ’جا‘ کا علیٰحدہ، پنجابی کے ’جا‘ کا الگ۔ اس آفاقی کوڈ جس کا 4.2 ورژن اگست 2005میں ریلیز ہوا ہے، کو یونی کوڈ کہا جاتا ہے
یہ ساری باتیں میں نے اس لئے گوش گزار کرنی ضروری سمھیں کہ میں جن حروف کی بات کر رہا ہوں وہ ہر کوڈ میں شامل ہیں، آپ چاہیں ان پیج استعمال کریں یا صفحہ ساز، یا یونی کوڈ کی اردو تحریر۔۔ جس سے آپ ونڈوز کے ہر سافٹ وئیر میں اردو لکھ سکتے ہیں۔ نوٹ پیڈ ہو یا مائکرو سافٹ ورڈ، پینٹ ہو یا کورل ڈرا، یا آپ کے ای میل کا متنی خانہ (Text Box)۔
اب املاءکے موضوع پر واپس۔ اور ہمزہ کی بات بعد میں، ابتدا میں’ا ¿‘ سے کرتا ہوں۔ الف کے اوپر ہمزہ، یہ وہی حرف ہے جو جرأت یا قرأة میں لکھا جاتا ہے (کبھی کبھی ’قرأۃ ‘ کو تو میں نے ’قرات‘ یا ’قراتہ‘ بھی لکھا دیکھا ہے)۔ آپ تلاش کریں تو آپ کے کی بورڈ کی کسی نہ کسی کنجی سے یہ حرف برامد ہوتا نظر آئے گا۔ ان پیج کے فونیٹک کی بورڈ میں یہ حرف ڈیش اور انڈر سکور کی کنجی پر ہے، اور یہی اردوصوتی کی بورڈ میں بھی ’أ‘ کی کنجی ہے۔ لیکن اکثر حضرات یہ تلاش گوارا نہیں کرتے۔ یونی کوڈ میں یہ ایسا کیریکٹر ہے جس کی ایک مقدر مقرر ہے، یہ ہے 0623۔ اور یہ ایک ہی کنجی سے بن سکتا ہے۔ دوسری ترکیب یہ ہو سکتی ہے، جو کچھ لوگ کرتے بھی ہیں، یعنی آپ الف ٹائپ کریں اور اس کے بعد اس کے اوپر ہمزہ لگا دیں۔ یعنی دو کنجیاں استعمال کریں۔۔ الف اور اوپر ہمزہ۔۔ یہ اوپر ہمزہ بھی ایک مخصوص کیریکٹر ہے یونی کوڈ میں بھی اور جس کی قدر 0654 مقرر ہے۔ کچھ اردو عربی فارسی فانٹس میں ان دونوں صورتوں میں (یعنی واحد کیریکٹر الف ہمزہ، اور الف اور اس کے اوپر ہمزہ) شکل ایک جیسی ہی بنتی ہے۔ جب کہ کچھ فانٹس میں اوپر ہمزہ کی اونچائی کچھ زیادہ ہوتی ہے۔ (ان پیج میں بھی ان کی شکل ایک جیسی رہتی ہے، أ اور أ)۔ اس سلسلے میں میرا اصول بھی وہی ہے کو اسلام کا ہے، جو آسان طریقہ ہو وہ اختیار کیا جائے۔ جب محض ایک ہی کنجی سے آپ ’أ‘ بنا سکتے ہیں تو دو کنجیاں کیوں؟
اس کے بعد اگلا معاملہ میں ’آ’ کا لے رہا ہوں، الف کے اوپر مد۔ یہاں بھی بالکل ’أ ‘ کا ہی معاملہ ہے۔ اوپر مدہ بھی الگ سے مقرر ہے اور الف مدہ بھی۔ بیشتر فانٹس میں اوپر مدہ لگانے سے یہ مد الف کے بہت اوپر چلا جاتا ہے، جب کہ الف مدہ (یونی کوڈ میں 0622) میں مد کی اونچائی کم ہی ہوتی ہے۔ یہاں بھی میرا مشورہ۔۔ واحد کنجی استعمال کر کے الف مد ٹائپ کریں۔
اگلا معاملہ میں ’ؤ‘ کا لے رہا ہوں۔ اس کی یونی کوڈ قدر 0624 ہے، یعنی یہ بھی محض ’و‘ سے الگ ایک کیریکٹر مانا گیا ہے۔ ان پیج اور صفحہ ساز میں بھی اس کی کنجی الگ ہے۔ یہاں میں ان اردو سافٹ ویرس کی ایک۔۔ اسے خامی ہی کہنا بہتر ہوگا۔۔ کی بات کروں گا۔ ان میں آپ ہمزہ واؤ کی واحد کنجی نہ استعمال کرتے ہوئے ہمزہ اور واؤ بھی ٹائپ کریں تو نتیجہ یکساں برامد ہوتا ہے، یونی کوڈ میں نہیں۔ اس میں جو صورت بن جائے گی وہ کچھ اس قسم کی ہوگی۔ ’ ئو‘۔ جو ظاہر ہے کہ غلط ہے۔ اور اب کیوں کہ اردو کی تحریری ویب سائٹس بنانے کے لئے متن کا اردو تحریر یعنی یونی کوڈ میں ہونا ضروری ہے، ان پیج وغیرہ کی فائلوں کو اردو تحریر میں تبدیل کیا جاتا ہے (اس کے لئے تبدیل کنندہ۔۔کنورٹرس۔۔ موجود ہیں) اور اس تبدیلی کے بعد ’ؤ‘ یا تو ’ئو‘ بن جاتا ہے یا ’ءو)۔ اس لئے میری درخواست ہے کہ اردو ٹائپ کرنے والے محض یہ نہ دیکھیں کہ پرنٹ میں کیا شکل نکل رہی ہے، بلکہ یہ بھی دیکھیں کہ آیا وہ صحیح طریقہ ہے؟ اسے بھی واحد کنجی سے لکھیں۔ اور میں نے دیکھا ہے کہ نہ صرف واحد کیریکٹر ’ؤ‘ یا ’و‘ اور ’ ٔ ‘ یعنی اوپر ہمزہ‘ کچھ سہل پسند کاتب یا کمپوزر محض ’و‘ لکھ کر چھوڑ دیتے ہیں، شاید ان کو ’ؤ‘ کی کنجی کا علم نہیں اور دو کنجیاں استعمال کرنے میں انھیں کاہلی محسوس ہوتی ہو۔
ایک تیسرا طریقہ بھی ممکن ہے ’ؤ‘ لکھنے کا۔ یعنی واؤ اور اس کے بعد اوپرہمزہ، جیسا کہ میں ’ؤ‘ کے مقدمے میں لکھ چکا ہوں۔ اس صورت میں بھی اکثر فانٹس میں یہ واؤ کے اوپر زیادہ اونچائی پر نظر آتا ہے نسبتاً ’ؤ‘ کے واحد کیریکٹر کے۔ اور یہ غلط ہے۔ البتّہ یہاں اس سلسلے میں میں خود سوالیہ نشان ہوں۔ یونی کوڈ میں جب ’أ‘اور ؤ‘ کے کوڈ اعداد مقرر ہیں اور یہ علیحدہ کیریکٹرس مانے گئے ہیں تو پھر یہ اوپر ہمزہ اور نیچے ہمزہ کے دو مزید کیریکٹرس کیوں؟ میرا سوال یہی ہے کہ کیا الف اور واؤ کے علاوہ بھی کسی اور حرف پر اوپر ہمزہ ممکن ہے؟ اور یہ نیچے ہمزہ کن حروف کے ساتھ اور کن الفاظ میں ممکن ہے؟؟
اب آئیے ایک اور اہم معاملہ۔ ’ۂ‘ کا۔ اردو میں اس کی دو صورتیں ممکن ہیں۔ایک تو یہ کہ ’ہ‘ سے پہلے ایسا حرف ہو جو ہ سے ملنے پر (بلکہ کسی بھی حرف سے ملنے پر) علیٰحدہ شکل بناتا ہو۔ جیسے ب۔ پ، ت، ک، گ، ن وغیرہ، اور دوسری یہ کہ صورت کہ ’ہ‘ سے پہلے جو حرف ہو وہ اپنی شناخت برقرار رکھتا ہو۔ جیسے د، ذ، ر، ز وغیرہ۔ اوّل الذکر کی مثال ہے ’نالۂ دل‘ یا منصئہ شہود،مؤخر الذکر کی مثالیں ’جادۂ عشق‘ اور ’ستارۂ سحری‘۔ یونی کوڈ میں ’ ۂ ‘ کا کوڈ مقرر ہے اور ہر کی بورڈ میں اس کے لئے کنجی بھی مخصوص۔ آپرہٹنگ سسٹم کا یونی کوڈ انجن خود دیکھ لیتا ہے کہ کس صورت میں شکل ’ ۂ ‘ کی بنے گی اور کس صورت میں ملحقہ ’ہ ‘ کے اوپر۔ لیکن آپ رسائل، کتابوں اور انٹر نیٹ پر دیکھیں توغالب کی بزم سے ہی نہیں ہر جگہ سے ’نالۂ دلّ اس طرح پریشاں نکلتا ہے:
نالہ ء دل (نالہ۔ خالی جگہ بمعنی سپیس۔ہمزہ۔ سپیس۔ دل
نالہءدل (نالہ۔ ہمزہ ۔ سپیس۔دل)
نالہئدل (نالہ۔ہمزہ۔دل، کہیں سپیس نہیں)
نالۂ دل (نالہ، اور اوپر ہمزہ۔ دل، خالی جگہ کہیں ہو یا نہ ہو)
نالہ دل (نال دل پڑھے یا نالۂ دل، جو مزاجِ یار میں آئے)
نالۂ دل (نال۔ ۂ۔ دل۔ خالی جگہ کا فرق نہیں چاہے ہو یا نہ ہو)
اور یقیناً یہ آخری شکل ہی درست ترین ہے۔
نالہ ءدل اور نالہ دل یا ادارہ ءادبیات لکھنے والے حضرات تو سہل پسند ہی کہے جا سکتے ہیں۔ یہی نہیں میں تو اکثر و بیشتر’ فوراً‘ اور ’ مجبوراً‘ کو بھی ’ فورا‘ اور ’ مجبورا‘ یعنی بغیر تنوین (دو زبر) کے لکھا دیکھتا ہوں۔ بلجکہ کچھ حضرات نے تو یہ جدت نکالی ہے کہ ’اً‘ کی جگہ الف پر واوین (تخاطبی نشانات۔ Quotation marks) استعمال کئے جائیں!! یعنی فوراً کو فورا” یقینا” مجبورا” ہی لکھا ہوگا ان حضرات نے، متعدد کنجیاں دبانا آسان ہے بہ نسبت درست کنجی ڈھونڈھنے کے!!
اب ’ ء‘ اور ’ئ‘ کی بات لی جائے۔ بات شروع میں نے اسی سے کی تھی لیکن پہلے ادھر ادھر کی باتیں کر کے آپ کو بہلاتا رہا تھا۔ مفرد ہمزہ اردو میں محض اختتامی شکل میں ہی استعمال کی جاتی ہے، جیسے املاء، اجزاء، اشیاء وغیرہ۔ اکثر کمپوزر حضرات اس آخری ہمزہ کو بھی تناول فرما لیتے ہیں، اور کچھ تو ادباءاور شعراءاپنے مسودوں میں ہی اسے استعمال نہیں کرتے۔ تو کاتب تو وہی لکھیں گے جو پڑھیں گے۔ ہمزہ کا عمومی استعمال درمیانی شکل میں ہی ہوتا ہے۔جیسے جائزہ، ہیئت، وغیرہ۔ یونی کوڈ میں مفرد ہمزہ کو علیٰحدہ کیریکٹر مانا گیا ہے اور درمیانی ہمزہ علیٰحدہ۔ اور اسےنہ جانے کس ضرورت کے تحت ’ہمزہ ی‘ یعنی ’ئ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ایک ہی کیریکٹر ہے جو لفظ کے آخر میں آئے تو ’ئ‘ بن جاتا ہے اور درمیان میں آئے تو درمیانی ہمزہ۔ اس ہمزہ ی کیریکٹر کے باوجود اکثر حضرات ’آئی‘ کو اس طرح لکھتے ہیں ’آ+ئ+ی۔’ آئی‘۔ چناں چہ اب جو آخر میں سوالات اٹھا رہا ہوں وہ یہی ہیں کہ اردو علماء مشورہ دیں کہ اردو زبان کے حساب سے کیا صورت یا صورتیں درست ہیں:
آ+ئ= آئ
آ+ئ+ی= آئی
اسی طرح
گ+ئ= گئ
گ+ئ+ی=گئی
اس کے علاوہ ان الفاظ پربھی غور کریں:
آ + ی +ی+ ے۔۔۔ آییے
آ + ئ + ے۔۔۔ آئے
آ+ ی + ئے ۔۔۔ آیئے
آ + ئ + ی +ے ۔۔۔ آئیے (درست ترین؟)
اسی طرح یونی کوڈ اور صفحہ ساز یا ناشر میں ’ئے‘ کو بھی ایک الگ کیریکٹر مانا گیا ہے۔ پھر بھی آئے کو مختلف طریقوں سے لکھا جاتا ہے:
آ + ئے ۔۔ ۔آئے
آ + ئ +ے ۔۔۔آئے
یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ جہاں میں ’ئ لکھ رہا ہوں وہاں ان پیج اردو سافٹ ویر میں محض ’ئ‘ استعمال کی جائے گی، یونی کوڈ پر منحصر اردو تحریر میں ’ ئ ‘ کی کنجی،
مزید استفسار کسرۂ اضافت کے بارے میں ہی:کچھ حضرات نالۂ دل لکھ کر ’ لۂ‘ کے نیچے کسرِ اضافت یعنی زیر بھی لگاتے ہیں،اسے میں ذاتی طور پر غلط سمجھتا ہوں لیکن اردو کے علماءکیا کہتے ہیں؟
اضافت کی ایک اورصورت صاحبِ زبان سے انصاف طلب ہے۔ اکثر "بربادی ء دل" کو اس طرح لکھا جاتا ہے: "بربادئی دل" (د۔ ئ۔ ی)۔ اس صورت میں اس کا حصہ "دئی" گئی کے وزن پر پڑھنے کے زیادہ امکانات ہیں۔ جب کہ اگر ہمزہ استعمال کی جائے تو میرے خیال سے بہتر یہی ہے کہ محض ’ئ‘ استعمال کر کے "بربادئ دل" لکھا جائے۔ ایک تیسری صورت ہے کسر کی، یعنی بربادیِ دل۔ تو خدارا مجھے بتائیں کہ غالبِ خستہ کو رونا کس بات پر آیا تھا:
بے کسی ِ عشق پر
بے کسئ عشق پر
یا
بے کسئیِ عشق پر؟؟؟
اعجاز عبید
9۔1۔25/اے/1
ہاشم نگر، لنگر حوض،
حیدر آباد 500008
aijazubaid@gmail.com
 
Top