کلیاتِ سودا سے انتخاب - مرزا محمد رفیع سودا

فرخ منظور

لائبریرین
مقدور نہیں اس کی تجلّی کے بیاں کا

مقدور نہیں اس کی تجلّی کے بیاں کا
جوں شمع سراپا ہو اگر صرف زباں کا

پردے کو تعیّن کے درِ دل سے اٹھا دے
کھلتا ہے ابھی پل میں طلسماتِ جہاں کا

ٹک دیکھ صنم خانہء عشق آن کے اے شیخ
جوں شمعِ حرم رنگ جھمکتا ہے بتاں کا

اس گلشنِ ہستی‌ میں عجب دید ہے، لیکن
جب چشم کھلے گُل کی تو موسم ہوں خزاں کا

دکھلائیے لے جا کے تجھے مصر کے بازار
لیکن نہیں‌ خواہاں کوئی واں جنسِ گراں کا

قطعہ
سودا جو کبھی گوش سے ہمّت کے سنے تُو
مضمون یہی ہے جرسِ دل کی فغاں کا

ہستی سے عدم تک نفسِ چند کی ہے راہ
دنیا سے گزرنا سفر ایسا ہے کہاں کا
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہر سنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا

ہر سنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا
موسیٰ نہیں جو سیر کروں کوہِ طور کا

پڑھیے درود حسنِ صبیح و ملیح دیکھ
جلوہ ہر ایک پر ہے محمد کے نور کا

توڑوں یہ آئینہ کہ ہم آغوشِ عکس ہے
ہووے نہ مجھ کو پاس جو تیرے حضور کا

بے کس کوئی مرے تو چلے اُس پہ دل مرا
گویا ہے یہ چراغ غریباں کی گور کا

ہم تو قفس میں آن کے خاموش ہورہے
اے ہم صفیر! فائدہ ناحق کے شور کا؟

قطعہ
سودا! کبھی نہ مانیو واعظ کی گفتگو
آوازہء دہل ہے خوش آیند دور کا

ساقی سے کہہ کے ہے شبِ مہتاب جلوہ گر
دے بسمہ پوش ہو کے تُو ساغر بلور کا
 

فرخ منظور

لائبریرین
دامن صبا نہ چھو سکے جس شہسوار کا

دامن صبا نہ چھو سکے جس شہسوار کا
پہنچے کب اُس کو ہاتھ ہمارے غبار کا

موجِ نسیم آج ہے آلودہ گرد سے
دل خاک ہوگیا ہے کسی بے قرار کا

خونِ جگر شراب و ترشّح ہے چشمِ تر
ساغر مرا گِرو نہیں ابرِ بہار کا

سونپا ہے کیا جنوں نے گریبان کو مرے
لیتا ہے اب حساب جو یہ تار تار کا

سودا شرابِ عشق نہ کہتے تھے ہم نہ پی
پایا مزہ نہ تو نے اب اُس کے خمار کا؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
ٹوٹے تری نگہ سے اگر دل حباب کا

ٹوٹے تری نگہ سے اگر دل حباب کا
پانی بھی بھر پئیں تو مزہ ہے شراب کا

کہتا ہے آئینہ کہ سمجھ تربیت کی قدر
جن نے کیا ہے سنگ کو ہم رنگ آب کا

دوزخ مجھے قبول ہے اے منکر و نکیر
لیکن نہیں دماغ سوال و جواب کا

تھا کس کے دل کو کشمکشِ عشق کا دماغ
یارب! برا ہو دیدہء خانہ خراب کا

زاہد سبھی ہے نعمتِ حق جو ہے اکل و شرب
لیکن عجب مزہ ہے شراب و کباب کا

غافل غضب سے ہو کے، کرم پر نہ رکھ نظر
پُر ہے شرارِ برق سے دامن سحاب کا

قطرہ گرا تھا جو کہ مرے اشکِ گرم سے
دریا میں ہے ہنوز پھپولا حباب کا

اے برق کس طرح سے میں حیراں ہوں تجھ کنے
نقشہ ہے ٹھیک دل کے مرے اضطراب کا

سودا نگاہِ دیدہء تحقیق کے حضور
جلوہ ہر ایک ذرّے میں ہے آفتاب کا
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہر مژہ پر ہے ترے لختِ دل اس رنجور کا

ہر مژہ پر ہے ترے لختِ دل اس رنجور کا
خون ہے سو دار پر ثابت مرے منصور کا

پونچھتے ہی پونچھتے گزرے ہے مجھ کو روز و شب
چشم ہے یارب مری یا منہ کسی ناسور کا

آفتابِ صبحِ محشر داغ پر دل کے مرے
حکم رکھتا ہے طبیبو! مرہمِ کافور کا

کیا کروں گا لے کے واعظ ہاتھ سے حوروں کے جام
ہوں میں ساغر کش کسی کی نرگسِ مخمور کا

اس قدر بنت العنب سے دل ہے سودا کا برا
زخم نے دل کے نہ دیکھا منہ کبھو انگور کا
 

فرخ منظور

لائبریرین
رطوبت داغِ دل میرے کی ہے گرداب آتش کا

رطوبت داغِ دل میرے کی ہے گرداب آتش کا
فسونِ عشق نے زہرہ کیا ہے آب آتش کا

جہنم سے ڈراتا کیا ہے مے خواروں کو اے زاہد!
کہ چوبِ خشک سے بہتر نہیں‌ کچھ باب آتش کا

نہ پہنچا میرے اشکِ گرم سے آسیبِ مژگاں کو
بہا خاشاک کے سائے تلے سیلاب آتش کا

چمن میں ذکر گر اُس چہرہء گلنار کا آوے
تو ہر بلبل ہو جوں پروانہ پھر بے تاب آتش کا

جلاتی ہے جگر بے یار اتنا مے خوری سودا
پئیں ہیں جام گویا بزم میں احباب آتش کا
 

فرخ منظور

لائبریرین
گلہ لکھوں میں اگر تیری بے وفائی کا

گلہ لکھوں میں اگر تیری بے وفائی کا
لہو میں غرق سفینہ ہو آشنائی کا

زباں ہے شکر میں قاصر شکستہ بالی کے
کہ جن نے دل سے مٹایا خلش رہائی کا

مرے سجود کی دیر و حرم سے گزری قدر
رکھوں ہوں دعویٰ ترے در پہ جبہہ سائی کا

دماغ جھڑ گیا آخر ترا نہ اے نمرود!
چلا نہ پشّے سے کچھ بس تری خدائی کا

کبھو نہ پہنچ سکے دل سے تا زباں اک حرف
اگر بیاں کروں طالع کی نارسائی کا

دکھاؤں گا تجھے زاہد اُس آفتِ دیں کو
خلل دماغ میں تیرے ہے پارسائی کا

طلب نہ چرخ سے کر نانِ راحت اے سودا
پھرے ہے آپ یہ کاسہ لیے گدائی کا
 

فرخ منظور

لائبریرین
چمن ہے کس کے گرفتار زلف و کاکل کا

چمن ہے کس کے گرفتار زلف و کاکل کا
کہ اس قدر ہے پریشان حال سنبل کا

کبھی گزر نہ کیا خاک پر مری ظالم
میں ابتدا ہی سے کشتہ ہوں اِس تغافل کا

فلک خوشی سے تو جو کچھ عوض کرے میں کروں
سوائے غم کے ہے مایہ مرے توکّل کا

خبر شتاب لے سودا کے حال کی پیارے
نہیں ہے وقت مری جان یہ تامّل کا
 

فرخ منظور

لائبریرین
جی مرا مجھ سے یہ کہتا ہے کہ ٹل جاؤں گا

جی مرا مجھ سے یہ کہتا ہے کہ ٹل جاؤں گا
ہاتھ سے دل کے ترے اب میں نکل جاؤں گا

لطف اے اشک کہ جوں شمع گھُلا جاتا ہوں
رحم اے آہِ شرر بار! کہ جل جاؤں گا

چین دینے کا نہیں زیرِ زمیں بھی نالہ
سوتوں کی نیند میں کرنے کو خلل جاؤں گا

قطرہء اشک ہوں پیارے، مرے نظّارے سے
کیوں خفا ہوتے ہو، پل مارتے ڈھل جاؤں گا

اس مصیبت سے تو مت مجھ کو نکال اب گھر سے
تُو کہے آج ہی جا، میں کہوں کل جاؤں گا

چھیڑ مت بادِ بہاری کہ میں جوں نکہتِ گُل
پھاڑ کر کپڑے ابھی گھر سے نکل جاؤں گا

میری صورت سے تو بیزار ہے ایسا ہی تو دیکھ
شکل اس غم سے کوئی دن میں بدل جاؤں گا

نطق کہتا ہے مرا آج یہ ہر ناطق سے
آن کر ہونٹ ابھی طوطی کے سے مل جاؤں گا

کہتے ہیں وہ جو ہے سودا کا قصیدہ ہی خوب
اُن کی خدمت میں لیے میں یہ غزل جاؤں گا
 

فرخ منظور

لائبریرین
اے دیدہ خانماں تو ہمارا ڈبو سکا

اے دیدہ خانماں تو ہمارا ڈبو سکا
لیکن غبار یار کے دل سے نہ دھو سکا

تجھ حسن نے دیا نہ کبھو مفسدے کو چین
فتنہ نہ تیرے دور میں بھر نیند سو سکا

جوں شمع تن ہوا شبِ ہجراں میں صَرفِ اشک
پر جس قدر میں چاہے تھا اُتنا نہ رو سکا

قطعہ
سودا قمارِ عشق میں شیریں سے کوہ کن
بازی اگرچہ پا نہ سکا، سر تو کھو سکا

کس منہ سے پھر تُو آپ کو کہتا ہے عشق باز
اے روسیاہ! تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا
 

فرخ منظور

لائبریرین
نہ کھینچ اے شانہ ان زلفوں کو، یاں سودا کا دل اٹکا

نہ کھینچ اے شانہ ان زلفوں کو، یاں سودا کا دل اٹکا
اسیرِ ناتواں ہے یہ، نہ دے زنجیر کو جھٹکا

میاں میں‌ رات کو سن ہر کسی کے پاؤں کا کھٹکا
اُٹھایا سر کو بالیں سے تو پھر دیوار سے پٹکا

نہ آنکھوں میں تری جادو، نہ ہرگز سحر زلفوں میں
یہ دل جس سے ہے دیوانہ محبت کا ہے وہ لٹکا

پرے رہ برق، خارِ آشیاں میرے سے کہتا یوں
اڑے گا دھجیاں ہو کر ترا دامن جو یاں اٹکا

نواحی میں ترے کوچے کی ہے یہ حال سودا کا
کہ جوں چُغد آشیاں گم کرکے بستی میں پھرے بھٹکا
 

فرخ منظور

لائبریرین
آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مِل بنا

آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مِل بنا
کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دل بنا

سرگرمِ نالہ اِن دنوں میں بھی ہوں عندلیب
مت آشیاں چمن میں مرے متّصل بنا

جب تیشہ کوہ کن نے لیا ہاتھ تب یہ عشق
بولا کہ اپنی چھاتی پہ دھرنے کو سِل بنا

جس تیرگی سے روز ہے عشّاق کا سیاہ
شاید اسی سے چہرہء خوباں پہ تِل بنا

لب زندگی میں کب ملے اُس لب سے اے کلال
ساغر ہماری خاک کو مت کرکے گِل بنا

اپنا ہنر دکھاویں گے ہم تجھ کو شیشہ گر
ٹوٹا ہوا کسی کا اگر ہم سے دل بنا

سن سن کے عرضِ حال مرا یار نے کہا
سودا نہ باتیں بیٹھ کے یاں متّصل بنا
 

فرخ منظور

لائبریرین
تجھ قید سے دل ہو کر آزاد بہت رویا

تجھ قید سے دل ہو کر آزاد بہت رویا
لذّت کو اسیری کی کر یاد بہت رویا

تصویر مری تجھ بِن مانی نے جو کھینچی تھی
انداز سمجھ اس کا بہزاد بہت رویا

نالے نے ترے بلبل نم چشم نہ کی گُل کی
فریاد مری سن کر صیّاد بہت رویا

آئینہ جو پانی میں ہے غرق، یہ باعث ہے
تجھ سخت دلی آگے فولاد بہت رویا

سودا سے یہ میں پوچھا "دل میں بھی کسی کو دوں؟"
وہ کر کے بیاں اپنا روداد بہت رویا
 

فرخ منظور

لائبریرین
بے وجہہ نئیں ہے آئینہ ہر بار دیکھنا

بے وجہہ نئیں ہے آئینہ ہر بار دیکھنا
کوئی دم کو پھولتا ہے یہ گلزار دیکھنا

نرگس کی طرح خاک سے یہ میری اگیں ہیں چشم
ٹُک آن کر یہ حسرتِ دیدار دیکھنا

کھینچے تو تیغ ہے حرمِ دل کی صید پر
اے عشق! پر بھلا تو مجھے مار دیکھنا

ہے نقصِ جان دید ترا پر یہی ہے دھن
جی جاؤ یا رہو مجھے اِک بار دیکھنا

اے طفلِ اشک ہے فلکِ ہفتمیں پہ عرش
آگے قدم نہ رکھیو تُو زنہار دیکھنا

قطعہ
پوچھے خدا سبب جو مرے اشتیاق کا
میری زباں سے ہو یہی اظہار دیکھنا

ہر نقشِ پا پہ تڑپے ہے یارو ہر ایک دل
ٹُک واسطے خدا کے یہ رفتار دیکھنا

کرتا تو ہے تو آن کے سودا سے اختلاط
کوئی لہر آگئی تو مرے یار دیکھنا

قطعہ
تجھ بن عجب معاش ہے سودا کا اِن دنوں
تو بھی ٹُک اُس کو جا کے ستم گار دیکھنا

نے حرف و نے حکایت و نے شعر و نے سخن
نے سیرِ باغ و نے گل و گلزار دیکھنا

خاموش اپنے کلبہء احزاں میں روز و شب
تنہا پڑے ہوئے در و دیوار دیکھنا

یا جا کے اُس گلی میں جہاں تھا ترا گزر
لے صبح تا بہ شام کئی بار دیکھنا

تسکینِ دل نہ اِس میں بھی پائی تو بہرِ شغل
پڑھنا یہ شعر گر کبھو اشعار دیکھنا

کہتے تھے ہم نہ دیکھ سکیں روزِ ہجر کو
پر جو خدا دکھائے سو ناچار دیکھنا
 

فرخ منظور

لائبریرین
اجل نے عہد میں تیرے ہی تقدیر سے یہ پیغام کیا

اجل نے عہد میں تیرے ہی تقدیر سے یہ پیغام کیا
ناز و کرشمہ دے کر اس کو مجھ کو کیوں بدنام کیا

چمن میں آتے سن کر تجھ کو بادِ سحر یہ گھبرائی
ساغر جب تک لاویں ہی لاویں توڑ سبو کو جام کیا

ناگن کا اس زلف کی مجھ سے رنگ نہ پوچھو، کیا حاصل
خواہ تھی کالی، خواہ وہ پیلی، بِس نے اپنا کام کیا

پوج مجھے اس دیرِ کہن میں کیا پوجے ہے پتھر کو
مجھ وحشی کو، سنا برہمن؟ بتوں نے اپنا رام کیا

تھا یہ جوانی فکر و تردد، بعد از پیری پایا چین
رات تو کاٹی دکھ سکھ ہی میں، صبح ہوئی آرام کیا

خاص کروں میں ہی نظّارہ توُ تَو دید کی لذّت ہے
کور بھلیں یہ آنکھیں اس دن، جس دن جلوہ عام کیا

کون سا مجھ سے حسنِ تردد عمل میں آیا تیرے حضور
دل کو غارت کر کے میرے، جان کو کیوں انعام کیا

مہر و وفا و شرم و مروّت سبھی کچھ اس میں سمجھے تھے
کیا کیا دل دیتے وقت اس کو ہم نے خیالِ خام کیا

لذّت دی نہ اسیری نے صیّاد کی بے پروائی سے
تڑپ تڑپ کر مفت دیا جی، ٹکڑے ٹکڑے دام کیا

شمع رخوں سے روشن ہو گھر ایسے اپنے کہاں نصیب
صبحِ ازل سے قسمت نے خاموش چراغِ شام کیا

فخر نہیں اے شیخ مجھے کچھ دین میں تیرے آنے کا
راہب نے جب منہ نہ لگایا تب میں قبولِ اسلام کیا

سُپش نہ ماری ہرگز کوئی تیرے حج کے شرائط میں
قتل اے حاجی نفس کو اپنے باندھ کے میں احرام کیا

ادب دیا ہے ہاتھ سے اپنے کبھو بھلا مے خانے کا
کیسے ہی ہم مست چلے پر سجدہ ہر اک گام کیا

میں یہ سماجت دیا ہے دل کو، جور و جفا کا شکوہ کیا
ان نے کب لینے پر اُس کے، قاضی کا اعلام کیا

یار کہے ہے "سودا کے ملنے سے مجھ کو کیا حاصل
شعر جو اُن نے خوب کہے آفاق میں اپنا نام کیا"
 
Top