کلام محسن نقوی

پاکستانی

محفلین
قتل چھپتے تھے کبھي سنگ کي ديوار کے بيچ

اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بيچ

اپني پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر

سر سلامت نہيں رہتے يہاں دستار کے بيچ

سرخياں امن کي تلقين ميں مصروف رہيں

حرف بارود اگلتے رہے اخبار کے بيچ

کاش اس خواب کي تعبير کي مہلت نہ ملے

شعلے اگتے نظر آئے مجھے گلزار کے بيچ

ڈھلتے سورج کي تمازت نے بکھر کر ديکھا

سر کشيدہ مرا سايا صف اشجا ر کے بيچ

رزق، ملبوس ، مکان، سانس، مرض، قرض، دوا

منقسم ہو گيا انساں انہي افکار کے بيچ

ديکھے جاتے نہ تھے آنسو مرے جس سے محسن

آج ہنستے ہوئے ديکھا اسے اغيار کے بيچ
 

پاکستانی

محفلین
ھم سے مت پوچھو راستے گھر کے

ھم سے مت پوچھو راستے گھر کے

ھم مسافر ہيں زندگي بھر کے

کون سورج کي آنکھ سے دن بھر

زخم گنتا ہے شب کي چادر کے

صلح کر لي يہ سوچ کر ميں نے

ميرے دشمن نہ تھے برابر کے

خود سے خيمے جلا ديئے ميں نے

حوصلے ديکھنا تھے لشکر کے

يہ ستارے يہ ٹوٹتے موتي

عکس ہيں ميرے ديدہ تر کے

گر جنوں مصلحت نہ اپنائے

سارے رشتے ہيں پتھر ک
 

پاکستانی

محفلین
ہوا کا لمس جو اپنے کواڑ کھولتا ہے

ہوا کا لمس جو اپنے کواڑ کھولتا ہے

تو دير تک مرے گھر کا سکوت بولتا ہے

ہم ايسے خاک نشيں کب لبھا سکيں گے اسے

وہ اپنا عکس بھي ميزان زر ميں تولتا ہے

جو ہو سکے تو يہي رات اوڑھ لے تن پر

بجھا چراغ اندھرے ميں کيوں ٹٹولتا ہے؟

اسي سے مانگ لو خيرات اس کے خوابوں کي

وہ جاگتي ہوئی آنکھوں ميں نيند کھولتا ہے

سنا ہے زلزلہ آتا ہے عرش پر محسن

کہ بے گناہ لہو جب سناں پہ بولتا ہے
 

پاکستانی

محفلین
ہجوم شہر سے ہٹ کر، حدود شہر کے بعد

ہجوم شہر سے ہٹ کر، حدود شہر کے بعد

وہ مسکرا کے ملے بھي تو کون ديکھتا ہے؟

جس آنکھ ميں کوئي چہرہ نہ کوئي عکس طلب

وہ آنکھ جل کے بجھے بھي تو کون ديکھتا ہے؟

ہجوم درد ميں کيا مسکرايئے کہ يہاں

خزاں ميں پھول کھلے بھي تو کون ديکھتا ہے؟

ملے بغير جو مجھ سے بچھڑ گيا محسن

وہ راستے ميں رکے بھي تو کون ديکھتا ھے؟
 

پاکستانی

محفلین
چہرے پڑھتا، آنکھيں لکھتا رہتا ہوں

چہرے پڑھتا، آنکھيں لکھتا رہتا ہوں

ميں بھي کيسي باتيں لکھتا رہتا ہوں؟

سارے جسم درختوں جيسے لگتے ہيں

اور بانہوں کو شاخيں لکھتا رہتا ہوں

مجھ کو خط لکھنے کے تيور بھول گئے

آڑي ترچھي سطريں لکھتا رہتا ہوں

تيرے ہجر ميں اور مجھے کيا کرنا ہے؟

تيرے نام کتابيں لکھتا رہتا ہوں

تيري زلف کے سائے دھيان ميں رہتے ہيں

ميں صبحوں کي شاميں لکھتا رہتا ہوں

اپنے پيار کي پھول مہکتي راہوں ميں

لوگوں کي ديواريں لکھتا رہتا ہوں

تجھ سے مل کر سارے دکھ دہراؤں گا

ہجر کي ساري باتيں لکھتا رہتا ہوں

سوکھے پھول، کتابيں، زخم جدائی کے
تيري سب سوغاتيں لکھتا رہتا ہوں

اس کي بھيگي پلکيں ہستي رہتي ہيں

محسن جب تک غزليں لکھتا رہتا ہوں
 

پاکستانی

محفلین
اتني مدت بعد ملے ہو

اتني مدت بعد ملے ہو

کن سوچوں ميں گم پھرتے ہو

اتنے خائف کيوں رہتے ہو؟

ہر آہٹ سے ڈر جا تے ہو

تيز ہوا نے مجھ سے پوچھا

ريت پہ کيا لکھتے رہتے ہو؟

کاش کوئی ہم سے بھي پوچھے

رات گئے تک کيوں جاگے ہو؟

ميں دريا سے بھي ڈرتا ہوں

تم دريا سے بھي گہرے ہو

کون سي بات ہے تم ميں ايسي

اتنے اچھے کيوں لگتے ہو؟

پچھے مڑ کر کيوں ديکھتا تھا

پتھر بن کر کيا تکتے ہو

جاؤ جيت کا جشن مناؤ

ميں جھوٹا ہوں، تم سچے ہو

اپنے شہر کے سب لوگوں سے

ميري خاطر کيوں الجھے ہو؟

کہنے کو رہتے ہو دل ميں

پھر بھي کتنے دور کھڑے ہو

رات بہت ہي ياد آئے ہو

ہم سے نہ پوچھو ہجر کے قصے

اپني کہو اب تم کيسے ہو؟

محسن تم بدنام بہت ھو

جيسے ہو، پھر بھي اچھے ہو
 

پاکستانی

محفلین
آہٹ سي ہوئي تھي نہ کوئي برگ ہلا تھا

ميں خود ہي سر منزل شب چيخ پڑا

لمحوں کي فصيليں بھي مرے گرد کھڑي تھيں

ميں پھر بھي تجھے شہر ميں آوارہ لگا تھا

تونے جو پکارا ہے تو بول اٹھا ہوں، ورنہ

ميں فکر کي دہليز پہ چپ چاپ کھڑا تھا

پھيلي تھيں بھرے شہر ميں تنہائي کي باتيں

شايد کوئي ديوار کے پيچھے بھي کھڑا تھا

اب اس کے سوا ياد نہيں جشن ملاقات

اک ماتمي جگنو مري پلکوں پہ سجا تھا

يا بارش سنگ اب کے مسلسل نہ ہوئي تھي

يا پھر ميں ترے شہر کي راہ بھول گيا تھا

ويران نہ ہو اس درجہ کوئي موسم گل بھي

کہتے ہيں کسي شاخ پہ اک پھول کھلا تھا

اک تو کہ گريزاں ہي رھا مجھ سے بہر طور

اک ميں کہ ترے نقش قدم چوم رہا تھا

ديکھا نہ کسي نے بھي مري سمت پلٹ کر

محسن ميں بکھرتے ہوئے شيشوں کي صدا تھا
 

پاکستانی

محفلین
چاہت کا رنگ تھا نہ وفا کي لکير تھي

چاہت کا رنگ تھا نہ وفا کي لکير تھي

قاتل کے ہاتھ ميں تو حنا کي لکير تھي

خوش ہوں کہ وقت قتل مرا رنگ سرخ تھا

ميرے لبوں پہ حرف دعا کي لکير تھي

ميں کارواں کي راہ سمجھتا رہا جسے

صحرا کي ريت پر وہ ہوا کي لکير تھي

سورج کو جس نے شب کے اندھيروں ميں گم کيا

موج شفق نہ تھي وہ قضا کي لکير تھي

گزرا ہے سب کو دشت سے شايد وہ پردہ دار

ہر نقش پا کے ساتھ ردا کي لکير تھي

کل اس کا خط ملا کہ صحيفہ وفا کا تھا

محسن ہر ايک سطر حيا کي لکير تھي
 

پاکستانی

محفلین
ہر ايک زخم کا چہرہ گلا جيسا ہے

ہر ايک زخم کا چہرہ گلا جيسا ہے

مگر يہ جاگتا منظر بھي خواب جييسا ہے

يہ تلخ تلخ سا لہجہ، يہ تيز تيز سي بات

مزاج يار کا عالم شراب جيسا ہے

مرا سخن بھي چمن در چمن شفق کي پھوار

ترا بدن بھي مہکتے گلاب جيسا ہے

بڑا طويل، نہايت حسيں، بہت مبہم

مرا سوال تمہارے جواب جيسا ہے

تو زندگي کےحقائق کي تہہ ميں يوں نہ اتر

کہ اس ندي کا بہاؤ چناب جيسا ہے

تري نظر ہي نہيں حرف آشنا ورنہ

ہر ايک چہرہ يہاں پر کتاب جيسا ہے

چمک اٹھے تو سمندر، بجھے تو ريت کي لہر

مرے خيال کا دريا سراب جيسا ہے

ترے قريب بھي رہ کر نہ پا سکوں تجھ کو

ترے خيال کا جلوہ حباب جيسا ہے
 
Top