محسن نقوی کلامِ محسن نقوی

راجہ صاحب

محفلین
اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا
ابر کی زد میں ستارہ نہیں دیکھا جاتا

اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے اب تک
زیر خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا

موج در موج الجھنے کی ہوس بے معنی
ڈوبتا ہو تو سہارا نہیں دیکھا جاتا

تیرے چہرے کی تپش تھی کہ پلٹ کر دیکھا
ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا

آگ کی ضد میں نہ جا پھر سے بھڑک سکتی ہے
راکھ کی تہہ میںشرارہ نہیں دیکھا جاتا

زخم آنکھوں کے بھی ملتے تھے کبھی دل والے
اب تو ابرو کا اشارہ نہیں دیکھا جاتا

کیا قیامت ہے کہ دل جس کا نگر ہے محسن
دل پہ اس کا بھی اجارہ نہیں دیکھا جاتا
 

راجہ صاحب

محفلین
اے ستارہ شب زندگی!
وی شام١ کہر سی شام پھر
تیرے نام ہو تو غزل کہیں
وہی شام جس کی رگوں میں تھے
تری خواب انکھوں کے رت جگے
وہی صبح، دھوپ کی لاڈلی
ترے عارضوں پر کھلے تو پھر
رگ جاں سے نظم کشید ہو
وہی ساعتوں کا جلوس ہو
وہی رنگ ہو وہی روشنی
وہی خوش بوؤں کا ہجوم ہو!
وہی ایک پل تری دید کا
جو ملے تو اشک دمک اٹھیں
جو بجھے ہیں داغ، چمک اٹھیں
جو بجھے ہیں داغ، چمک اٹھیں
وہی ایک پل تری دید کا
جو ملے تو درد کی اوٹ میں
سبھی قہقہے سے چھلک پڑیں
سر لوح شام فراق پھر
غم عشق موج نوید ہو
اے ستارہ شب زندگی
ادھر آ کہ جشن ہو معتبر
نظر آ کہ ڈھنگ سے عید ہو
 

راجہ صاحب

محفلین
مغرور ہی سہی، مجھے اچھا بہت لگا
وہ اجنبی تو تھا مگر اپنا بہت لگا

روٹھا ہوا تھا ہنس تو پڑا مجھ کو دکھ کر
مجھ کو تو اس قدر بھی دلاسا بہت لگا

صحرا میں جی رہا تھا جو دریا دلی کے ساتھ
دیکھا جو غور سے تو وہ پیاسا بہت لگا

وہ جس کے دم قدم سے تھیں بستی کی رونقیں
بستی اجڑ گئی تو اکیلا بہت لگا

لپٹا ہوا کہر میں جیسے خزاں کا چاند
میلے لباس میں بھی وہ پیارا بہت لگا

ریشم پہن کے بھی میری قیمت نہ بڑھ سکی
کھدر بھی اس کے جسم پہ مہنگا بہت لگا

محسن جب آئینے پہ میری سانس جم گئی
مجھ کو خود اپنا عکس بھی دھندلا بہت لگا
 
Top