کلامَ حضرت شاہ حسینٌ (ترجمہ اور تشریح)

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
گھم وے چرخےیا گھم
9bjyZ.jpg
گُھم وے چرخےیا گُھم
تیری کَتن والی جیوے
نلیاں وٹن والی جیوے
گھوم اے چرخے گھوم
تجھے کاتنے والی (ہستی) کی خیر ہو
نلیاں (دھاگے کا گولا) بٹنے والی (ہستی) کی خیر ہو
یہ زمین بھی گول ہے ، چاند ، سورج بھی گول ہیں ، اس کے علاوہ تمام سیارے، ستارے بھی گول ہیں، کہکشائیں بھی دائرے کی صورت ہیں​
چونکہ یہ ساری کائنات ایک محور کے گرد گھوم رہی ہے ، اس لیے حضرت شاہ حسین ؒ نے اسے چرخے سے تشبیہ دے کر ، داد دینے والے انداز میں فرمایا ہے کہ گھوم اے چرخے گھوم​
جو ذات واحد و لا شریک ذات تجھے کات (گھما) رہی ہے ، اس کی خیر ہو (یعنی اس کی عظمتوں کو سلام)​
کائنات میں ہر دم ستارے ٹوٹنے،بجھنے اور نئے ستارے وجود میں آنے کا عمل جاری ہے ، اسے شاعر نے نلیاں بٹنے سے تشبیہ دے کر ذات خدا وندی کی حمد کی ہے​
بڈھا ہویوں شاہ حسینا
دندیں جھیراں پیاں
اٹھ سویرے ڈھونڈن لگوں
سنجھ دیاں جوگیاں
شاہ حسینؒ میاں !! اب تم بوڑھے ہو گئے ہو
دانت تمہارے سب ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں
تم انہیں صبح اٹھ کے ڈھونڈ رہے ہو
جو صبح صادق کے وقت ہی جا چکی ہیں
اس شعر میں حضرت شاہ حسین ؒ اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ، کہ شاہ حسین اب تم بوڑھے ہوتے جا رہے ہو​
تمہاری آنکھ اب کھلی ہے جب عمر ساری گزر چکی ہے ۔ اس کی مثال یوں ہے کہ جو صبح صادق کے وقت جا چکے ہیں تم انہیں صبح کو سورج طلوع ہونے کے بعد ڈھونڈ رہے ہو، یعنی وقت تو تم نے گنوا دیا ، اب بے فائدہ کوشش میں لگے ہو​
ہر دم نام سنبھال سائیں دا
تاں توں استھر تھیویں
ہر دم مالک کے نام کا ذکر کرتے رہو
تب تم پاک ہو سکتے ہو
اس شعر میں ذکر الہٰی کی فضلیت اور ترغیب دی ہے ، کہ بندے کو چاہیے وہ ہر وقت اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرتا رہے​
اسی سے روح کی کثافت اور بوجھ دور ہوگا ، اور روح کو غذا ملے گی ، اور وہ ذکر کی برکت سےگناہوں کی سیاہی اور آلودگی سے پاک صاف ہوتی جائے گی​
چرخہ بولے سائیں سائیں
بائیڑ بولے گھوں
کہے حسین ؒفقیر سائیں دا
میں ناہیں سب توں
چرخہ سائیں سائیں بولتا ہے اور بائیڑ سے گھوں گھوں کی آواز آتی ہے
اپنے پروردگار کا فقیر شاہ حسین ؒ یہی کہتا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں سب کچھ تو ہے ۔
جب چرخہ کاتنے کیلئے گھمایا جاتا ہے، تو ہر چکر پر اس سے سائیں سائیں جیسی آواز آتی ہے​
اور بائیڑ جس پر دھاگہ لپٹتا جا رہا ہوتا ہے ، اس سے گھوں گھوں کی آوازیں آتی ہیں​
اللہ والے فنافی اللہ کے مقام پر ہوتے ہیں اس لیے انہیں دنیا کی ہر آواز ہر مظہر میں اللہ کے حسن کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔​
اب ذات حق کے مشاہدے میں غرق ہو کر فقیر شاہ حسین اپنی ذات کی نفی کر کے کہتا ہے ، کہ میں کچھ بھی نہیں سب کچھ اللہ کی ذات ہے​
کچھ ایسا ہی مولانا روم ؒ کا بھی شعر ہے :۔​
خشک تار و خشک چوب ، خشک پوست​
از کجا می آید ایں آوازِ دوست​
تار بھی خشک ہے ، لکڑی بھی خشک ہے ، اور کدو بھی خشک ہے​
پھر یہ محبوب کی آواز کہاں سے آ رہی ہے​
پیشکشنیرنگ خیال
ترجمہ و تشریح:۔ مسکین چھوٹا غالبؔ


 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
مائے نی میں کنوں آکھاں
مائے نی میں کنوں آکھاں، درد وچھوڑے دا حال نی
اے ماں !! میں اپنے دردِ جدائی کا احوال کس سے کہوں
انسان کی فطرت ہے کہ اسے جب کوئی درد یا تکلیف ہو تو وہ لاشعوری طور پر ماں کو ہی پکارتا ہے ۔ اس میں عمر کی کوئی قید نہیں ۔ بچہ ہو یا بڑا ، چاہے بوڑھا بھی ہو ، اس کے منہ غیر اختیاری طور پر "ہائے اماں" "اوئی ماں" کے الفاظ ہی نکلتے ہیں​
یہ الفاظ بھی اسی انسانی فطرت، اور نفسیات کے آئینہ دار ہیں ،​
درد جدائی سے صوفیا کرام روح کی اپنے مبدا سے جدائی کو کو قرار دیتے ہیں ، جس میں روح کو اپنے مبدا سے جدا کر ، پہلے عالم ارواح ، پھر اس دنیا میں انسانی جسم میں قید ہونا پڑا۔​
اسی بات کو مرزا غالبؔ نے بھی یوں کہا ہے :۔​
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا​
دھواں دُکھے میرے مرشد والا،جاں پھولاں تے لال نی
میرے مرشد والا دھواں اٹھتا ہے، اور روح کے اندر جھانکوں تو سرخ ہے
صوفیا کرام کی اصطلاح میں دل میں مرشد کریم کی محبت پیدا کرنے کو "سائیں دا مچ" کہتے ہیں ۔ "مچ" کو اردو میں آگ کا الاؤ یا بھڑکتی آگ کہتے ہیں ۔​
اس شعر میں شاہ حسین ؒ اپنی محبت کی تپش اور اس کی تابناکی کی کیفیت بیان کر رہے ہیں ، کہ یہ جو میرے منہ سے گرم آہیں نکلتی ہیں ، یہ در اصل میرے دل میں بھڑکتی عشق حقیقی کی آگ کا دھواں ہیں ۔ جو میرے دل میں میرے مرشد نے جلائی ہے۔ اور میری جان یا روح جل جل کے سرخ انگارہ ہو چکی ہے۔ جب میں نے اپنے اندر جھانک کے دیکھا تو میں نے اپنی روح کو یا جان کو سرخ پایا۔​
سولاں مار دیوانی کیتی، برہوں پیا خیال نی
تکلیفوں کی کثرت نے دیوانہ کر دیا ، اور جدائی کا ہی خیال میں رچ گئی
اس شعر کی حقیقی تشریح غالب ؔ کا یہ مصرعہ کرتا ہے​
ہوا جب غم سے یوں بے حس ، تو غم کیا سر کے کٹنے کا۔​
تکالیف کی کثرت ، اور تسلسل سے دماغ یا تو بے حس ہو جاتا ہے یا تاب نہ لا کر دیوانہ ہو جاتا ہے ۔​
جیسا کہ غالبؔ نے مزاح کے پردے میں یہی انسانی نفسیاتی نقطہ بیان کیا :۔​
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں​
جب اتنی کثرت سے درد یا تکلیف انسان برداشت کرے تو فطری طور پر اسے درد سے بھی انس ہو جاتا ہے ۔ اور یہی بات شاہ حسین ؒ نے کہی ہے کہ اس کثرت اور تسلسل سے آخر اب مجھے جدائی ، درد جدائی سے بھی محبت سی ہو گئی ہے​
اور یہی وہ مقام ہے ، جب درد خود دوا ہوا جاتا ہے ۔ بقول غالب:۔ درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا​
جنگل بیلے پھراں ڈھونڈیندی، اجے ناں پایو لال نی
جنگلوں ، بیلوں میں ڈھونڈتی پھری، لیکن ابھی تک گوہر مراد نہیں پایا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں انسان کی شہ رگ کے قریب ہوں ، میں انسان کے دل میں رہتا ہوں ۔ مگر انسان اسے جنگلوں اور ویرانوں میں ڈھونڈتا پھرتا ہے ۔​
اسی بات پر طنز کرتے ہوئے شاہ حسینؒ فرماتے ہیں کہ جنگلوں اور ویرانوں میں دھونڈتی پھرتی ہوں نجانے کب سے ، لیکن ابھی تک گوہر مراد ہاتھ نہیں آیا۔​
بقول بھلے شاہ سرکار:۔​
جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں، تے رب ملدا ڈڈوؤاں مچھیاں نوں​
جے رب ملدا جنگل پھریاں ، تے رب ملدا گایاں وچھیاں نوں​
(اگر رب نہانے دھونے سے ملتا تو پھر رب صرف مچھلیوں اور مینڈکوں کو ہی ملتا​
اگر رب جنگل پھرنے سے ملتا تو رب گائے ، بیل ، اور دیگر جنگلی جانوروں کو ملتا)​
دکھاں دی روٹی ، سولاں دا سالن، آہیں دا بالن بال نی
دکھوں کی روٹی ، تکالیف کا سالن ، اور آہوں کا ایندھن جلایا
اس میں راہ سلوک کی منزلیں، اس راہ میں پیش آنے والے مصائب کا ذکر کیا ہے اور بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس راہ پہ نئے آنے والوں کو ان چیزوں کیلئے تیار ہو کر آنا چاہیے۔ کیونکہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ راہ کی تکالیف اور مصائب سے اکثر لوگ بیچ راہ سے ہی لوٹ جاتے ہیں۔​
اس راہ کیلئے زاد راہ بتائی گئی ہے ، کہ دکھوں کی روٹی کھانی پڑے گی ، اور سالن تکالیف کا ہوگا ، جو تمہیں جدائی کے عالم میں آہوں کا ایندھن جلا کر خود ہی تیار کرنا پڑے گا۔کھانے پینے کی اشیا ء کےنام لکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جس طرح ہم رغبت سے خوراک یعنی روٹی اپنے پسندیدہ سالن کے ساتھ کھانا پسند کرتے ہیں ۔ اور اسے پھر ہضم کرکے جزو بدن بناتے ہیں ۔ ویسے ہی اس راہ کے مصائب کو خوراک کی طرح اپنے اندر اتارنا اور ہضم کرنا ہی کامیابی کی کنجی ہے ۔ ورنہ سب بے کار اور بے فائدہ ہے۔​
رانجھن رانجھن پھراں ڈھوڈیندی،رانجھن میرے نال نی
میں محبوب (اللہ تعالی) کو ڈھونڈتی پھرتی ہوں۔ جب کہ وہ تو میرے ساتھ ہی ہے
اس شعر میں شاعر نے اپنے مشاہدے کی بنا پر اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے ، کہ اللہ تعالیٰ تو انسان کے دل میں اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب رہتا ہے ۔اور نادان انسان اسے جنگلوں اور ویرانوں میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔​
رانجھن میرے نال کہنے کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے ، کہ جب اللہ تعالیٰ انسان کے دل میں بستا ہے ، تو بجائے کہ انسان اسے ڈھونڈنے جنگلوں میں نکل جائے ، انسانیت کی فلاح اور خدمت کرے ، یہی سوچ کر کہ جن کی بھلائی وہ کررہا ہے ، ان کے دل میں خدا بستا ہے ۔​
حقوق العباد کی بہت تاکید ہے شریعت ظاہری میں بھی اور شریعتِ باطنی میں بھی ۔​
مرزا غالبؔ کا بھی شعر ہے :۔​
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ​
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں​
اور علامہ اقبال ؒ نے بھی بہت خوبصورت انداز میں سمجھایا ہے :۔​
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا گیا انسان کو​
ورنہ طاعت کو کچھ کم نہ تھے کرو بیاں​
کہے حسین فقیر نمانا ، شوہ ملے تاں تھیواں نہال نی
بے چارا فقیر حسینؒ کہتا ہے ، شاہ(اللہ تعالیٰ) ملے گا تب نہال ہونگا
اپنے درد جدائی کا ذکر کرنے کے بعد شاہ حسینؒ فرماتے ہیں کہ جب اللہ کا قرب حاصل کر لوں گا ، تب نہال ہونگا، یا آرام میں آ جاؤں گا ۔ جدائی میں تو آرام یا چین و سکون کا خیال بھی محال ہے​
ترجمہ و تشریح :۔ مسکین چھوٹا غالبؔ
نظر ثانی و اضافہ :۔ نیرنگ خیال
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
جگ میں جیون تھوڑا

جگ میں جیون تھوڑا، کون کرے جنجال

اس دنیا میں جینا (عمر) بہت تھوڑے دن کی ہے ، کون اس جنجال میں پڑے
کیندے گھوڑے ، ہستی ، مندر، کیندا ہے دھن مال

کس کے گھوڑے ، شان و شوکت ، دین دھرم، اور کس کی ہوئی ہے دھن دولت
اے دنیا دن دو اے پیارے، ہر دم نام سنبھال

یہ دنیا صرف دو دن کی ہے ، ہر وقت آخرت کی فکر میں لگے رہو پیارے(یا ۔موت کو یاد رکھو)
کہے حسین فقیر سائیں دا، جھوٹا سب اے بیوپار

اللہ کا فقیر ، بے چارا حسین کہتا ہے ، کہ یہ سب بیوپار ، یعنی دنیا کے دھندے ، سب جھوٹ اور فریب ہیں

مرزا غالبؔ

ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسدؔ
عالم تمام حلقہ دام خیال ہے
ترجمہ و تشریح :۔ مسکین چھوٹا غالبؔ:angel:
 

مہ جبین

محفلین
چھوٹاغالبؔ ۔۔۔!
صرف ایک منفرد نام ہی نہیں بلکہ ایک منفرد شخصیت کا عکاس بھی ہے
ہر جہت سے بے مثال شخصیت
مزاح کا میدان ہو ،
سنجیدہ تحریر ،
تصوف کی پیچیدہ راہیں ہوں ،
عارفانہ کلام کی آسان زبان میں تشریح
یا
مقاماتِ مقدسہ کی زیارت

ہر صنف میں اِن صاحب نے اپنا لوہا منوایا ہے

میرے جیسے لوگ جو اردو کے علاوہ کوئی زبان نہ جانتے ہوں انکے لئے تو یہ ترجمہ ایک قیمتی سرمائے سے کم نہیں

زبردست ۔۔۔۔۔۔!

اللہ پاک اویس کو راہِ سلوک کی پُر پیچ گھاٹیوں سے آسانی کے ساتھ گزرنے کی توفیق عنایت فرمائے
اور مبتدیوں کی مدد کرنے کی طاقت عطا فرمائے آمین
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
مائے نی میں کِنوں آکھاں​
درد وچھوڑے دا حال نی​
دھواں دُھکے میرے مرشد والا​
جاں پھولاں تے لال نی​
سُولاں مار دیوانی کیتا​
برہوں پیا ساڈے خیال نی​
دُکھاں دی روٹی، سُولاں دا سالن​
آہیں دا بالن بال نی​
جنگل بیلے پھرے ڈھڈیندی​
اجے ناں پائیو لال نی​
رانجھن رانجھن پھراں ڈھوڈیندی​
رانجھن میرے نال نی​
کہے حُسین فقیر نمانا​
شوہ ملے تے تھیواں نہال نی​
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
دل درداں کیتی پوری نی، دل درداں کیتی پوری
لکھ کروڑ جنہاں دے جڑیا، سو بھی جُھوری جُھوری
بھٹھ پئی تیری چِٹی چادر، چنگی فقیراں دی بھوری
سادھ سنگت دے اوہلے رندے، بدھ تینہاں دی سوری
کہے حسین فقیر سائیں دا، خلقت گئی ادھوری

تھوڑا سا ٹوٹا پھوٹا ترجمہ بھی سن لو۔ چھوٹاغالبؔ کیطرح تو نہیں مگر پھر بھی۔ باقی تشریح وہ خود ہی بعد میں آپ کو کر دے گا۔

بیشک دل کے درد کی دولت نے مجھے مکمل کر دیا ہے۔ جن کے پاس لاکھوں کروڑوں موجود ہوتا ہے انکی ذات بھی ادھوری ہوتی ہے۔ تشنگی سے خالی نہیں ہوتی۔ مجھ فقیر کی بھوری چادر بہت بہتر ہے جبکہ تیری سفید چادر داغدار ہے۔ بیشک جو لوگ نیکوں سے فیضان نظر پاتے ہیں انکی عقل سلیم الطبع ہو جاتی ہے۔ حسین کا تو بس یہی کہنا ہے کہ دنیا سے خلقت ادھوری ہی رخصت ہوتی ہے۔
استدعا ہے کہ کمی بیشی کو نظر انداز کیا جائے۔

مہ جبین آپی
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
من اٹکیا بے پرواہ دے نال
من اٹکیا بے پرواہ دے نال
اس دین دونی دے شاہ دے نال
میرا دل اس بے نیاز ذات سے لگ گیا ہے
اس کے ساتھ ، جو دین اور دنیا(ساری کائنات) کا شہنشاہ ہے
اس شعر میں جہاں عشق حقیقی کا اظہار ہے ، وہیں بے بسی کا اظہار بھی ہے​
اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ جیسے کوئی انسان اپنی حیثیت اور مرتبے سے کئی گنا بڑی حیثیت اور مرتبے کے مالک انسان سے دشمنی مول لے لے ، تو اول تو اسے اس بات کا فخر بھی محسوس ہوتا ہے ، کہ دیکھو میں اس سے ڈرا بھی نہیں ، اور پنگا لے لیا۔ لیکن ساتھ ہی اسے یہ ڈر بھی ہوتا ہے ، کہ اب کیا ہوگا، اس دشمنی کا کیا نتیجہ ہونے والا ہے ؟ اس قسم کی فکریں بھی انسان کو لگ جاتی ہیں ۔​
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی فرمایا ہے کہ جب ہم نے قرآن کو پہاڑ پر اتارنا چاہا تو وہ لرز گئے، زمین پر اتارنا چاہا تو وہ کانپ گئی، انسان فطرت سے جلد باز ہے اس نے یہ بوجھ اٹھا لیا۔ اسے معلوم بھی نہیں تھا کہ یہ کتنی بڑی ذمہ داری اور بوجھ ہے ،یہی بات حضرت شاہ حسینؒ فرما رہے ہیں ، کہ انسانی فطرت کے مطابق میں نے بھی اس بے نیاز ذات سے دل لگا لیا ہے ۔ اب سوچتا ہوں کہ اس کو نبھاؤں گا کیسے؟​
کیونکہ پیار ، عشق کر لینا تو کوئی بڑی بات نہیں ، بڑی بات تو عشق کر کے نبھانا ہے ، اور یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے ، جو کہ آسان بھی نہیں۔​
قاضی ملاّں متاں ڈیندے
کھڑے سیانے راہ ڈسیندے
عشق کی لگے راہ دے نال
من اٹکیا بے پرواہ دے نال
قاضی ، اور مُلا ، مجھے تنبیہہ کر رہے ہیں ، خبردار کرتے ہیں
کئی سیانے راہنما ، سیدھا راستہ بتانے والے ، کہتے ہیں
اس لامکاں اور لا محدود ذات سے کیا عشق کرنا
میرا دل اس بے نیاز ذات سے لگ گیا ہے
قاضی سے مراد اہل علم ، منطقی اور فلسفی لوگ ہیں ۔ ملا ایک استعارہ ہے جو لکیر کے فقیر ، اجتہاد ، اور عمل سے عاری لوگوں کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔​
اب یہ سب اہل علم ، اور فلسفی ، اور ملا سب مل کر مجھے تنبیہہ کر رہے ہیں ، مجھے ڈرا رہے ہیں ، کہ باز آ جاؤ اس راستے سے ، اس راستے پر بہت ہی صعوبتیں اور آزمائشیں ہیں ۔یہ ایک بہترین طنز ہے ملا حضرات پر کہ وہ انسان کو خدا سے جوڑنے کی بجائے اس سے دور کرنے کا باعث بنتے ہیں ، بجائے کہ انسان کو اللہ کی رحمتوں ، اور نعمتوں کا شکر گزار ہونے کی ترغیب دے کر انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت جگائی جائے ، یہ لوگ اس کے الٹ کر رہے ہیں ، خدا کا ایسا تصور لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ، جس سے اول تو انسان خدا کی ذات سے دور ہوتا چلا جاتا ہے ، اگر بالفرض عبادت بھی کرتا ہے تو صرف دوزخ کے ڈر اور ثواب ، جنت کے لالچ میں ۔ جب کہ عبادت کی روح محبت ہونی چاہیے، انسان جنت دوزخ کیلئے عبادت کرنے کی بجائے ، اللہ کی محبت ، اللہ کا قرب پانے ، اور اللہ کی رضا کیلئے عبادت کرے ۔ اس خیال سے نیکیاں کرے کہ اس کام کے کرنے سے میرا پیارا اللہ خوش ہوگا، اور اس کام کو نہ کروں کہ اس کے کرنے سے میرا پیارا اللہ مجھے سے ناراض ہو جائے گا۔​
میرتقی میرؔ:۔​
جائے ہے جی نجات کے غم میں​
ایسی جنت گئی جہنم میں​
مرزا غالبؔ :۔​
طاعت میں تا، رہے نہ مے و انگبیں کی لاگ​
دوزخ میں ڈال دے کوئی لیکر بہشت کو​
ندیوں پار رانجھن دا ٹھانہ
کیتے قول ضروری جانڑا
منتاں کراں ملاّح دے نال
من اٹکیا بے پرواہ دے نال
ندی کے اس پار میرے محبوب کا ٹھکانہ ہے
میں نے قول قرار کیے ہیں، اس لیے جانا بھی ضروری ہے
اب ملاح کی منت سماجت کرتا ہوں
میرا دل اس بے نیاز ذات سے لگ گیا ہے
ندی کے پار محبوب کے ٹھکانے سے مراد حرمین شریفین ہی ہے ۔ پاکستان (شاعر کے ٹھکانے) اور محبوب حقیقی کے ٹھکانے کے درمیان ایک سمندر حائل ہے۔ اس سمندر کے پار محبوب کا ٹھکانہ ہے ۔ میں نے قول اور قرار کیے ہیں ، کا مطلب ہے ، کہ قبول اسلام کے وقت انسان اقرار کرتا ہے کہ وہ اسلام کے تمام اوامر ونہی کو بجا لائے گا۔ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن حج بھی ہے ۔ جو کہ انسان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے ۔ اب اسی قول اور قرار کو نبھانے کیلئے ، محبوب سے ایک بار ملنے ندی کے پار جانا ضروری ہے ورنہ محبوب کیا کہے گا، کہ عاشق سچا نہیں تھا، صرف ایک ندی پار کر کے مجھے ملنے اور اپنا قول نبھانے بھی نہیں آیا ، اس بات سے عشق کی رسوئی ہے اور مجھے یہ منظور نہیں ۔ اس لیے اب ملاح یعنی جہاز والے کی منت سماجت کرتا ہوں کہ مجھے ندی کے پار پہنچا دے۔​
اس ندی کے پار پہنچانے والی بات میں ایک زبردست نقطہ ہے۔ ذرا غور کیجئے ۔ عاشق بھی ہے ، محبوب بھی ہے ، محبوب کا ٹھکانہ بھی معلوم ہے، ملنے کیلئے جانے کا پکا ارادہ بھی ہے ، مگر راہ میں جو ندی حائل ہے ، اسے ملاح کی مدد کے بغیر پار نہیں کیا جاسکتا۔اگر کوئی یوسف ثانی صاحب جیسا جذباتی اپنے قوت بازو پر یقین کرتے ہوئے چھلانگ مار دے ، کہ تیر کر ہی محبوب کے ٹھکانے پہنچ جاؤں گا ، تو یہ خام خیالی ہے ، اول تو وہ اتنا دور تیر کر پہنچ ہی نہیں سکتا ۔ دوم یہ کہ اس سمندر میں صرف پانی ہی تو نہیں ہے ، اس میں وہیل مچھلیاں، شارک مچھلیاں ، آدم خور کیکڑے، آکٹوپس، اور خونخوار مگرمچھ بھی تو ہیں ، جو کہ ہر قدم پر گھات لگائے بیٹھے ہیں ۔ ایسے تیرکر تو ٹارزن یا ہر کولیس بھی کبھی نہیں پہنچ سکتا ، ایک عام انسان کی تو حیثیت ہی کیا۔ اب یہاں ضرورت ہے ایک کشتی کی اور کشتی ملاح کے بغیر بے کار ہے ۔ ملاح کو کرایہ دینا ہوگا ، یا اگر پلے کچھ نہیں تو اس کی خدمت کرنی ہوگی، اس کی منت سماجت کرنی ہوگی، اگر ملاح کو راضی کر لیا تو وہ محبوب کے ٹھکانے والے کنارے پر لگا دے گا۔ اب وصل کوئی مشکل نہیں ۔​
اسی ملاح کو ہم اپنی اصطلاح میں مرشد کریم کہتے ہیں۔​
کہے حسین فقیر نمانڑا
سچے صاحب نوں میں جانڑا
اوڑک کام اللہ دے نال
من اٹکیا بے پرواہ دے نال
بے چارا فقیر حسین ؒ کہتا ہے
کہ اس سچے شہنشاہ کو میں مانتا ہوں
آخر مجھے اس کے سامنے ہی پیش ہونا ہے
میرا دل اس بے نیاز ذات سے لگ گیا ہے
عشق ہمیشہ بے سروسامان ہی ہوتا ہے ، اس لیے شاہ حسین اپنی بے چارگی، اور بے سروسامانی کا ذکر کرتے ہیں ۔​
استادجی مرزا غالبؔ نے بھی کیا خوب فرمایا ہے :۔​
شوق ، ہر رنگ ، رقیب سر وساماں نکلا​
قیس، تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا​
جب عشق ہو جائے تو عشق محبوب کے علاوہ ہر چیز سے بے گانہ کر دیتا ہے ، ہر چیز سوا محبوب کے نگاہوں میں ہیچ ہو جاتی ہے ۔ اسی بات کا اظہار شاہ حسین نے اس شعر میں کیا ، کہ میرا مطلوب و مقصود صرف وہی حسن مطلق، محبوب حقیقی ہے، جو کہ تمام کائنات کا اکیلا مالک اور شہنشاہ ہے ۔ وہ مالک یوم الدین ہے ، یہ اس کی بزرگی ہے ۔ ایک دن میں نے اس کے سامنے پیش ہونا ہے ، اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ، تو میں کیوں فروعات میں پڑوں ، ان باتوں کا اہتمام کروں جن سے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہونے والا ، میں اپنے پروردگار ، اپنے محبوب کو راضی اور خوش کرنے والے کام کیوں نہ کروں ، تاکہ میں قیامت کے دن اس کی ناراضگی سے بچ سکوں اور اس کے قرب کا حقدار ٹھہرایا جا سکوں ۔ اس راستے کی رکاوٹوں کی مجھے کوئی پرواہ نہیں ، کیونکہ میرا محبوب بھی تو ایک بے نیاز ذات ہے ۔​
پیشکش :۔ نیرنگ خیال
ترجمہ و تشریح:۔ مسکین چھوٹا
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بریاں، بریاں، بریاں وے، اسیں بریاں وے لوکا
بریاں کول نہ بہو وے
تِیراں تے تلواراں کولوں ، تِکھیاں برہوں دیاں چھریاں وے لوکا
لد سجن پردیس سدھائے، اسیں وداعا کرکے مڑیاں وے لوکا
چےتوں تخت ہزارے دا سائیں، اسیں سیالاں دیاں کڑیاں وے لوکا
سانجھ پات کاہوں سوں ناہیں، ساجن کھوجن اسیں ! ٹریاں وے لوکا
جنہاں سائیں دا ناں نہ لتّا، اوڑک نوں اوہ جھریاں وے لوکا
اساں اوگن ہاریاں جیہہ، کہے حسین فقیر سائیں دا
صاحب سیوں اسیں جڑیاں وے لوکا
ترجمہ:
بُری، بُری، ہاں بُری، ہم بُری ہیں لوگو!
تو بُروں کے پاس مت بیٹھو
سنو جدائی کی چھریاں تیر اور تلواروں سے زیادہ کاٹ دار ہوتیں ہیں
ہم اپنے محبوب کو پردیس رخصت کر کے واپس پلٹی ہیں
یاد رکھو کہ ہم بھی سیالوں کی لڑکیاں ہیں گر تم کو اپنے تخت ہزارے کے شہزادے ہونے کا اتنا مان ہے
ہم تو دن رات بھلا کر ساجن کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئیں ہیں
جن لوگوں نے سچے رب (اللہ) کا نام کبھی نہیں لیا روز محشر ان سے زیادہ پچھتانے والا کوئی نہ ہوگا
اور سچے رب (اللہ) کا فقیر حسین یہ سب ہم جیسوں کے لیئے کہتا ہے
ہمارا تعلق تو اس سچے رب (اللہ) سے ہی جڑا ہوا ہے
نوٹ: سرائیکی پر عبور نہ ہونے کی وجہ سے ہو سکتا ہے ترجمے میں تشنگی کا عنصر رہ جائے۔ تو شفقت سے کام لے کر گرفت کرنے کی بجائے تصحیح کر دی جائے۔ آپکا ممنون رہوں گا۔​
 
Top