سعود عثمانی کشیدہ پر کو مخالف ہوا بھی ملتی ہے............سعود عثمانی

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
کشیدہ پر کو مخالف ہوا بھی ملتی ہے
یہ وہ ہنر ہے کہ جس کی سزا بھی ملتی ہے

تیری شبیہ جو ملتی نہیں کسی سے کبھی
کبھی کبھی کسی چہرے سے جا بھی ملتی ہے

میں اپنے ساتھ بہت دور جا نکلتا ہوں
اگر کبھی مجھے فرصت ذرا بھی ملتی ہے

یہ سیپیوں کی خموشی ہے کان دھر کے سنو
سمندروں کی اسی میں صدا بھی ملتی ہے

تو جانتا نہیں مٹی کی برکتیں کہ یہیں
خدا بھی ملتا ہے، خلقِ خدا بھی ملتی ہے

میں اک شجر سے لپٹتا ہوں آتے جاتے ہوئے
سکوں بھی ملتا ہے مجھ کو، دعا بھی ملتی ہے
 
Top