کشف و الہام کی حقیقت !

کشف و الہام کی حقیقت !

کشف و الہام سے متعلق ہر دو اطراف شدید غلو کا شکار ہیں ایک طرف تو اسے صریح شرک قرار دیا جاتا ہے تو دوسری طرف اسکو حجت شرعی قرار دینے کی کوشش ہوتی ہے ....
کوشش کرتا ہوں کہ افراط و تفریط سے ہٹ کر کچھ بیان کر سکوں

کشف کی دو بنیادی اقسام ہو سکتی ہیں

١ کشف علمی
٢ کشف الہامی

کشف سے مراد کسی عقدہ کا کھل جانا ہے سوچ کا کوئی نیا در وا ہونا کسی نئی بات کا سمجھ آنا یا کسی پرانی بات کی کوئی نئی تعبیر کا سوجھ جانا ..........

کشف علمی امور دینیہ میں بھی ہوتا ہے اور امور دنیوی میں بھی یہ مسلمان کو بھی ہو سکتا ہے اور غیر مسلم کو بھی ......

علمی مکاشفات کا مشاہدہ ہر شخص کر سکتا کسی بھی مسلے پر تنہائی میں یا کسی عالم کی صحبت میں غور فکر کرنا اور کسی نئی راہ کا کھل جانا

مدینہ طیبہ میں جب نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد بنائی گئی تو اس کی ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کا وقت قریب ہونے کی اطلاع دینے کا کوئی خاص طریقہ اختیا کیا جائے۔ رسو ل اللہ صل الله علیہ وسلم نے جب اس بارے میں صحابہ کرام سے مشاورت کی تو اس سلسلے میں چار تجاویز سامنے آئیں:

نماز کے وقت بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کیا جائے۔
کسی بلند جگہ پر آگ روشن کر دی جائی۔
یہودیوں کی طرح سینگ بجایا جائے۔
عیسائیوں کی طرح ناقوس بجایا جائے۔


حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ جو اپنے قبیلے کے منادی تھے ۔رسول اللہ ﷺسے عرض کیا ” یا رسول اللہ ﷺمیں نے کل رات خواب میں اپنے آپ کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے پایا اور دیکھا کہ ایک شخص سبز کپڑے پہنے ہوئے اور ہاتھ میں ناقوس لیئے میرے پاس سے گزر کر جارہا ہے ۔ یہ دیکھ میں نے اس شخص سے کہا ، یہ ناقوس قیمتاََ مجھے دیدو، اس شخص نے پوچھا ، تم اس کا کیا کروگے؟ میں نے کہا ”ہم اس کے ذریعے لوگوں کو نماز کے لئے بلایا کریں گے“ میرا یہ جواب سن کر وہ بولا ”اگر میں نماز کے لئے لوگوں کو بلانے کا اس سے بہتر ذریعہ تمہیں بتاﺅں تو“؟ میں نے پوچھا ” وہ کیا“ اس نے جواب دیا ”ہر نماز کے وقت مسجد سے با آواز بلند یہ اعلان کیا کرو، اور اس نے مجھے مخصوص کیفیت کے ساتھ یہ سکھایا۔

اللہ اکبر اللہ اکبر، اللہ اکبر اللہ اکبر، اشہد ان لا الہ الا اللہ، اشہد ان لا الہ الا اللہ،
اشہد ان محمدارسول اللہ ، اشہد ان محمدارسول اللہ ، حی علی الصلٰوة، حی علی الصلٰوة،
حی علی الفلاح، حی علی الفلاح، اللہ اکبر اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ۔

اور اسی طرح اقامت بھی سکھائی کہ جب نمازی نماز کے لئے کھڑے ہوجائیں تو بطور اعلان اقامت یہ کہا جائے۔
اللہ اکبر اللہ اکبر، اللہ اکبر اللہ اکبر، اشہد ان لا الہ الا اللہ، اشہد ان لا الہ الا اللہ،
اشہد ان محمدارسول اللہ ، اشہد ان محمدارسول اللہ ، حی علی الصلٰوة، حی علی الصلٰوة،
حی علی الفلاح، حی علی الفلاح،قدقا مت الصلٰوة،قدقا مت الصلٰوة، اللہ اکبر اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ نے فرمایا ” یقینا انشا اللہ یہ خواب حق ہے ، جاﺅ حضرت بلا لؓ کو بتاﺅ ، کیونکہ ان کی آواز بلند تر، اور شیریں تر ہے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے اذان سنی تومسجد آئے اورآپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ، یا رسول اللہ ﷺ میں نے بھی وہی کچھ دیکھا ہے جو عبداللہ بن زید ؓ نے بیان کیا ہے،اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ نے فرمایا ”اگر ایسا ہی ہے تو ان دونوں خوابوں میں یا تمہارے خواب کی موافقت پر اللہ تعالیٰ ہی کو حمد ہے کہ اس نے اپنی طرف سے الہام فرمایا اور صدق و صواب کا راستہ دکھایا ۔ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ جبرئیل علیہ السلام حضور ﷺ کے پاس وحی لے آئے اور اذان کی تصدیق ہوگئی۔

بلال رضی اللہ عنہ نے صبح کی اذان میں دو بار ” الصلاة خیر من النوم“ کا اضافہ کردیا تھا جسے رسول اللہ ﷺ نے پسند فرمایا تھا۔ پہلے ہی روز حضرت عمر ؓ نے حضرت بلال ؓ کی زبان سے اذانِ فجرمیں ان الفاظ کا اضافہ سنا تو انہوں نے مسجد میں حاضر ہوکر رسول اللہ ﷺسے عرض کیا کہ انھوں نے بھی خواب میں تھوڑی ہی دیر پہلے ایک غیبی آواز سنی تھی جس میں اذان فجر میں انہی کلمات کا اضافہ تھا۔ یہ کہہ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ”میں اذان فجر میں ان کلمات کے اضافے کی تجویز آپ کی خدمت میں پیش کرنے والا تھا لیکن بلال رضی اللہ عنہ کسی سے کہے سنے بغیر مجھ پر بھی سبقت لے گئے۔ “ (ماخوذ : تاریخ ابن کثیر ، جلد سوم)

اذان کی ابتداء کیسے ہوئی
(M. Zamiruddin Kausar , Karachi)
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=32395

موجودات کی اس تغیر پذیر دنیا میں بےشمار ایسی ایجادات ہیں جب موجد دریافت کچھ اور کرنا چاہتا تھا اور ہو کچھ اور گیا ایک سیب کے گرنے سے نیوٹن کی توجہ لاء آف گراویٹی کی طرف مبذول ہوجانا کشف علمی کی ہی ایک مثال ہے ......

حضرت عمر فاروق رض کے ساتھ یہ معاملہ کثرت سے پیش آتا تھا

عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صلی الله عليه وآله وسلم، أَنَّهُ کَانَ يَقُوْلُ : قَدْ کَانَ يَکُوْنُ فِی الْأُمَمِ قَبْلَکُمْ مُحَدَّثُوْنَ فَإِنْ يَکُنْ فِي أُمَّتِی مِنْهُمْ أَحَدٌ، فَإِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مِنْهُمْ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَ التِّرْمَذِيُّ.
وقَالَ ابْنُ وَهْبٍ : تَفْسِيْرُ مُحَدَّثُوْنَ مُلْهَمُوْنَ.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ تم سے پہلی امتوں میں محدَّثون ہوتے تھے۔ اگر میری امت میں کوئی محدَّث ان میں سے ہے تو وہ عمر بن الخطاب ہے، ابن وہب نے کہا محدَّث اس شخص کو کہتے ہیں جس پر الہام کیا جاتا ہو۔ اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 26 : أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل عمر، 4 / 1864، الحديث رقم : 2398، و الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر بن الخطاب، 5 / 622، الحديث رقم : 3693، و ابن حبان فی الصحيح، 15 / 317، الحديث رقم : 6894، و الحاکم فی المستدرک علی الصحيحين، 3 / 92، الحديث رقم : 4499، و النسائي في السنن الکبریٰ، 5 / 39، الحديث رقم : 8119.
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو یہ سعادت کئی مرتبہ حاصل ہوئی کہ وحیِ خداوندی نے ان کی رائے کی تائید کی۔ حافظ جلال الدین سیوطی نے “تاریخ الخلفاء” میں ایسے بیس اکیس مواقع کی نشاندہی کی ہے، اور امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ نے “ازالة الخفاء عن خلافة الخلفاء” میں دس گیارہ واقعات کا ذکر کیا ہے، ان میں سے چند یہ ہیں:
۱:…حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ جنگِ بدر کے قیدیوں کو قتل کیا جائے، اس کی تائید میں سورة الانفال کی آیت:۶۷ نازل ہوئی۔
۲:…منافقوں کا سرغنہ، عبداللہ بن اُبیّ مرا تو آپ کی رائے تھی کہ اس منافق کا جنازہ نہ پڑھایا جائے، اس کی تائید میں سورة التوبہ کی آیت:۸۴ نازل ہوئی۔
۳:…آپ مقامِ ابراہیم کو نمازگاہ بنانے کے حق میں تھے، اس کی تائید میں سورہٴ بقرہ کی آیت:۱۲۵ نازل ہوئی۔
۴:…آپ ازواجِ مطہرات کو پردہ میں رہنے کا مشورہ دیتے تھے، اس پر سورہٴ احزاب کی آیت:۵۳ نازل ہوئی اور پردہ لازم کردیا گیا۔
۵:…ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جب بدباطن منافقوں نے نارَوا تہمت لگائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (دیگر صحابہ کے علاوہ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی رائے طلب کی، آپ نے سنتے ہی بے ساختہ کہا: “توبہ! توبہ! یہ تو کھلا بہتان ہے!” اور بعد میں انہی الفاظ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی برأت نازل ہوئی۔
۶:…ایک موقع پر آپ نے ازواجِ مطہرات کو فہمائش کرتے ہوئے ان سے کہا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں طلاق دے دیں تو اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے بہتر بیویاں عطا کردے گا، اس کی تائید میں سورة التحریم کی آیت نمبر:۵ نازل ہوئی، وغیرہ وغیرہ۔

ایسے ہی کچھ واقعات الفرقان میں ابن تیمیہ رح نے بھی نقل فرمائے ہیں .

اب گفتگو کرتے ہیں کشف الہامی سے متعلق...

الہام: بمعنى وہ بات جو اللہ تعالى يا ملاء أعلى كى جانب سے كسى كے دل ميں ڈال دى جائےاور بمعنى سمجھ اور بصيرت عطا فرمانا۔ توفيق دينا (منجد) وحى كى طرح الہام بھی شيطانى ہو سكتا ہے۔ خصوصا جب كہ اس كا كسى آيت شرعيہ سے استدلال نہ ہو سکتا ہو۔

جیسا کہ قرآن کریم میں اسکا استعمال ہوا ہے

فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا (سورة الشمس،سورة نمبر:91، آيت 8) پھر انسان كو بدى (سے بچنے) كى اور پرہیزگاری (اختيار كرنے) كى سمجھ دی۔

یا ایک جگہ بیان کیا گیا

وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ( سورة الانعام:سورة 6، آيت 12) "اور شیطان اپنے رفيقوں کے دل ميں بات ڈالتے ہیں كہ وہ تم سے جھگڑا کریں ۔"

کشف الہامی دو طرح سے ہو سکتا ہے

١ سچے خواب
٢ دل میں کسی بات کا القاء کیا جانا

سچے خواب مبشرات میں سے ہیں

علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ تمام انسانوں اور انبیاء کے خواب میں فرق کی وجہ اپنی اپنی روحانی استعداد ہے . تمام لوگوں کی روحانی استعداد میں سب سے بڑی رکاوٹ خود حواس ظاہرہ ہیں . انبیاء کے خوابوں کے متعلق لکھتے ہیں ''وہ اس استعداد کاکام ہے جس میں انسان بشریت چھوڑ کر ملوکیت جیسے بلند اور روحانی مقام میں جذب ہو جاتا ہے .
مقصد یہ ہے کہ انسان میں جسقدر روحانی استعداد زیادہ ہو گی . اسی قدر اس کے خواب زیادہ سچے ہوں گے اور طاہر ہے کہ انبیاء کی روحانی استعداد اور تمام دوسروں انسانوں سے زیادہ بلند ہوتی ہے .اس لئے ان کے خواب سو فیصد سچے اور الہامی ہو تے ہیں .
پیغمبروں پر یہ حالت اس وقت طاری ہو تی ہے جب وحی کے نازل ہو نے کا وقت آتا ہے .ایسے موقع پر انہیں نیند کی طرح ادراک ہو تا ہے . نیند اور وحی کی اس مشابہت ہی کے باعث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب کو نبوت کا چھیالسوں حصہ قرار دیا ہے .

علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں .
پس یہ بات خدا نے انسان کی فطرت میں ڈال دی ہے کہ وہ نیند کی حالت میں حواس کا پردہ اپنی ذات سے علیحدہ کر دیتا ہے .اور اس پردہ کے اٹھ جانے کے بعد نفس عالم کا حق کے مشاہدات سے معرفت حاصل کرتا ہے . بعض اوقات اس پر معرفت کا ایسا لمحہ بھی آتا ہے جب اسے اپنی آرزوؤں کی تکمیل کا علم ہو جاتا ہے . یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مبشرات کہا ہے اور فر مایای ہے کہ ''نبوت باقی نہ رہیگی '' مگر مبشرات باقی رہ جائیں گے .

مختصر صحیح بخاری
خوابوں کی تعبیر کا بیان
باب : اچھے خواب خوشخبریاں ہیں۔
حدیث نمبر : 2180
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ نبوت میں سے فقط مبشرات (بشارتیں) باقی رہ گئی ہیں۔” صحابہ نے عرض کی کہ مبشرات (خوشخبریاں) کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ اچھے خواب۔” (مبشرات یعنی خوشخبری اور بشارتیں ہیں)۔

کشف الہامی کی دوسری قسم دل میں کسی بات کا القاء کر دیا جانا ہے ....

یہ صلاحیت بھی مسلم اور غیر مسلم دونوں کو حاصل ہو سکتی ہے دونوں کی ایک ایک مثال ملاحظہ کیجئے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ابن صیاد کے ساتھ قصہ :
امام بخاری بیان کرتے ہیں کہ ہمیں عبدان نے عبداللہ سے حدیث بیان کی وہ یونس سے اور یونس زہری سے بیان کرتے ہیں اور زہری بیان کرتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ نے مجھے بتایا کہ انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک گروپ میں ابن صیاد کی طرف گئے تو اسے بنو غلم کے قلعہ کے پاس بچوں میں کھیلتے ہوئےپایا اور ابن صیاد بلوغت کے قریب پہنچ چکا تھا تو اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کا کچھ پتہ نہ چلا حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہاتھ سے مارا پھر ابن صیاد کو کہنے لگے کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو ابن صیاد نے ان کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں تو ابن صیاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہنے لگا کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا اور رفض کر دیا اور کہنے لگے میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا کہ تو کیا دیکھتا ہے ابن صیاد کہنے لگا میرے پاس سچا اور جھوٹا آتا ہے
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھ پر معاملہ الٹ پلٹ ہو گیا ہے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا میں تیرے لئے ایک چھپانے والی چیز چھپائی ہے تو ابن صیاد کہنے لگا وہ الداخ ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ذلیل ہو جا تیری قدر بڑھ نہیں سکتی تو عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اتار دوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ رہنے والا ہے تو تو اس پر مسلط نہیں ہو سکتا اور اگر نہیں تو اس کے قتل میں آپ کی کوئی بھلائی نہیں اور سالم کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا وہ کہہ رہے تھے اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کھجوروں کے باغ میں گئے جہاں ابن صیاد موجود تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بہت زیادہ کوشش تھی کہ ابن صیاد کے دیکھنے سے قبل ان کی چوری چھپے بات سنی جائے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی چھو درا چادر میں لپٹا ہوا تھا اور اس کی نہ سمجھ آنے والی آواز تھی جس سے اس کے ہونٹ ہل رہے تھے تو ابن صیاد کی ماں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کہ کھجور کے تنوں کے پیچھے پیچھے چھپ چھپ کر چل رہے تھے دیکھ کر ابن صیاد کو کہا اے صاف جو کہ ابن صیاد کا نام ہے یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو ابن صیاد کود کر اٹھ بیٹھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے اگر وہ اسے چھوڑ دیتی تو اس کا معاملہ واضح ہو جاتا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ١٢٥٥

دوسرا واقعہ حضرت عمر فاروق رض کا ہے ابن تیمیہ رح نے الفرقان میں اسکو نقل فرمایا ہے

سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے ایک لشکر جہاد کے لیے کسی دور دراز علاقے میں بھیجا تھا اور اس لشکر کا امیر ساریہ نامی ایک شخص کو مقرر کیا تھا … اپنے علاقے میں خطبہ دیتے ہوئے امیر عمر کی زبان سے یہ جملہ نکلا'' یا ساریة الجبل الجبل'' یعنی اے ساریہ پہاڑ کی طرف کا خیال کرو ۔ اﷲ تعالیٰ نے عمر فاروق کی یہ آواز اس دور کے علاقے میں پہنچا دی اور لشکر نے اپنی حفاظت کا بندوبست کر لیا۔ یہ واقعہ سند کے اعتبار سے قابل قبول ہے دیکھئے سلسلة الصحیحہ حدیث 1110 فتاویٰ الجنہ الدائمہ رقم الفتویٰ 17021 مجموع فتاویٰ ابن عثیمین 311/4 وغیرہ

چونکہ اس روایت سے متعلق کافی گرد اڑائ گئی ہے اسلئے مختلف طرق سے اس سے متعلق محدثین کی آراء نقل کر دوں.

أنَّ عمرَ وجَّهَ جيشًا ورأَّسَ عليهم رجلًا يقال له : ( ساريةُ ) ، قال : فبينما عمرُ يخطبُ ، فجعل يُنادي : يا ساريةُ الجبلَ ، يا ساريةُ الجبلَ ( ثلاثًا ) ، ثم قدم رسولُ الجيشِ فسألَه عمرُ ؟ فقال : يا أميرَ المؤمنين ! هُزِمْنَا ، فبينما نحنُ كذلك إذ سمعنا مناديًا : يا ساريةُ الجبلَ ( ثلاثًا ) ، فأسنَدْنا ظُهورنا بالجبلِ ، فهزمَهُمُ اللهُ . قال : فقيل لعمرَ : إنك كنتَ تصيحُ بذلكَ
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: الألباني - المصدر: الآيات البينات - الصفحة أو الرقم: 93
خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد حسن

فجعل يُنادي يا ساريةُ الجبلَ يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا ثم قدِم رسولُ الجيشِ فسأله عمرُ فقال : يا أميرَ المؤمنين هُزِمْنا فبينما نحن كذلك إذ سمعْنا مناديًا يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا فأسندْنا ظهورَنا بالجبلِ فهزمَهم اللهُ قال : فقيل لعمرَ : إنك كنت تصيحُ بذلك
الراوي: - المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 3/101
خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد حسن

عن ابنِ عمرَ قال وجَّهَ عمرُ جيشًا ورأَّسَ عليهم رجلًا يُدعى ساريةَ فبينا عمرُ يخطبُ جعل يُنادي يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا ثم قدم رسولُ الجيشِ فسألَه عمرُ فقال يا أميرَ المؤمنين هُزمنا فبينا نحن كذلك إذ سمعنا صوتًا يُنادي يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا فأسندنا ظهْرَنا إلى الجبلِ فهزمَهُمُ اللهُ تعالَى قال قيل لعمرَ إنك كنتَ تصيحُ بذلك
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: الإصابة - الصفحة أو الرقم: 2/3
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن

وجَّهَ عُمَرُ جَيشًا , وولَّى عليهِمْ رجُلًا يُدعَى سارِيةَ و فَبَينا عُمرُ يَخطُبُ جَعلَ يُنادي يا سارِيَةُ الجبَلَ ثلاثًا ثُمَّ قدِمَ رسولُ الجيشِ فسألَهُ عُمرُ , فقال يا أميرَ المؤمنينَ هُزِمنا فبينا نَحنُ كذلِكَ إذ سمِعنا صوتًا ينادي يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا , فأسنَدنا ظَهرَنا إلى الجبَلِ فهزَمَهُم اللَّهُ , قال فقيلَ لعُمَرَ إنَّكَ كنتَ تَصيحُ هكَذا
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: العجلوني - المصدر: كشف الخفاء - الصفحة أو الرقم: 2/515
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن

أنَّ عُمرَ وجَّهَ جيشًا ورَأَّسَ عليهِمْ رَجلًا يقالُ لهُ سارِيةُ قال فبينما عُمَرُ يخطُبُ فجعَلَ ينادي يا سارِيَ الجبلَ يا سارِيَ الجبلَ ثلاثًا ثمَّ قَدِمَ رسولُ الجيشِ فسأَلهُ عُمرُ فقال يا أميرَ المؤمنينَ هُزِمنا فبينما نحنُ كذلِكَ إذ سَمِعنا مُنادِيًا يا سارِيةَ الجبَلَ ثلاثًا فأسندنَا ظُهورَنا بالجبَلِ فهزَمَهُمُ اللَّهُ قال فقيل لِعُمَرَ إنَّكَ كُنتَ تَصيحُ بِذلِكَ
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: ابن كثير - المصدر: البداية والنهاية - الصفحة أو الرقم: 7/135
خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد حسن

عن عمرَ أنه قالَ في خطبتِه يومَ الجمعةِ : يا ساريةَ الجبلَ الجبلَ . فالتفتَ الناسُ بعضُهم لبعضٍ فلم يفهموا مرادَه ، فلما قضى الصلاةَ ، قال له عليٌّ : ما هذا الذي قلتَه ؟ قال : وسمعتُه ؟ قال : نعم وكلُّ أهلِ المسجدِ ، قالَ : وقعَ في خلدي أن المشركين هزموا إخوانَنا وركبوا أكتافَهم وهم يمرون بجبلٍ فإن عدلوا إليه قاتلوا من وجدوا وظفروا وإن جازوا هلكوا فخرجَ مني هذا الكلامُ . فجاءَ البشيرُ بعد شهرٍ فذكرَ أنهم سمعوا في ذلك اليومِ وتلك الساعةِ حين جاوزوا الجبلَ صوتًا يشبهُ صوتَ عمرَ ، قالَ : فعدلْنا إليه ففتحَ اللهُ
الراوي: - المحدث: ابن الملقن - المصدر: الإعلام - الصفحة أو الرقم: 1/144
خلاصة حكم المحدث: إسناده كل رواته ثقات

(http://www.dorar.net/hadith...)

اسی طرح ایک اور روایت ملتی ہے

’حضرت حارث بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا : ’’اے حارث! (سناؤ) تم نے صبح کیسے کی؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے ایمان کی حقیقت پاتے ہوئے صبح کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے حارث! غور کر کے بتاؤ تم کیا کہہ رہے ہو؟ بے شک ہر شے کی ایک حقیقت ہوتی ہے، تمہارے ایمان کی کیا حقیقت ہے؟ عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے اپنے نفس کو دنیا کی محبت سے جدا کر لیا ہے اور راتوں کو جاگ کر عبادت کرتا ہوں اور دن کو (روزے کے سبب) پیاسا رہتا ہوں گویا میں اپنے رب کے عرش کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں اور مجھے ایسے لگتا ہے جیسے جنتی ایک دوسرے کی زیارت کرتے جا رہے ہیں اور دوزخیوں کو (اس حالت میں) دیکھتا ہوں کہ وہ ایک دوسرے پر گر رہے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے حارث تم عارف ہو گئے، پس اس (کیفیت و حال) کو تھامے رکھو اور یہ (جملہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا۔‘‘
ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 170، رقم : ٣٠٣٢٥

پھر عرض کر دوں کہ کشف کا تعلق اسلام یا کفر ولی یا گناہ گار سے نہیں یہ معاملہ غیر اختیاری ہے اور کسی کے ساتھ بھی پیش آ سکتا ہے کشف یا مبشرات حجت شرعی نہیں لیکن انکا انکار بھی ممکن نہیں بہتر یہی ہے کہ افراط و تفریط سے بچتے ہوے معاملے کی تفہیم حاصل کی جائے.

واللہ اعلم بالصواب۔

حسیب احمد حسب
 

متلاشی

محفلین
حسیب بھائی آپ کی گفتگو سے متفق ہوں۔۔ اور جب آپ نے خود گفتگو کے آخر میں لکھ دیا کہ کشف یا مبشرات الہام وغیرہ حجتِ شرعیہ نہیں بن سکتے ۔۔۔ تو پھر تو سارے مسئلے کا حل نکل آیا ۔۔۔ کیونکہ جو لوگ کشف و الہام وغیرہ کو مانتے ہیں وہ اسے قرآن و سنت کے مقابلہ میں شرعی حجت کے طور پر لاتے ہیں ۔۔۔۔ جبکہ کشف یا الہام خود صاحبِ کشف کے لیے بھی شرعی حجت نہیں ہوتا چہ جائیکہ دیگر لوگوں کے لئے ۔ جبکہ یہاں تو یہ حال یہ ہے کہ سارے مسائل کا حل کشف و الہام کے ذریعہ کیا جاتا ہے اور لوگوں کو بھی اس پر ایمان لانے کی دعوت دی جاتی ہے اور نہ ماننے والے کو گناہ گار ٹھہرایا جاتا ہے ۔۔۔

کشف یا مبشرات حجت شرعی نہیں لیکن انکا انکار بھی ممکن نہیں بہتر یہی ہے کہ افراط و تفریط سے بچتے ہوے معاملے کی تفہیم حاصل کی جائے.
 
Top