محسن نقوی کس نے سنگِ خامشی پھینکا بھرے بازار پر - محسن نقوی

کس نے سنگِ خامشی پھینکا بھرے بازار پر
اک سکوتِ مرگ جاری ہے در و دیوار پر

تو نے اپنی زلف کے سائے میں افسانے کہے
مجھ کو زنجیریں ملی ہیں جراتِ اظہار پر

شاخِ عریاں پر کھلا اک پھول اس انداز سے
جس طرح تازہ لہو چمکے نئ تلوار پر

سنگ دل احباب کے دامن میں رسوائی کے پھول
میں نے دیکھا ہے نیا منظر فرازِ دار پر

اب کوئی تہمت بھی وجہِ کربِ رسوائی نہیں
زندگی اک عمر سے چپ ہے ترے اصرار پر

میں سرِ مقتل حدیثِ زندگی کہتا رہا
انگلیاں اٹھتی رہیں محسن مرے کردار پر

محسن نقوی
 

فاتح

لائبریرین
واہ خوبصورت انتخاب ہے۔ شکریہ جناب شامی صاحب۔
درج ذیل مصرعوں کو دیکھیے گا شاید کتابت کی اغلاط ہیں:
اک سکوتِ مرگ جاری ہے در و دیوار پر

تو نے اپنی زلف کے سائے میں فسانے کہے

درست شاید یوں ہے:
اک سکوتِ مرگ طاری ہے در و دیوار پر

تو نے اپنی زلف کے سائے میں افسانے کہے
 
واہ خوبصورت انتخاب ہے۔ شکریہ جناب شامی صاحب۔
درج ذیل مصرعوں کو دیکھیے گا شاید کتابت کی اغلاط ہیں:

درست شاید یوں ہے:
اک سکوتِ مرگ طاری ہے در و دیوار پر

تو نے اپنی زلف کے سائے میں افسانے کہے

شکریہ محترم فاتح صاحب
پہلا مصرع اسی طرح ہے ۔
اک سکوتِ مرگ جاری ہے در و دیوار پر
ہاں دوسرے مصرعے میں واقعی غلطی ہو ئی تھی اب درست کر دی ہے ۔
رہنمائی کیلیے بہت بہت شکریہ ۔
 
Top